پیارے رسول ؐ کی پیش گوئی!
مولانا عبدالطیف مدنی
رسول اکرمؐ کے اقوال و افعال یاد کرنے رکھنے کا اہتمام صحابہ کرامؓ اس لئے بھی فرماتے تھے کہ وہ انہیں اپنے لئے دونوں جہان کی سعادت اور خوش بختی یقین کرتے تھے اور آپؐ کی مبارک دعاؤں کے گرویدہ تھے، خصوصاً جب کہ آپؐ کے یہ ارشاد ان کے سامنے آچکے تھے۔
(1)رسول اکرمؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ و شاداب رکھے جس نے میری حدیث سنی پھر اس کو یاد کیا تاکہ اس کو دوسروں تک پہنچائے۔(ترمذی ص، 90ج 2)
(2)رسول اکرم ؐ نے اللہ رب العزت سے دعا کی اے اللہ میرے خلفاء پررحم فرما۔ صحابہ کرامؓ نے گزارش کی یا رسول اللہؐ آپ کے خلفاء کون ہیں؟ ارشاد فرمایا وہ جو میری احادیث روایت کرتے ہیں اور لوگوں کو سکھلاتے ہیں۔
(3) یعنی قیامت میں رسول اکرمؐ کا قرب ان لوگوں کو زیادہ نصیب ہوگا جو رسولؐ پر زیادہ درود بھیجنے والے ہوں گے اور صحابہ کرامؓ سے زیادہ بڑھ کر آپؐ کے قرب کا کون دلدادہ ہوگا۔ آپؐ کی یہ مبارک دعائیں دراصل دونوں جہانوں کی سعادت اور خوش بختی کی کلید ہیں۔
دوسرا طریقہ تعامل:
حدیث شریف کی حفاظت کا دوسرا طریقہ جو صحابہ کرام نے اختیار کیا تھا وہ تعامل تھا، لیکن وہ آپؐ کے اقوال و افعال پر بجنسہ عمل کر کے اسے یاد کرتے تھے، بہت سے صحابہ کرام سے منقول ہے کہ انہوں نے کوئی عمل کیا اور اس کے بعد فرمایا:ھکذا رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یفعل
حضرات صحابہ کرامؓ کی سیرت کا ایک ایک باب اتباع و انقیاد کا حسین مرقع ہے ان کی ہر ادا سے اتباعِ نبوی کی شان ٹپکتی ہے۔ ان کو آپؐ کے فیض صحبت سے مشرف اسی لئے کیا گیا تھا کہ وہ آپؐ کے اخلاق و عادات، عبادات و معاملات اور آپ کے اسوۂ حسنہ کو اپنی ذات میں جذب کر کے اپنی استعداد کے مطابق آپؐ کے رنگ میں رنگین ہو جائیں اور بعد میں آنے والوں کو اس رنگ میں رنگین کرتے چلے جائیں۔ بلاشبہ وہ رنگین بنے ہوئے تھے اور رنگین بنا رہے تھے۔
یہ حضرات صحابہ آپؐ کے بلاواسطہ تربیت یافتہ تھے۔ ان حضرات کی تعلیم و تربیت کا سامان خود اللہ رب العزت کی جانب سے کیا گیا تھا۔ ان کی تربیت کے لئے قدم قدم پر آپؐ کو بار بار ہدایت جاری فرمائی گئی تھیں۔ جیسا کہ قرآنی آیات اس پر شاہد ہیں۔ ان کی تثبیت(ثابت قدم رکھنے کے لئے) فرشتوں کو بھیجا گیا تھا۔
مختصر یہ کہ وحی اور صاحب وحی جن کی تربیت کے نگران تھے ان کی تربیت کا رنگ کتنا پائیدار، کتنا پختہ، کتنا گہرا اور کتنا اَن مٹ ہوگا؟
تیسرا طریقہ کتابت:
(1)احادیث کو متفرق طور پر زیب قرطاس کرنا۔
(2)احادیث کو کسی ایک شخصی صحیفہ میں جمع کرنا، جس کی حیثیت ذاتی یادداشت کی ہو۔
(3)احادیث کو کتابی صورت میں بغیر تبویب کے جمع کرنا
(4) احادیث کو کتابی صورت میں تبویب کے ساتھ جمع کرنا۔
دورِ رسالت اور دورِ صحابہ میں کتابت کی پہلی دو قسمیں اچھی طرح رائج ہو چکی تھیں چنانچہ بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے:
ما من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم احد اکثر حدیثا عنہ منی الاما کان من عبد اللہ بن عمرو فانہ کان یکتب و لا اکتب(صحیح بخاری، جلد اص،22)
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ صحابہ میں عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کے علاوہ کسی دوسرے کے پاس مجھ سے زیادہ نبی اکرمؐ کی احادیث محفوظ نہیں ہیں اور اس کی وجہ حضرت ابوہریرہؓ یہی بیان کرتے ہیں کہ وہ احادیث کو لکھا کرتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔
(2)اسی طرح ابوداؤد اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمروؓ کتابتِ حدیث کے بارے میں خود اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ:
مَیں جتنی باتیں رسول اکرمؐ کی زبان مبارک سے سنتا تھا یاد رکھنے کے لئے ان کو لکھ لیا کرتا تھا۔ میرے اس طرز عمل کی جب قریش کو خبر ہوئی تو انہوں نے مجھے منع کیا اور کہا کہ تم ہر چیز کو جو رسول اللہؐ سے سنتے ہو، لکھ لیا کرتے ہو، حالانکہ آپؐ آدمی ہیں۔ آپؐ غصے کی حالت میں بھی ہوتے ہیں اور خوشی کی حالت میں بھی، لہٰذا مَیں لکھنے سے رُک گیا اور اس کا تذکرہ رسول اکرمؐ سے کیا آپ ؐ نے فرمایا کہ لکھو اور اپنے دہانِ مبارک کی طرف انگلی سے اشارہ کر کے فرمایا: ( اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اس سے کسی حالت میں بھی نا حق اور غلط بات نہیں نکل سکتی۔ (ابوداؤد، جلد 1صفحہ157)
(3) بخاری شریف میں ہے کہ آپؐ نے فتح مکہ کے سال خطبہ ارشاد فرمایا تو ابو شاہ یمنی نے عرض کیا کہ حضورؐ مجھے یہ خطبہ لکھوا دیجئے تو آپؐ نے فرمایا: اکتبوا لابی شاہ (بخاری باب کتابتہ العلم صفحہ21، 22
ظاہر ہے کہ آپؐ کا یہ خطبہ احادیث پر مشتمل تھا اور آپؐ کے حکم سے احادیث کی کتابت ہو رہی ہے۔
مذکورہ بالا احادیث سے یہ بات بخوبی واضح ہوگئی کہ کتابتِ حدیث کی ممانعت کسی امرِ عارض کی بنا پر تھی اور جب وہ امر عارض ختم ہوگیا تو کتابت حدیث کی اجازت بلکہ حکم ارشاد فرمایا گیا اور وہ امرِ عارض یہ تھا کہ ابتدا اسلام میں قرآنی آیات کے ساتھ التباس کا اندیشہ تھا۔ اس کے انسداد کے لئے قرآن کریم کے ساتھ احادیث لکھنے کے ممانعت فرمائی تھی۔ بعد میں وہ عارض ختم ہوگیا اور صحابہ کرام اسلوب قرآن کریم کے ساتھ پوری طرح مانوس ہوگئے۔
قرآن کریم سے الگ احادیث لکھنے کا رواج ہر دور میں جاری رہا چنانچہ دور صحابہ میں احادیث کے کئی مجموعے جو ذاتی نوعیت کے تھے تیار ہوچکے تھے۔ نمونے کے طور پرچند مثالیں درج ذیل ہیں:
(1) الصحیفہ الصادقہ
مسند احمد میں روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ نے احادیث کا جو مجموعہ تیار کیا تھا۔ اس کا نام’’الصحیفتہ الصادقتہ‘‘ رکھا تھا۔ یہ دورِ صحابہ کے حدیثی مجموعوں میں سب سے زیادہ ضخیم صحیفہ تھا۔
(2)صحیفہ علیؓ
حضرت علیؓ کا صحیفہ ان کی تلوار کی نیام میں رہتا تھا اور اس روایت کے متعدد الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں دیات اور معاقل، فدیہ اور قصاص، احکام اہل ذمہ، نصابِ زکواۃ اور مدینہ طیبہ کے حرم ہونے سے متعلق ارشادات نبویؐ درج تھے۔(ابوداؤد، جلد 1صفحہ278)
(3)کتاب الصدقہ
یہ ان احادیث کا مجموعہ تھا جو رسول اکرمؐ نے خود املاء کروایا تھا۔ اس میں زکوٰۃ و صدقات اور عُشر وغیرہ کے احکام تھے اور سنن ابی داؤد سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب آپؐ نے اپنے عُمال کو بھیجنے کے لئے لکھوائی تھی۔
(4)صحیفہ عمرو بن حزمؓ
جب رسول اکرم ؐ نے حضرت عمرو بن حزمؓ کو نجران کا عامل بنا کر بھیجا تو ایک صحیفہ ان کے حوالے کیا جو آپؐ کی احادیث پر مشتمل تھا اور اسے حضرت ابی ابن کعبؓ نے لکھا تھا۔(ابوداؤد)
(5)صحف ابی ہریرہؓ
حضرت ابی ہریرہؓ کے پاس ان کی تمام مرویات لکھی ہوئی موجود تھیں۔ ان سے پانچ ہزار تین سو چوہتر احادیث مروی ہیں(مستدرک حاکم)
(6)صحیفہ ھمام بن منبہؒ
حضرت ھمام بن منبہ ؒ بھی حضرت ابوہریرہؓ کے مشہور شاگرد ہیں۔ امام مسلمؒ اپنی صحیح میں بہت سی احادیث اس صحیفہ کے واسطے سے بھی لائے ہیں۔ اسی طرح مسند احمد بن حنبلؒ میں اس صحیفے کی روایات بکثرت موجود ہیں۔(مسند احمد،ج2 صفحہ312)
حُسنِ اتفاق سے چند سال پہلے اس صحیفے کا اصل مخطوطہ دریافت ہوگیا ہے اس کا ایک نسخہ جرمنی میں برلن کے کتب خانہ میں موجود ہے۔ دوسرا نسخہ دمشق کے کتب خانہ ’’مجمع علمی‘‘ میں سیرت اور تاریخ کے مشہور محقق ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے ان سے دونوں سے اس کا مقابلہ کیا تو کہیں ایک حرف یا ایک نقطہ میں بھی فرق نہیں تھا۔
ان چند مثالوں سے یہ بات بخوبی واضح ہے کہ دور رسالت اور دور صحابہ میں کتابت حدیث کا طریقہ خوب اچھی طرح رائج ہو چکا تھا۔ یہ درست ہے کہ تدوین حدیث کی یہ ساری کوششیں ذاتی نوعیت کی اور غیر مرتب طریقے پر تھیں۔ عام طور سے کتابی شکل میں احادیث جمع کرنے کا اہتمام نہیں تھا۔ یہاں تک کہ صحابہ کرامؓ جہاد اور تعلیم و تبلیغ کے لئے مختلف شہروں میں منتشر ہوگئے اور کچھ شہید بھی ہوگئے پھر جب تابعین کا دور آیا اور مختلف باطل فرقوں نے سر اٹھایا اور اغراض فاسدہ اور عقائد باطلہ کی اشاعت کے لئے حدیثیں گھڑنا شروع کیا تو اللہ رب العزت کی طرف سے امیر المومنین حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دل میں جمع احادیث کا جذبہ پیدا ہوا اور اپنے زیر اثر تمام علاقوں میں تدوین حدیث کا حکم دیا۔
پھر حضرات محدثین نے اسماء الرجال کا فن ایجاد کیا۔ جرح و تعدیل کے قواعد مقرر کئے اور احادیث کی چھان بین کا وہ کارنامہ انجام دیا جس کی مثال نہیں مل سکتی۔ احادیث وضع کرنے والوں کی فہرستیں تیار کی گئیں اور صحیح روایات کے راویوں کو مستقل علیحدہ جمع کیا اور ایک ایک روای کا حال مفصل لکھا، حتیٰ کہ یہود و نصاریٰٰ اور مستشرقین ایک بڑی تعداد میں اس کا اقرار کرتے ہیں کہ اہل اسلام نے اپنے پیغمبرؐ کے حالات و اقعات کو جس صداقت و دیانت اور تفصیل کے مطابق جمع کیا ہے وہ ایسا عظیم الشان کارنامہ ہے جس کی مثال دوسرے مذاہب میں نہ اسلام سے پہلے موجود تھی اور نہ اسلام کے بعد آج تک موجود ہے۔ ایک ایک حدیث کی سند کو رسول اکرمؐ تک پہنچایا گیا، تاریخ کا علم جس پر منکرین حدیث کو ناز ہے اس میں واقعات بلا سند ذکر کئے جاتے ہیں اور نقل والوں میں سچے، جھوٹے، فساق و فجار بلکہ ایمان سے محروم ہر طرح کے بے شمار لوگ ہوتے ہیں۔ انتہائی حیرت اور کتنا تعجب ہے کہ عقل و خرد کے دشمن منکرین حدیث تاریخ کو معتبر سمجھتے ہیں اور حدیث رسولؐ کو غیر معتبر۔فیاللعجب!