بشریٰ بی بی ناکام کیوں ہوئی؟
بشریٰ بی بی جس طرح ڈی چوک چھوڑ کر فرار ہوئی ہیں اس کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان کی موروثی سیاست بھی ناکام ہو گئی ہے۔اس سے قبل خیال کیا جا رہا تھا کہ بشریٰ بی بی اور علیمہ خان کے درمیان ایک خاموش جنگ جاری ہے کہ عمران خان کی عدم موجودگی میں پی ٹی آئی کی قیادت کون سنبھالے گا، کبھی علیمہ خان منصہ شہود پر نمودار ہوتیں تو کبھی بشریٰ بی بی جبکہ مبصرین تسلسل سے کہہ رہے تھے کہ ان دونوں کے درمیان ایک جنگ جاری ہے کہ کون پارٹی کی کمان سنبھالتی ہے مگر جس طرح ڈی چوک پر دھرنے کی فائنل کال کو عوام نے مسترد کیا ہے اس کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ عوام نے نہ صرف بشریٰ بی بی اور علیمہ خان کو بلکہ خود عمران خان کو بھی مسترد کردیا ہے، اب لوگ روز روز کی تکرار سے تنگ آگئے ہیں اور 2014 سے آگے بڑھ جانا چاہتے ہیں، یوں بھی جو اس وقت 18برس کے ہوں گے، اب 28/30کے ہو چکے ہیں اور پریکٹیکل لائف میں داخل ہو چکے ہیں، ان کے لئے زندگی جذبات سے نکل کر تلخ حقائق کی دنیا میں داخل ہو چکی ہے اور انہیں سیاہ سفید میں فرق کرنا آگیا ہے، اس لئے اگر پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ 2014والا چورن 2024میں بھی بک جائے گا تو اس کی خام خیالی ہے، بلکہ اب تو 2024بھی خاتمے کے قریب ہے اور 2025کی آمد آمد ہے۔
یوں بھی اب کی بار وزیر داخلہ عمران خان کے کلاس فیلو چودھری نثار علی نہیں تھے جو ایک طرف دھرنے والوں کو ڈی چوک تک پہنچنے میں سہولت کار تھے تو دوسری جانب چودھری اعتزاز احسن سے قومی اسمبلی میں جھوٹ موٹ کی لڑائی لڑ کر نواز شریف کے لئے مشکلات کھڑی کر رہے تھے۔
ہر کوئی حیران ہے کہ پی ٹی آئی کی فائنل کال کیونکر ناکام ہو گئی، لوگوں نے اسے ریسپانڈ کیوں نہیں کیا، خاص طور پر پنجاب کیونکر اس قدر ٹھنڈا پڑ گیا حالانکہ پی ٹی آئی کے بارے میں یہ پراپیگنڈہ تسلسل سے کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کی سب سے مقبول جماعت ہے، اس پر بھی ایک لطیفہ سن لیجئے۔ گزشتہ شب جب خاتون اینکر عاصمہ شیرازی نے بجھے چہرے کے ساتھ کہا کہ پی ٹی آئی ملک کی سب سے مقبول جماعت ہے تو پیپلز پارٹی کے قمر زمان کائرہ نے تنک کر جواب دیا کہ عاصمہ پی ٹی آئی پوری دنیا کی سب سے پاپولر جماعت ہو گی مگر یہ حقیقت ہے کہ اس کی احتجاج کی کال کو عوام نے مسترد کردیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر حکومت عمران خان کی طرح ٹی وی چینلوں کی سکرینوں سے چند ایک اینکر پرسنوں کو آف ایئر کردے تو یہ ملک کی سب سے مقبول جماعت کی تکرار بھی ختم ہو جائے گی اور پی ٹی آئی اپنی اوقات پر آجائے گی۔
ویسے جو لوگ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف پاکستان کی سیاست میں غیر اہم ہو گئے ہیں ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ اگر انہوں نے ان اینکر پرسنوں کو لفٹ نہ کروانے کی پالیسی اختیار نہ کی ہوتی تو آج ان ٹی وی چینلوں کے ٹھیکیداروں کو مزید کھل کھیلنے کا موقع ملنا تھا کہ ہر ایک نے باری باری نواز شریف کا انٹرویو کرنا تھا اور پھر اسی طرح اس میں کیڑے نکالا کرنے تھے جس طرح منصور علی خان نے مریم نواز کے انٹرویو کے بعد غیر نشریہ حصے چلاکر کیڑے نکالے تھے، اس دن کے بعد انہیں بھی ماڈل ٹاؤن یا جاتی عمرہ کے قریب پھٹکنے نہیں دیا گیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نواز شریف نے خاموش رہ کر دراصل الیکٹرانک میڈیا نامی اس طوطے کو بے وقعت کردیا ہے جس میں عمران خان کی مقبولیت کی جان ہے۔ اب جب عاصمہ شیرازی کہتی ہے کہ پی ٹی آئی پاکستان کی سب سے مقبول جماعت ہے تو قمر زمان کائرہ کا جواب ان کی خوب تشفی کرتاہے، اسی طرح بعض ایک لوگ دھرنے کے دوران حکومتی اقدامات پر بلاول بھٹو سے بھی توقع لگائے بیٹھے تھے کہ وہ حکومت کے خلاف کوئی بیان دیں گے۔ بلاول بھٹو اتنے بھی پاگل نہیں ہیں کہ اس موقع پر دھرنے کے حق میں بیان دے کر اپنی اقتدار سے دوری مزید پانچ سال بڑھالیں اور وزارت عظمیٰ دوبارہ سے پلیٹ میں سجا کر عمران خان کو پیش کردیں۔
24نومبر سے شروع ہونے والے غل غپاڑے کے دوران اینکر پرسنوں کی اکثریت سوال کرتی رہی کہ حکومت پی ٹی آئی سے مذاکرات کیوں نہیں کرتی، اس کے جواب میں انہیں بتایا جاتا رہا کہ دھونس اور زبردستی سے پی ٹی آئی کبھی حکومت کو مذاکرات کے لئے قائل نہیں کرسکتی اور عمران خان کو حکومت نے نہیں عدالتوں نے رہا کرنا ہے۔ ان اینکر پرسنوں کا خیال تھا کہ پورے ملک سے لوگ جوق در جوق اسلام آباد کی طرف روانہ ہوں گے اور حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردینگے۔ انہیں کیا خبر تھی کہ ملک کی سب سے مقبول جماعت کا جو پراپیگنڈہ وہ کر رہے ہیں، اس کا اثر تو ان کے سامنے کھڑے کیمرہ مین پر بھی نہیں ہورہا، عوام الناس تو بہت دور کی بات ہے۔
پاکستانی قوم کی یہی خوبی ہے کہ جذباتی ہونے کے باوجود ان کے دماغ کام کرتے ہیں اور یہ کھرے کھوٹے کی جلد پہچان کر لیتے ہیں اور زیادہ دیر تک بیوقوف نہیں بنتے، یہی وجہ ہے کہ ایک سے ایک بڑھ کر سیاستدان اور فوجی آمر ملک کی تقدیر بدلنے کا دعویٰ لے کر آیا، اسے موقع بھی دیا گیا مگر جب وہ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہا تو قوم نے اسے منہ لگانا چھوڑ دیا۔ پیپلز پارٹی بڑی حد تک اس غلط فہمی سے باہر آچکی ہے، نون لیگ کو بھی اندازہ ہو چکا ہے کہ کارکردگی میں ہی بچت ہے جبکہ پی ٹی آئی تو اپنی قدروقیمت ہی کھو بیٹھی ہے۔