اگلا ہفتہ کیسا رہے گا؟

  اگلا ہفتہ کیسا رہے گا؟
  اگلا ہفتہ کیسا رہے گا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان میں اگلا ہفتہ آئینی ہفتہ ہو گا، عدالتی ہفتہ ہو گا، سیاسی ہفتہ ہو گا، اس لئے ہر کوئی کچھ بڑا ہونے کی توقع کئے ہوئے ہے۔ آرٹیکل 63اے کی غلط تشریح کو درست کرنے سے لے کر آئینی عدالت کے قیام تک، پاکستان ایک نیا جنم لے گا۔ اس لئے جنم پتری تو ضروری ہے۔ 

دیکھا جائے تو پی ٹی آئی سدھائے ہوئے بیل کی طرح چل رہی ہے، لاہور کا جلسہ ناکام ہو گیا، پی ٹی آئی کا کام تمام ہوگیا۔ آئینی ترمیم کا جواز پیدا ہو گیا کہ لوگ اس کے خلاف پی ٹی آئی کے جلسے کے لئے نہیں نکلے، حکومت پنجاب نے بھی سڑکوں کو کھلے رکھا،اس کے باوجود بھی پی ٹی آئی کے حامی جوق در جوق سڑکوں پر نظر نہیں آئے، وہ گھروں میں سوشل میڈیا پر جھوٹی سچی باتیں سن کر اور ویڈیوز دیکھ کر دل بہلاتے رہے اور عمران خان اڈیالہ جیل میں بے چین گھومتے رہے کہ آخر ان کو Like کرنے والے ان کی کال پر سڑکیں کیوں نہیں بھرتے، اگر پی ٹی آئی لاہور میں کامیاب جلسہ کر جاتی تو اگلے ہفتے میں وہ کچھ نہیں ہونا تھا جو کچھ ہونے جا رہا ہے۔مولانا نے حکومت کو صائب مشورہ دیا تھا کہ ایک آدھ ہفتہ اور دیکھ لیں اور پی ٹی آئی کو اپنی عوامی طاقت کا مظاہرہ کرلینے دیں، اس کے بعد آپ کو بھی اور ہمیں بھی آسانی رہے گی۔ مولانا جن سے مخاطب تھے، انہیں بھی یہ بات سمجھ آگئی اور اب حکومت کے لئے آئینی ترمیم کرنا آسان ہوگیا ہے کیونکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منصور علی شاہ کو ترکی بہ ترکی جواب دے کر انہیں کافی حد تک ٹھنڈا کردیا ہے،البتہ جسٹس منیب اختر کے کیا ارادے ہیں،اس کا علم اس دن ہو گا جس دن وہ  بنچ  میں بیٹھنے یا نہ بیٹھنے کا اعلان کریں گے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے سڑکوں پر سے کنٹینر تو ہٹا دیئے گئے تھے لیکن حکومت نے چھ بجے کے بعد جلسہ گاہ کی بجلی بند کر دی تھی، بجلی تو ویسے بھی بند ہی کر دینی چاہئے، جتنے مہنگے بجلی کے بل ہیں اس سے کہیں بہتر اندھیرا ہے، اندھیر ے میں رکھ کر ویسے بھی حکومت نے بہت کچھ کرنے کی کوشش کی ہے، مگر مولانا فضل الرحمٰن نے ان کی چلنے نہیں دی، اس کا دوش وزیر اعظم کی سیاسی طور پر ناتجربہ کار ٹیم کے سر منڈھے جاتا ہے جنھوں نے مولانا کو موٹی موٹی باتوں پر اعتماد میں لیا لیکن جب اصل مسودہ سامنے رکھا تو مولانا نے نکتہ آفرینی شروع کی تو حکومت کو دم دبا کر بھاگتے ہی بنی۔ البتہ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی والے مولانا سے خوش ہونے کے ساتھ ساتھ محتاط بھی ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ جس قدر مولانا کی مٹی پلید کر چکے ہیں، انہیں اس کا خمیازہ ضرور بھگتنا ہو گا۔ 

