نون لیگ مخالف حلقوں کا دُکھ
نون لیگ مخالف حلقوں کا پی ٹی آئی والا وار بھی بے کار گیا، ہم پھر کہیں گے کہ اس صورت حال کا ذمہ دار ایک زرداری سب پر بھاری نما سیاست تھی جسے خالی ڈھول کی طرح پیٹا گیا اور اتنا پیٹا گیا کہ لوگوں کو اندر کا حال نظر آنے لگا اور پیپلز پارٹی خود تو ایکسپوز ہوئی ہی تھی،پی ٹی آئی بھی ہو گئی۔ سچ پوچھئے تو جتنا کام ہماری مخصوص اسٹیبلشمنٹ اور زرداری صاحب نے عمران خان پر کیا ہے اس سے آدھا بھی بلاول بھٹو پر کیا ہوتا تو اپنے نانا اوروالدہ کی میراث کو سنبھالا دینے میں کامیاب ہو جاتے۔ آج عمران خان پنجاب سے آؤٹ ہوتے جا رہے ہیں، سندھ میں تو خیر وہ پہلے ہی نہیں تھے اور کے پی میں بھی علی امین گنڈا پور جیسے لوگوں کا راج ہے جو عمران خان کو اسی طرح بھاری پڑ رہے ہیں جس طرح مرحوم میر مرتضیٰ بھٹو کے اردگرد موجود پارٹی رہنما انہیں بھاری پڑ گئے تھے۔
نون لیگ مخالف حلقوں نے بہت سوچ بچار کے بعد طے کیا تھا کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی اسے نہیں پچھاڑ سکتی ہے اس لئے عمران خان پراجیکٹ کا آغاز کیا گیا۔ ہمیں خود اچھی طرح یاد ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے نوجوان اپنے گھر کے بڑے بوڑھوں کے کان میں عمران خان، عمران خان دہراتے پولنگ سٹیشنوں پر لا رہے تھے۔ اگر کوئی ان سے کہتا کہ پیپلز پارٹی تو نہیں جیتے گی تو وہ تنک کر جواب دیتے کہ تو پھر آپ پی ٹی آئی کو ووٹ ڈال دیں۔ نواز شریف ایسے ہی نہیں کہتے کہ ان کے جیتنے والے ایم این ایز اور ایم پی ایز نے آگ کا دریا عبور کیا ہے کیونکہ خالی پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی ہی نہیں، گزشتہ دو سے تین اسٹیبلشمنٹ کے خاص خاص لوگ بھی نون لیگ کا جنازہ پڑھنے کے لئے بار بار وضو کرتے پائے جاتے تھے، مگر آفرین ہے نون لیگ کے ووٹروں سپورٹروں پر کہ وہ نہ خود اپنی جگہ سے ہلے اور نہ ہی اپنے اپنے حلقے کے امیدواروں کو ہلنے جلنے دیا اور چور چور کی گردان کے باوجود اس بُرے وقت کو اچھے طریقے سے سہہ لیا اور اب یہ نیا پار لگ چکی ہے۔
دوسری جانب جناب آصف علی زرداری بھی اس وقت تک عملی سیاست سے باز نہیں آئے جب تک کہ انہیں لوگوں نے کہنا شروع نہیں کردیا کہ آپ کی تصویر لگا کر جلسہ کرتے ہیں تو لوگ جلسے میں نہیں آتے، مگر انہیں یہ زعم تھا کہ وہ ایک اکیلے سب پر بھاری ہیں، اس زعم نے بلاول کا وزیراعظم ہاؤس تک کاسفر مشکل بنادیا ہے۔اب جبکہ پیپلز پارٹی عمران خان کے غیر مقبول ہونے کی منتظر ہے، اسے یہ غم علیحدہ سے کھائے جا رہا ہے کہ آیا بلاول بھٹو وہ سپیس بھر سکیں گے جو عمران خان کے غیر مقبول ہونے سے پیدا ہو گی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے اسٹیبلشمنٹ سے جس شدومد سے ٹکر لی تھی، کمپرومائز بھی اسی ذوق و شوق سے کیا اور جناب آصف زرداری تک آتے آتے بات اگلی سے بھی چگلی ہو گئی۔ یادش بخیر راقم نے پی ٹی وی کے مشہور پروڈیوسر شاہد ندیم کا ماہنامہ قومی ڈائجسٹ کے لئے تفصیلی انٹرویو کیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں وہ لندن میں جلاوطنی کاٹ رہے تھے اور جنگ گروپ کے انگریزی ہفت روزوں کے لئے رپورٹنگ کیا کرتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب بے نظیر بھٹو کو لانچ کیا گیا اور لندن میں ان کا پہلا خطاب رکھا گیا تو خیال یہ تھا کہ وہ جنرل ضیاء الحق کے پرخچے اُڑادیں گی،مگر جب وہ تقریر سننے اور رپورٹ کرنے کے لئے گئے تو انہیں خاصی مایوسی ہوئی اور یہ بات انہوں نے میگ میگزین کے لئے رپورٹ بھی کردی جسے پڑھ کر بے نظیر بھٹو آگ بگولہ ہو گئیں اور انہیں بلا بھیجا۔ شاہد صاحب بتاتے ہیں کہ وہ گئے تو بے نظیر بھٹو نے کہا کہ آپ نے یہ کیسے اخذ کرلیا کہ میری تقریر کمپرومائزڈ تھی، جس پر شاہد صاحب نے کہا کہ ہم تو سمجھتے تھے کہ آپ کا ایک ایک لفظ جنرل ضیاء کے لئے موت کا تازیانہ ہوگا، مگر آپ کی تقریر تو مبنی بر مصالحت تھی۔ شاہد صاحب بتاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے پلان کیا ہوا تھا کہ بی بی کی تقریرکی اردو زبان میں کاپیاں کرکے عوام میں تقسیم کی جائیں گی، مگر ان کے وہاں سے آنے کے بعد بی بی کے قریبی لوگوں نے انہیں بتایا کہ بی بی نے تقریر کی کاپیاں تقسیم کرنے سے منع کردیا تھا،کیونکہ ان کا خیال تھا کہ شاہد ندیم ٹھیک کہتا ہے!
پیپلز پارٹی کو تو چھوڑیئے، خود ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی ایک لمبا چکر کاٹ کر وہیں آکھڑی ہوئی ہے جہاں سے نواز شریف کو ختم کرنے اور عمران خان کو شروع کرنے چلی تھی۔ آج جنرل فیض حمید کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کے ورکر میں رہا سہا دم بھی جاتا رہا ہے اور وہ اب کہتے پائے جاتے ہیں کہ حکومت کو عوام کا خیال کرنا چاہئے۔ انہیں تو اب اس بات کا بھی یقین نہیں ہے کہ اگر امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ جیت گیا تو ان کے اچھے دن دوبارہ سے آجائیں گے۔اس کے برعکس اب وہ یہی پوچھتے پائے جاتے ہیں کہ سر جی، اب کیا ہو گا؟
نواز شریف نے مشکل وقت بڑے صبر سے گزارا ہے۔ ان کے بارے میں میاں محمد اظہر نے کبھی کہا تھا کہ نواز شریف بدترین حالات میں بہترین سودے بازی کرتے ہیں اور وقت نے ثابت کیا ہے کہ نواز شریف میں اپنے وقت کا انتظارکرنے کا حوصلہ ہے اور جس کسی میں یہ حوصلہ ہوتا ہے، اس کا وقت آکر رہتا ہے،جبکہ وہ جو آصف زرداری کی طرح بگٹٹ بھاگتے ہیں، بالآخر انہیں لاٹھی ٹیکنا ہی پڑتی ہے!