خالد آفتاب: نیا سفر، نئی منزلیں 2)
سیکنڈری اسکول میں جس تدریسی مواد نے ہمیشہ پیچیدگی سے دوچار رکھا اُس میں فزکس کے ریاضیاتی فارمولے سر فہرست ہیں۔ ایک روز ایک مشق کے دوران مشفق مگر سیف زبان استاد مختار احمد صاحب نے فرنٹ بینچ کی طرف دیکھا۔ ”شاہد میاں، صلاح الدین نے لاہور بورڈ میں سیکنڈ پوزیشن لی ہے۔۔۔ تمہاری کھوپڑی اچھی ہے، اِس سال تم بھی کوشش کرو۔“ اچھی کھوپڑی، جو سوال نکالنے کی مشکل میں پہلے ہی جھکی ہوئی تھی، مزید جھُک گئی۔ خاموشی کا وقفہ لمبا ہوا تو استاد نے طنزیہ لہجے میں کہا ”بورڈ میں پوزیشن لینے پر غور کر رہے ہو؟ برخوردار، ابھی تو تمہارے پاس ہونے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔“ اُنہی دنوں ولیم سروئین کے ناول ’انسانی تماشا‘ میں ایک جملہ پڑھا تھا کہ ”ہونہہ، سیکنڈ آنا تو ویسے ہی ہے جیسے تھرڈ آنا۔“ مگر میرا فوری مسئلہ صرف یہ تھا کہ فزکس کا سوال کیسے حل ہو۔
گزشتہ ہفتے ڈاکٹر خالد آفتاب کے تیسرے اور تازہ ترین افسانوی مجموعے ’پوٹلی‘کی ورق گردانی کرتے ہوئے دسویں جماعت کا یہ واقعہ بار بار یاد آ یا۔ پھر اِس سے وابستہ علامتی سوچیں کہ جیون ٹیسٹ میں فرسٹ، سیکنڈ آنا یا محض پاس ہو جانا آخر ہے کیا؟ یہ سوال بیک وقت واضح بھی تھے اور نیم روشن بھی۔ بطور نمونہء کلام ’پوٹلی‘ کی ہمنام کہانی کا ابتدائیہ: ”ذرا سا آگے کو سرکو، مجھے بھی لحاف میں لیٹنے دو،“ ناصر نے بیوی سے فرمائش کی۔ گوشی پٹاخ سے بولی ”مَیں تمہیں کیوں بستر میں جگہ دوں؟ تم جا کر اپنی محبوبہ کے ساتھ مزے کرو۔“ ”سنو گوشی، کہنے سے پہلے اُس بات کو ضرور پرکھ لیا کرو۔ تم مُنہ بھر کر اُول فُول بک دیتی ہو۔“ ”تم بھی سوچ لو ناصر، میرا سینہ سینکڑں شکایتوں سے بھرا پڑا ہے۔ اگر مَیں اُنہیں کھُل کر کہہ دوں تو ایک طوفان آ جائے گا۔ اِسی لیے سچی بات زبان پر نہیں لاتی۔“
سب جانتے ہیں کہ اسٹوری لائن یا اُن واقعات کی زمانی ترتیب افسانوی ادب کا لازمہ ہے جنہیں کم و بیش سبب اور نتیجہ کے رشتے میں پرو دیا جائے۔ ’اب کیا ہو گا؟‘ یہی سو ال قاری کو تسلسل کے ساتھ کہانی پڑھتے رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ پہلو بھی بحث طلب نہیں کہ کہانی اور اُس سے وابستہ سماجی و نفسیاتی موضوعات بین السطور ہی سہی مگر کرداروں کے ذریعے آ گے بڑھتے ہیں۔ اِن اجزا کے یکجا ہونے کی مثال تو دنیا کے مختصر ترین افسانے میں بھی تھی جس میں لندن کی زمین دوز ٹیوب میں دو مسافر وں کی نظریں چار ہوئیں۔ ایک نے دوسرے سے پوچھا ”تم بھوت پریت میں یقین رکھتے ہو؟“ جواب ملا ”نہیں۔“ یہ سُنتے ہی پہلا مسافر غائب ہو گیا۔ خالد آفتاب کے کردار تصوراتی نہیں، حقیقی ہیں، سو دیگر کہانیوں کی طرح اُن کے افسانے ’پوٹلی‘ کا تانا بانا کئی غیر مرئی امکانات کو بھی چھُو لیتا ہے۔
ناصر اور گوشی کی شادی کو چالیس سال ہو گئے اور اب بچے بھی شادی شدہ ہیں۔ پھر بھی دونوں میں ایک سرد جنگ ہے جسے شاید ’سٹون والنگ‘ کہیں گے۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ بِیچ کی یہ دیوار پتھر کی بجائے شیشے سے اٹھائی گئی، کیونکہ مکمل بے حسی کی جگہ شکوہ شکایت کا تعلق تاحال برقرار ہے۔ باطن کی عدالت میں گوشی کا استغاثہ اُس ازدواجی بدسلوکی سے شروع ہوتا ہے جو سسرال کے گھر میں اول روز اُس کے ساتھ روا رکھی گئی۔ اِس سے آگے ایک طویل فہرست۔ ناصر کا خیال ہے کہ ماضی کی بجائے حال میں رہنا بہتر ہوگا۔ لوگوں کی نظر میں یہ مثالی جوڑا باہمی زندگی میں کِن چڑھائیوں اترائیوں سے گزرا، یہ جزیات نگاری کیمرہ مین کی مہارت سے کی گئی ہے۔ آخر میں ناصر کی بیوی کو پیشکش کہ دل آزار گلِوں شکووں سے بھری جو پوٹلیاں تمہارے پاس ہیں اُنہیں اکٹھا کرکے کھولو اور ”ہمارے سچے پیار کی نذر کر دو۔ آؤ آگے بڑھتے ہیں۔“ اب جواب سُنیے کہ ”اگر سب پوٹلیاں کھول کر تمہارے سامنے رکھ دِیں تو میرے ہاتھ خالی رہ جائیں گے اور مَیں اپنا کُل سرمایہ گنوا دینے کے لیے تیار نہیں۔“
خالد آفتاب کے اولین مجموعے کی اشاعت 2014ء میں ہوئی تھی جس کی پہلی کہانی ’تماشا‘ کی نسیم سے لے کر آخری افسانے ’مسافر‘ کے لڈّو تک ہر کردار میں ایک جہاں کے اندر ایک اور جہاں بسا ہوا ہے۔ آٹھ سالہ گلزار کی چُندھیائی ہوئی آنکھوں کا مذاق اڑانے کے لیے ”اوئے، چُنے منڈے“ کہنے والی معراج بیگم کے اندر ایک ’مونا جی‘ چھُپی بیٹھی تھی، وہی موناجی جو اِسی نام کی کہانی میں حضرت علی ہجویری کو پیرانِ پیر مانتی ہے کہ ”جب میری کسی نے بھی رہنمائی نہ کی، تب داتا صاحب کام آئے۔“ اِسی طرح ’پنجرہ‘ میں روشن خیال پروفیسروں اور ٹریڈ ورکرز کے مجمع میں سینہ پھُلا کر بیٹھنے والا نوجوان یہ کہہ کر اپنی نارسائی کا المیہ بھی بیان کر رہا ہے کہ ”محترم صاحبان، مَیں آپ کے مقابلے میں طِفل مکتب ہی سہی مگر کُوڑ مغز نہیں ہوں! یہ بات سو پیسے سچ ہے کہ ہمارا سیاسی بحران دراصل سمبولک ہے۔“
دوسری کتاب ’بھیدی‘ کے ہمراہ تازہ مجموعے ’پوٹلی‘ تک کی مسافت میں خالد آفتاب کی ’کیس سٹدیز‘ میں نفسیاتی امراض کی تشخیص اُسی طریقِ علاج کے مشابہہ ہے جس کا اشارہ اوپر دیا گیا۔ چنانچہ نئی کتاب کی فہرستِ مضامین دیکھی تو کُل بِیس میں سے ’صادو‘ ’رَجی پُجی‘، ’البیلا‘ اور ’میم صاحب‘ سے لے کر ’ورولا‘، ’موہنی‘، ’بچونگڑا‘ اور ’بھلکڑ‘ تک کم از کم نصف افسانے وہ نکلے جنہیں کردار کی کہانیاں کہنا چاہیے۔ ہر کردار منفرد اور بھرپور تاثر کا حامل، لیکن ساتھ ہی یہ اہتمام کہ اُس کے نمایاں رویوں، شخصی اوصاف یا کسی بشری کمزوری کی تخصیص قاری کے لیے کہانی کی قابلِ فہم عمومیت کے دائرے سے باہر نہ نکلنے پائے۔ نہ ہی یہ ہو کہ زیرِ غور سماجی، نفسیاتی یا طبقاتی موضوع تحریر پر اِس حد تک چھا جائے کہ اصلاحِ معاشرہ کا شوق فنی طور پر کردار کا گلا گھونٹ کر رکھ دے۔
طوالت کے خوف سے ’پوٹلی‘ نام کی کہانی کا تجزیہ نامکمل چھوڑ دیا تھا۔ دیگر کہانیوں کے ضمن میں بھی یہی مجبوری ہے۔ پھر بھی متن اور اسلوب کی شفافیت پر بات کیے بغیر یہ طے ہے کہ کتاب کے اولین افسانے ’صادُو‘ میں نا پسندیدہ ولدیت کو موضوع بنا کر حقیقت پسندانہ کردار نگاری کے ذریعے ایک مجبور سماج کی اجتماعی نفسیات کا پردہ دلیری سے چاک کیا گیا ہے۔ یہ سب اُس تناظر میں جہاں طبقاتی بالادستی اور سِدھائے ہوئے مذہبی فتوے طلب و رسد کی منڈی میں توازن پیدا کرتے ہیں۔ ’رَجی پجی‘ میں پولیس انسپکٹر کے روبرو ملک خوشحال کا، جو حوالدار نعمت اللہ کے بقول ”پاپڑمنڈی کا پرانا دلال ہے،“ قحبہ خانے میں تدفین کی منتظر لڑکی کے بارے میں بیان کتنی ہی معاشرتی حقیقتوں کی گونج ہے: ”صاحب جی، مَیں نے آج تک ایسی رجی پُجی عورت نہیں دیکھی۔۔۔ وہ گونگی بہری ضرور تھی، پر بے عقل یا پاگل نہیں تھی۔ بس اُس کے من میں غیرت کُوٹ کُوٹ کر بھری تھی۔“
’البیلا‘ کے پورن کی متنوع اور دل آویز گفتگو سُن کر افسانہ نگار نے اُسے ڈرائیور کی نوکری کیوں پیش کر دی؟ رشید باورچی کی محرومیوں نے مالکن ’میم صاحب‘ کو مکمل انسان کے طور پر کیوں دیکھا؟ ’ورولا‘ کا مسرور شاہ ہِل پارک کے بینچ پر کسی عورت کی گود میں سر رکھ کر اگلے سفر پر نہ نکلتا تو کیا ہوتا؟ ’موہنی‘ کی دوبئی ایر پورٹ پر فلائٹ بدلتے ہوئے پرانی ہم جماعت سے ڈرامائی ملاقات؟ پھر فوزیہ کی سیدھی سادی آپ بیتی، موہنی کے حیران کُن قصے اور الوداعی مکالمہ:”یار، میرے مستقبل کے بارے میں فکر نہ کرنا۔ بس ایک سوال زندگی بسر کرنے کا ہے نا۔ وہ کسی نہ کسی حیلے گُزر ہی جائے گی۔ چلو اب اُٹھو۔ ہمارے جہاز کی روانگی کا وقت ہو گیا ہے۔“ خالد آفتاب کی ’پوٹلی‘ کی سچائیاں فرسٹ، سیکنڈ اور فیل، پاس کے فرق کی طرح اُنہی ابدی سوالوں سے جُڑی ہوئی ہیں جن کے جواب زمانی و مکانی تبدیلیوں کے حوالے سے بدلتے رہتے ہیں۔ سچ ہے، اگر نہ بدلیں تو کہانیاں کیونکر وجود میں آئیں! (ختم شد)