پاکستان پیپلز پارٹی کو آئینی عدالت سے بڑھ کر اپنی سیاسی ساکھ کی بحالی کا مسئلہ ہے کیونکہ جناب زرداری کی بے تکی سیاست کے سبب عمران خان کی پی ٹی آئی پیپلز پارٹی کی جگہ لے چکی ہے۔ خاص طور پر پنجاب میں تو نئی نسل کو پپل پارٹی بھی نہیں کہنا آتا کیونکہ انہیں علم ہی نہیں کہ اس ملک میں ایک پیپلز پارٹی بھی ہوا کرتی تھی۔ وہ بلاول بھٹو کو سنجیدہ نہیں لیتے اور ان کی جگہ عمران خان کو نجات دہندہ مانے ہوئے ہیں،کچھ تو انہیں اس سے بھی بڑھ کر مانے ہوئے ہیں،اس لئے بلاول بھٹو اپنی مجبوری کے تحت آئینی عدالت کو ضروری سمجھے ہوئے ہیں۔ ہو سکتا ہے آئینی عدالت بناتے بناتے بلاول کی سیاسی ساکھ کی بحالی ہو جائے،وگرنہ آصف زرداری کی تصویر لگا کر وہ بھی جلسہ نہیں کر سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کا اصل چیلنج بھی اب نون لیگ کی بجائے پیپلز پارٹی بن چکی ہے کیونکہ ان دو میں سے کوئی ایک جماعت ہی نون لیگ کی اپوزیشن کرسکے گی، ایک نیام میں تو دو تلواریں نہیں آتیں، تین کیسے سما سکتی ہیں!

ادھر عمران خان کو مرشد ماننے والے اور ماننے والیاں اب منہ ہی منہ باتیں کرتے اور کرتی ہیں۔ وہ وقت گئے جب وہ الااللہ کر کے پڑجایا کرتے تھے اور مخاطب کا منہ توڑ دیا کرتے تھے۔ اب تو عالیہ حمزہ کے ساتھ بھی صرف دو چار وکیل ہی ہوتے ہیں اور ایک آدھ لڑکی آگے آگے بھاگ کر ان کی ویڈیو بنا رہی ہوتی ہے، کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ ٹی وی کیمرے ان کے آگے پیچھے بھاگ رہے ہوں۔ آئینی عدالت بن کئی اور قاضی فائز عیسیٰ اس کے چیف مقرر ہو گئے تو پی ٹی آئی کی رہی سہی امیدیں بھی دم توڑ جائیں گی۔ 

لیکن پی ٹی آئی بھی پیپلز پارٹی کی طرح محدود ہوتی جا رہی ہے، خاص طور پر پنجاب میں لوگ اس طرح سے امڈ امڈ کر پہنچنے کے لئے تیار نہیں ہیں جس طرح ایک پاپولر پارٹی کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ جب عمران خان آزاد تھے اور اپنے تئیں بہت مقبول تھے،تب بھی لبرٹی چوک میں لوگوں کا ٹھٹھ نہیں ہوا کرتا تھا، بس کھاتے پیتے گھرانوں کی عورتوں کا اکٹھ ہوتا تھا یا ان کے پیچھے پیچھے ان کے مرد حضرات نے بچے اٹھائے ہوتے تھے۔ دراصل جنرل فیض حمید کی گرفتاری نے پی ٹی آئی کا پول کھول دیا ہے اور لوگوں کو سمجھ آگئی ہے کہ پی ٹی آئی کا اصل چیئرمین پکڑا گیا ہے، اس گرفتاری کے بعد عوامی سطح پر تو کوئی جلسہ جلوس دیکھنے کو نہیں ملا البتہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردوں کی مارا ماری میں تیزی آگئی ہے۔ کہیں کہیں تو اب بھی غضب کی لڑائی ہو رہی ہے اور کئی بے گناہ مارے جا رہے ہیں۔ ہاں البتہ پنجاب میں وہ کچھ نہیں ہورہا، جس کی توقع پی ٹی آئی نے لگائی ہوئی تھی۔ 

مزید :

رائے -کالم -