آخر ہمارا کیا بنے گا؟

    آخر ہمارا کیا بنے گا؟
    آخر ہمارا کیا بنے گا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 گزشتہ کچھ عرصہ سے ایک خیال مسلسل دِل میں آتا ہے کہ ہمارا معاشرہ کس سمت جا رہا ہے گزشتہ 37 سال سے اخبار کے ساتھ منسلک رہنے کی وجہ سے اِس وقت تک صبح نہیں ہوتی جب تک اخبار نہ پڑھ لیا جائے یا ٹی وی پر خبریں نہ دیکھ لی جائیں،مگر اب تو سوائے ”بری خبروں“ کے اور کچھ نہیں ملتا۔ میرے لئے بری خبر قتل وغارت، کسی کے ساتھ زیادتی، خاص طور سے معصوم بچوں، بچیوں اور بے بس عورتوں کے ساتھ برا سلوک ہے۔راہ چلتے نہتے لوگوں کے ساتھ جو سلوک اِس وقت ملک بھر میں ہو رہا ہے اِس کے بعد تو لگتا نہیں کہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ کیا قائداعظمؒ نے یہ ملک ایسے درندوں کے لئے بنایا تھا۔ ہم میں اور جانوروں میں زیادہ فرق نہیں رہا۔ ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ ”کہلاتا“ ہے۔ اسلامی جمہوریہ جہاں اسلام بھی ہے اور جمہوریت بھی ہے۔اب اسلام تو نظر ہی نہیں آ رہا اور جمہوریت پر ہم یقین نہیں رکھتے۔ 1400 سال پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں جس دین کی تعلیم دی اس میں تو عورت بہت محترم ہے۔ اسلام سے پہلے عرب میں بچیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفنا دیا جاتا تھا۔ وہ معاشرہ نبی کریمؐ کے آنے کے بعد بدل گیا، مگر آج 1400 سال بعد ہم آنحضورؐ کی تعلیمات کو بھول گئے ہیں۔ گزشتہ چند دِنوں میں اتنے تکلیف دہ واقعات ہوئے کہ سمجھ نہیں آ رہی۔ ٹی وی پر چوبیس گھنٹے بریکنگ نیوز کے نام پر ”بری خبریں“ سنائی اور دکھائی دیتی ہیں۔یہ کیسا ملک ہے،کیا یہاں کوئی قانون اور قانون کے محافظ بھی ہیں؟اگر ہیں تو ظلم کرنے والے بچ کیسے جاتے ہیں۔انہیں کوئی سزا کیوں نہیں دیتا۔ چند دن میں جو کیس سب سے زیادہ تکلیف کا باعث بنا ہے وہ اپنے بھتیجے اور بھتیجی کے ساتھ عید منانے کے لئے کراچی سے فیصل آباد جانے والی 29 سالہ مریم کا ہے،جو ملت ایکسپریس سے سات  اپریل کو روانہ ہوئی۔  مریم کی لاش تو آٹھ اپریل کو اُس کے گھر والوں کو یہ کہہ کر دی گئی کہ ٹرین سے ”گر کے مر گئی“ اور یوں ”اتفاقیہ موت“ کہہ کر معاملہ نبٹا دیا گیا۔

بدقسمت مریم کی ویڈیو وائرل نہ ہوتی تو کسی کو کچھ پتہ نہ چلتا کہ ہوا کیا تھا۔ کیسے طاقت اور وردی کے نشے میں چور سپاہی میر حسن پہلے بچوں کو مارتا ہے اور پھر اس عورت پہ ہاتھ اُٹھاتا ہے، لیکن عورت پر ہاتھ اُٹھانے والے اِس بزدل سے زیادہ بزدل تو وہ لوگ تھے جو وہاں کھڑے ہوئے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ ایک عورت پٹ رہی ہے، مار کھا رہی ہے،اُس کے بال کھینچے جا رہے ہیں، وہ چلا رہی ہے اور وہاں پہ کھڑے ہوئے ”مرد“ جنہیں مرد کہنے کو دِل نہیں چاہتا۔یہ کیسے مرد ہیں،جو اسلام کی تعلیمات بھول گئے۔کیا ہمیں وہ حدیث نبویؐ بھول گئی کہ برا ہوتے دیکھو تو ہاتھ سے روکو، ہاتھ سے نہیں روک سکتے تو زبان سے برا کہو اور اگر زبان سے بھی برا نہیں کہہ سکتے تو دِل میں تو برا کہو، مگر وہاں چلتی ٹرین میں موقع پر موجود ”مرد یا مرد نما“ کھڑے تماشہ دیکھتے رہے کسی نے نہ روکا۔اگر ویڈیو وائرل نہ ہوتی تو وہ تو دفن ہو ہی چکی تھی ”اتفاقیہ موت“۔ لیکن بات یہ ہے کہ کیا ریاست نے اپنی ذمہ داری پوری کی، مگر یہاں ریاست کو پرواہ ہی نہیں ہے۔ کوئی ہے،جو ریلوے کے ریکارڈ کو چیک کرے کہ اس بوگی کے اندر جو لوگ بیٹھے تھے ان کے نام اور پتے کیا ہیں، ان کا ٹیلی فون نمبر کیا ہے، ان کو طلب کیا جائے اور انہیں شامل تفتیش کیا جائے۔ان سے پوچھا جائے کہ تم کیا کر رہے تھے  کیا سو رہے تھے؟ تمہارا سیٹ نمبر تو وہی ہے جہاں پہ اس بدقسمت عورت کو مار پڑ رہی تھی۔ بچوں کے بیان کو تو جھٹلا دیا جائے گا کہ نو سالہ کنول اور 12سالہ غالب کا بیان کیا حیثیت رکھتا ہے۔بات یہ ہے کہ جب یہ واقعہ ہوا اس کے بعد اگلے آٹھ گھنٹے وہ لڑکی کہاں تھی، کس کے پاس تھی، کس کے ساتھ تھی، کیونکہ جب وہ پولیس والا جو لڑکی کو گھسیٹ کر لے گیا اس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ تو حیدر آباد میں اتر گیا تھا۔ اس کے اسلحہ جمع کرانے اور اس کے موبائل کا ریکارڈ کی بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ وہ تو حیدرآباد سے آگے نہیں گیا۔اگر وہ حیدرآباد اُتر گیا تھا تو اس نے لڑکی کسی کے تو حوالے کی تھی۔ چلو مان لیا کہ اس لڑکی نے خود کشی کی تو کیا چیز تھی،جس نے اسے آٹھ گھنٹے کے بعد خودکشی پہ مجبور کیا۔ مار پیٹ کا واقعہ حیدرآباد سندھ میں ہوتا ہے اور خود کشی آٹھ گھنٹے کے بعد بہاولپور میں کرتی ہے۔

