عوام سے سچ کیوں نہیں کہتے کیوں تنگ کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں، مدتوں پرانا طریقہ کار اپنائے ہوئے ہیں تگڑے ڈنڈے کو مانتے ہیں یا پیسے کو

عوام سے سچ کیوں نہیں کہتے کیوں تنگ کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں، مدتوں پرانا ...
عوام سے سچ کیوں نہیں کہتے کیوں تنگ کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں، مدتوں پرانا طریقہ کار اپنائے ہوئے ہیں تگڑے ڈنڈے کو مانتے ہیں یا پیسے کو

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط34:
  ماشااللہ ہم رکاوٹیں کھڑی کرنے میں سپر ہیں۔انہوں نے کنکشن کے حوالے سے ہوئی گفتگو سے اسے آگا ہ کیا۔ کرنل بولا؛ " Hameed whom should i talk to" " والد نے جواب دیا؛”you speak to SE Wapda۔“اس نے اپنے پی اے سے کہا؛"put me on to SE Wapda" والد بتاتے ہیں میں کرنل کی بات تو سن سکتا تھا اس نے ایس ای کہا؛" Mr SE, Col Reach from US Army here. i have an important emplyee who can't sleep well without electricity. He has applied for wapda connection, please ensue he gets it by office hours today otherwise i have to speak to Secretary Defence. Hameed you go to work, i make sure you are connected to Wapda by this evening."                                                     
والد شام کو گھر واپس آئے تو واپڈا کا عملہ میٹر لگا کر واپسی کی تیاری کر رہا تھا۔ ان کا انچارج کہنے لگا؛”ملک صاحب! بجلی چالو ہو گئی ہے۔ بیگم صاحبہ کو چیک کرا دی ہے۔“ اگلی صبح والد دفتر جاتے ہوئے چوہدری سخاوت سے ملے۔ وہ والد کو دیکھ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا؛”ملک صاحب! توسی تے کمال کر دیتا اے۔ اینج پہلی وار ہی ہویا اے۔“ والد نے جواب دیا؛”چوہدری صاحب!”اگر کنکشن نہ لگتا تو تیرے ایس ای سمیت سب کی چھٹی ہو جاتی۔ہم ڈنڈے کو مانتے ہیں بس کسی قائدہ قانون کو نہیں۔“میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہم اپنے عوام سے سچ کیوں نہیں کہتے اور کیوں ہم انہیں تنگ کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ مدتوں پرانا طریقہ کار ہم آج بھی اپنائے ہوئے ہیں۔ ہم تگڑے ڈنڈے کو مانتے ہیں یا پیسے کو۔
وسکی کی بوتل؛        
ابا جی کی سنائی ملتان کی ایک اور بات بھی یاد آ گئی۔یہ اس ملک کے ایک بدنام کردار مشہور زمانہ وعدہ معاف گواہ محمود مسعود سے منسوب ہے اور اس دور کی ہے جب وہ ایس پی ملتان پولیس تھے۔ پراجیکٹ میں کام کرنے والے ابا جی کے سیکشن کے ایک ورکر کا انگوٹھا ”لیتھ مشین“ میں آ کر کٹ گیا۔ اس نے کمپنی سے معاوضہ طلب کیا۔ کمپنی لیت و لعل کرنے لگی۔ اس ورکر نے دھمکی دی کہ میں پولیس میں رپٹ کرواؤں گا۔“ کرنل ریچ نے بات سن کر کہا؛"Hameed, is he talking about the police chief of Multan, Mr Masood Mahmood.  
ابا جی نے جواب دیا؛ yes۔ امریکی کرنل یہ سن کر بولا؛" tell him the worth of your police chief is a bottle of wiskey? 
ابا جی بتاتے تھے کہ روزانہ اس ایس پی کو ایک بوتل شراب کمپنی کی طرفٖ سے جاتی تھی۔یقیناً یہ افسر اس بوتل کے عوض ان کو خوش رکھتا ہوگا اور لوگوں کو فخر سے بتاتا ہو گا میرے امریکیوں سے بڑے تعلقات ہیں۔والد کی یہ بات سن کر میں آج بھی شرمندہ ہوں کہ ہم اس حد تک گرے ہوئے لوگ ہیں۔ ایک بوتل شراب کی خاطر اس شخص نے ملک کا وقار بیچ دیا۔ ہم کیوں ایسے ہیں؟
 افسوس ایسے افسران آج بھی پائے جاتے ہیں اور گزرتے وقت کے ساتھ ان کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ ابا جی جب کو ئٹہ تھے تو ان دنوں وہاں ضمیر شاہ صاحب نامی ایس پی تھے۔ ابا جی نے مجھے بتا یا تھا۔ ”بیٹا! میری ان سے اچھی جان پہچان تھی۔ وہ انتہائی سادہ، ایمان دار اور سچے مسلمان تھے۔ چور ڈاکو ان کے نام سے ڈرتے تھے۔ مجال ہے کوئی دوکاندار زیادہ رقم وصول کرسکے یا کو ئی چیز انہیں مفت دینے کی کوشش بھی کرے یا کوئی ان کے کام میں مداخلت کی جرآت کر سکے۔ ایمانداری انسان کو دلیر بنا دیتی ہے۔“
رشوت، نا جا ئز آمدنی سے گردن تو اکڑ سکتی ہے، چہرے سے رعونت بھی ٹپک سکتی ہے لیکن دل اللہ کے خوف سے عاری ہو جاتا ہے۔ انسان شاید مرنا بھی بھول جاتا ہے۔ دنیاکی چمک دمک اور دولت کی ریل پیل کو کامیابی سمجھ بیٹھتا ہے اور آخرت بھول جاتا ہے اور یہیں سے انسان کی تباہی شروع ہوتی ہے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -