جنید صفدر کی شادی اور طوفان ِبدتمیزی
جنید صفدر کی شادی کا تذکرہ زور و شور سے جاری ہے۔ سوشل میڈیا پر اس شادی کی مختلف ویڈیو زوائرل ہو چکی ہیں۔ جن کو دیکھنے والے لاکھوں نہیں کروڑوں ہیں۔ آپ سب کی نظر سے وہ ویڈیو بھی گزری ہوں گی جس میں ن لیگ کے مخالف شادی والی جگہ کے باہر کھڑے ہو کر احتجاج کر رہے ہیں اور مختلف نعرے لگا رہے ہیں۔ اس ویڈیو نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا کہ ہماری قوم اخلاقیات کے کس مقام پر کھڑی ہے۔ جتنی زیادہ تعلیم عام ہوتی جا رہی ہے ہم اخلاقیات میں اُتنا زیادہ گِرتے جا رہے ہیں۔جن لوگوں نے وہاں احتجاج میں حصہ لے کر اپنی پارٹی کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا ہے کیا وہ اتنا بھی نہیں جانتے کہ سیاست اپنی جگہ لیکن کسی کی خوشیوں میں اس طرح رنگ میں بھنگ ڈالنا عقلمند لوگوں کو زیب نہیں دیتا۔ کیا اُن کی تعلیم انہیں اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ برداشت کا دامن چھوڑ کر سیاسی جنون اور مخالفت کو سر پر سوار کرکے دوسروں کی خوشیوں کو خراب کرنے کی کوشش کی جائے۔کیا اُسی دن احتجاج کرکے وہ اپنے وطن اور پارٹی سے وفاداری ثابت کرنا چاہتے تھے؟غیر ملک میں آپ پاکستان کا کیا امیج پیش کررہے ہیں۔ جو لوگ باہر کے ملکوں میں جاتے ہیں وہ اپنے افعال سے اپنے ملک کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں لیکن یہ کیا؟ احتجاج اور مختلف گھٹیا نعرے لگا کر وہ بھی شادی کے موقع پر یہ کہاں کی تہذیب اور کلچر ہے۔ یہ بات درست ہے سیاست میں مخالفین کی بھر مار ہوتی ہے لیکن کیا سیاست دانوں کی اپنی کوئی ذاتی زندگی نہیں ہوتی۔ کیا انہیں ہر موقع (چاہے وہ غم کا ہو یا شادی کا) پر ذلیل کرنا چاہیے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے اتنا زیادہ وقت نہیں گزرا جب ہمارے نوجوان اپنے سے بڑوں کے سامنے جانے سے ڈرتے تھے چاہے وہ محلے کا ہی بزرگ ہو۔ والدین اپنے بچوں کو بڑے چھوٹے کا احترام کرنے کا بھی درس دیتے تھے۔ ہمارے سیاست دان ایک دوسرے کے مخالف الیکشن لڑتے تھے لیکن ذاتی تعلقات کی بِنا پر ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں بھی شریک ہوتے تھے۔یہ غالبََا 2013 کے الیکشن سے پہلے کی بات ہے۔ میاں نواز شریف کے چھوٹے بھائی میاں عباس شریف کی وفات ہوئی تو میں اور میرا کزن رانا مدثر شکر میاں نواز شریف سے تعزیت کے لئے جاتی عمرہ گئے تو جیسے ہی ہم وہاں پہنچے تو اُسی وقت عمران خان صاحب اپنی ٹیم جہانگیر ترین،جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی کے ساتھ تعزیت کے لئے پہنچ گئے اُس وقت سب سیاست دانوں کو دیکھ کر دِل خوش ہوا۔2013 کی الیکشن کمپین میں عمران خان سٹیج سے گِرے تو میاں نواز شریف صاحب نے اپنی الیکشن مہم ایک دن کے لئے ختم کر دی اور ساتھ ایک انٹرویو جو میاں نواز شریف صاحب نے پاکستان کے ایک بڑے چینل کوریکارڈ کروایا تھا اُس کو بھی رُکوا دیا اور پھر خود ہسپتال عمران خان کی تیمارداری کے لئے گئے یہ تھی ہمارے پاکستانی سیاستدانوں میں وضعداری جو اپنی انا کو پسِ پشت ڈال کر ایک دوسرے کے غم میں شریک ہوتے تھے۔
میں یہاں بتاتا جاؤں میرا جنید صفدر کے ساتھ کوئی ذاتی تعلق نہیں ہے اورنہ میں کسی پارٹی کی حمایت کرنا چاہتا ہوں۔ غلط بات کو غلط کہنا میرا حق اور فرض ہے۔ سیاست کی مخالفت کرنی ہے تو سیاسی اور جائز طریقے سے کریں۔اس طرح کسی موقع کا ناجائز فائدہ اُٹھا کر سوشل میڈیا پر اپنے حامیوں سے داد تو سمیٹی جا سکتی ہے لیکن سمجھدار لوگ ایسے اقدام کی مذمت کرتے ہیں۔عوام کو ہر موقع پر اپنے جذبات سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے جو کہ ہمارے نبیﷺ کی صفت اور ہمارا دین ہمیں بتاتا ہے۔