 کیا اس لڑکی کی قبر کشائی کرکے اور اس کا جسد ِ خاکی نکال کر اس کا دوبارہ پوسٹ مارٹم کرنا ضروری نہیں کہ دیکھا جا سکے کہ کیا اس کے ساتھ کسی نے زیادتی تو نہیں کی، لیکن اس بارے کوئی زبان نہیں کھول رہا۔ میرے جیسے لکھتے رہیں گے بولنے والے ٹی وی سکرین اور سوشل میڈیا پر بولتے رہیں گے، مگر کچھ نہیں ہو گا۔ بے حسوں کا زمانہ ہے، بے حسوں کی حکومت ہے۔ ہم مجبور اور بے بس لوگ برداشت کرتے اور مرتے رہیں گے۔

ایک اور واقعہ چکوال کا ہے،جہاں ایک شخص نے اپنی بیوی کو بیٹی پیدا کرنے پر قتل کر دیا۔ یہ وہی جرم ہے، جس سے ہمیں ہمارے مذہب نے روکا تھا۔اس بدقسمت عورت نے ایک بیٹی کو جنم دیا اور یہی اس کا جرم ٹھرا۔ اس کی شادی ایک سال قبل ہوئی تھی۔ ڈیڑھ ماہ پہلے بیٹی پیدا ہوئی تو بیوی کو مار دیا۔ کیا کسی نے ایسے جاہلوں کو یہ نہیں پڑھایا کہ انہوں نے اللہ اور اس کے نبی کو منہ بھی دکھانا ہے۔ جب میدانِ حشر میں اللہ کے آخری نبیؐ کے سامنے پہنچیں گے تو کس منہ سے شفاعت مانگیں گے۔

 ایک اور واقعہ مظفرگڑھ کا ہے جہاں ایک انسان نما وحشی جانور نے اپنی بیوی ڈھائی ماہ سے آٹھ سال کی پانچ بیٹیوں اور دو بیٹوں، یعنی کل آٹھ افراد کو کلہاڑی سے کاٹ ڈالا۔ 

گھوٹکی(سندھ) میں ایک باپ نے اپنی تین بیٹیوں پر فائرنگ کر دی ایک چل بسی دو ہسپتال میں زخمی پڑی ہیں اور اس قاتل باپ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ پہلے بھی اپنی ایک بیٹی کو قتل کر چکا ہے۔

سب سے آخر میں سب سے تکلیف دہ ایک ایسا واقعہ جو مسلسل دہرایا جا رہا ہے۔ کراچی میں لاہور میں ہر جگہ اور بار بار۔اس دفعہ یہ واقعہ سیالکوٹ کے قریب ایک سرحدی شہر پسرور میں ہوا ہے جہاں عید کے موقع پر اپنی ننھیال میں نانی نانا، ماموں، خالاؤں کے پاس عید منانے کے لئے آنے والی تین سالہ بچی عیدی خرچ کرنے کے لئے گھر سے نکلی اور پھر کسی نے اسے نہیں دیکھا۔ ڈھونڈنے والے ڈھونڈتے رہے اور پھر پانچ دن بعد اس معصوم بچی کی لاش کھیتوں سے ملی اور کہا یہ جا رہا ہے کہ اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔

 یہ ہمارے معاشرے کا نوحہ ہے۔ یہ نوحہ لکھتے ہوئے بڑی تکلیف ہو رہی ہے۔ دِل خون کے انسو رو رہا ہے لیکن جن کے پاس اختیار ہے جو یہ سب ٹھیک کر سکتے ہیں کیا ان کا دِل بھی روتا ہے اور اگر روتا ہے تو اثر کیوں نہیں ہوتا ہے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -