فرصتِ گناہ، وہ بھی چار دن 

فرصتِ گناہ، وہ بھی چار دن 
فرصتِ گناہ، وہ بھی چار دن 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  

 زندہ انسانوں میں سے ڈاکٹر کے ویٹنگ روم میں بیٹھے ہو ئے لوگ مجھے سب سے زیادہ قابلِ رحم لگتے ہیں۔ ایک تو کسی سے زندگی کی بھیک مانگنے کی اذیت، دوسرے لڑکپن میں پڑھا ہوا میرا یہ سبق کہ ترقی پذیر معاشرہ میں صحت، تعلیم اور پبلک ٹرانسپورٹ کے شعبے منافع خوری کا وسیلہ نہیں، مملکت کی ذمہ داری ہونے چاہئیں۔ یہ اپنی جگہ، لیکن میڈیکل ایمرجنسی میں زمینی حقائق فکری سچائیوں پر غالب آ جاتے ہیں اور مریض یا اُس کے تیماردار کے طور پر آپ کو نجی اسپتال یا کلینک کا رُخ کرنا ہی پڑتا ہے۔ تازہ ترین تجربہ واپڈا ٹاؤن کے نواح میں واقع اُس شفاخانہ میں ہوا جس کے انگریزی نام کا آزاد ترجمہ کریں گے ’ہمہ نگہداشت‘۔ تجربہ خوشگوار رہا جس میں اسپتال کی کارکردگی کو تو دخل ہوگا ہی۔ اصل بات تھی باشرع فزیشن کا شعری ذوق جس نے بیمار اور چارہ گر دونوں کو خوشگوار حیرت سے دوچار کر دیا۔

 اب اسکول کالج کے طالب علموں کی طرح متن کی تشریح سیاق و سباق کے حوالے سے کروں تو ہماری اچانک اسپتال یاترا بھائی زاہد کی معیت میں ہوئی۔ اچانک اِن معنوں میں کہ بھائی اور بھابھی گوجرانوالہ سے محض دو روز کے لیے لاہور پہنچے تھے مگر پہلے ہی دن اول الذکر کو بخار ہو گیا۔سعودی عرب سے آئے ہوئے ڈاکٹریٹ سے مزین بھانجے کی میزبانی میں پچھلے ویک اینڈ ایم ایم عالم روڈ پر ہائی ٹی تو بس درجن بھر عزیزوں سے ملاقات کا بہانہ بنی۔ وگرنہ زاہد ملک کی طبیعت، جنہیں میرے برعکس اپنی بیماریوں کی مشہوری کا شوق نہیں، پہلے ہی سے کچھ ناساز تھی۔ ریستوران میں بھی ایک فلمی ڈائیلاگ کے انُوسار کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے۔ گھر پہنچتے ہی ٹمپریچر میں اضافہ ہونے لگا۔ سو، ایک سو ایک، ایک سو دو، ایک سو تین۔۔۔ یہ کوئی انفیکشن لگتی ہے، گھر کی ڈاکٹرنی نے کہا۔ 

 میرے ذہن کے جو خانے بالکل خالی ہیں اُن میں علمِ طب کا خانہ بھی ہے۔ اِس لیے اگر کبھی خود کو بخار محسوس ہوا، فالتو چھینکیں آئیِں یا صبحدم مقررہ وقت پر اٹھنے کو د ل نہ چاہا تو مذکورہ بالا ڈاکٹرانی ہی سے رجوع کِیا۔ اگر بالفرض کام اِس سے بڑھ جائے تو، تو اگلی ’پورٹ آف کال‘ گوجرانوالہ میں سب سے چھوٹے بھائی دانش ہیں۔ وہی ڈاکٹر دانش جنہوں نے کِنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کے بعد دماغی امراض میں ہاؤس جاب مکمل کرتے ہی مجھے تسلی دی تھی کہ ”فکر نہ کریں، بڑھاپے میں آپ کو تو مَیں سنبھال لوں گا۔“ منجھلے بھائی زاہد کی دماغی میڈیکل ہسٹری مجھ سے بہتر ہے۔ تاہم ننہالی وراثت کے زیرِ اثر جگر و معدہ کی چھوٹی موٹی علامتوں سے وہ بھی نہیں بچے۔ یہی پہلو امکانی تشویش کا باعث تھا۔ چنانچہ دانش نے فوری طور پر ’ہمہ نگہداشت‘ والے مستند فزیشن سے اپائنٹمنٹ دلوا دی۔

 چار مرد و خواتین پر مشتمل قافلے کی قیادت بطور ڈرائیور میرے ہاتھ میں رہی۔ یہ اِس لیے کہ تدریسی مصروفیت کے سبب نہر کنارے اور پھر شاہراہِ نظریہ پاکستان سے متبادل رائے ونڈ روڈ تک روزانہ سفر کی بدولت میرا اسپتال کے محلِ وقوع کا اندازہ گوگل میپ سے بہتر تھا۔ پھر یہ بھی کہ کسی سرکاری محکمے، کاروباری ادارے یا ملٹی نیشنل کارپوریشن کی کارکردگی کا ابتدائی اندازہ مہمانوں کے لیے پارکنگ کی سہولت سے لگایا جاتا ہے، اگلے مرحلے پر استقبالیہ عملے کا رویہ۔ ہماری نوجوانی میں، جب فوجی اسپتال مرض اور مریض پر یکساں توجہ دینے کی شہرت رکھتے تھے، ہم نے پی او ایف ہاسپٹل میں اپنے زیر ِ علاج والد کی میز پر ہر صبح تازہ سرکاری گلدستہ دیکھا۔ ’ہمہ نگہداشت‘ میں بہار اُترنے کا تاثر تو نہ ملا، لیکن پارکنگ اے ون، استقبال پُرتپاک اور مریض کا نام پکارے جانے میں بس پانچ منٹ کی تاخیر۔ بہت اعلی!

 میرے ساتھ ہینڈ ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں داخل ہوتے وقت ہوا جب بیگم نے مجھے ویٹنگ روم میں بیٹھے رہنے کا آرڈر دیا۔ اشارہ ملحقہ کرسی پر رکھے دو عدد زنانہ پرس اور اُس گرم چادر کی طرف تھا جو ائر کنڈیشننگ کی ناقابلِ برداشت ٹھنڈک کی صورت میں مریض کو اوڑھا نے کے لیے تھی۔ یہ ہوئی ظاہری وجہ۔اصل سبب یہ کہ منزہ کا حقِ رفاقت بطور بیوی سب پر فائق تھا اور ڈاکٹر نبیلہ ولایتی ڈگری سے لَیس ہونے کی بدولت معالج کی ہدایات سمجھنے کی بہتر صلاحیت کی مالک تھیں۔ بارہویں کھلاڑی کا حال تو یہ ہے کہ چار سال قبل ’کاربو ہائیڈریٹ‘ جیسا سادہ لفظ سُن کر باقاعدہ بلیک میڈیکل ڈکشنری میں مذکوہ اصطلاح کے معنی تلاش کرنا پڑے تھے۔ تازہ واردات میں زاہد کے پون گھنٹہ معائنے کے دوران وہ فلم چلنے لگی جس نے صحت کے نجی شعبہ سے نفرت کم کرنے میں بارھویں کھلاڑی کی مدد کی تھی۔ 

 یہ دس سال پرانی فلم ہے جب ابا جان نے یکدم میرا ’تراہ‘ نکال دیا۔ اُس صبح زندگی سے مطمئن ہمارے نوے سالہ بزرگ، جن کے چہرے کو سفید ریش نے مزید خوشنما بنا رکھا تھا، ناشتہ میں چائے کا آخری گھونٹ پی کر ٹھیک ٹھاک مُوڈ میں اٹھے۔ پھر یکایک بَل کھا کر پتھر کی ٹائلوں پر منہ کے بائیں رخ یوں گرے کہ سر کے نیچے خون ہی خون۔ ایک انہونا لمحہ۔ ابا بے سدھ، مَیں بے بس۔ بیگم کی غیر موجودگی میں حفیظ خان کی مدد سے انہیں صوفہ پر لٹایا اور اور بھاگ کر فرش صاف کیا کہ یہ خونیں منظر مجھے مزید بے حوصلہ نہ کر د ے۔ دیکھا تو سانس چل رہی تھی اور عینک ٹوٹنے سے آنکھ کا زخم گہرا نہیں تھا۔ دو منٹ میں ملک صاحب نے آنکھیں کھولیں اور معتدل لہجہ میں کہا کہ کمرے میں لے چلو۔ میرا فون سُن کر شعبہء چشم کے شہرت سے بے نیاز ایک پروفیسر آ گئے اور اپنے ہاتھ سے پٹی کردی۔ 

 یہ جانتے ہوئے کہ جو کچھ ہوا بلڈ پریشر کا شاخسانہ تھا، اگلی صبح کا ایکٹ ذرا کم ڈرامائی لگا۔ رات بھر دیکھ بھال کے بعد میری آنکھ لگی ہی تھی کہ بیگم کی آواز نے چونکا دیا ”اٹھیں، ابا جان کو خون کی الٹی آئی ہے، مگر فریش بلڈ نہیں۔“ کل والے ماہرِ چشم دوست نے فون پر ایک نواحی اسپتال کا نام بتایا جو ایک جلیل القدر صحابی سے موسوم ہے۔ اِس مرحلے پر والد مرحوم ی طرحداری نہیں بھولتی۔ ”یار، کنگھی تو پکڑ و، بال ٹھیک کرنے ہیں۔‘‘ چار سے پانچ منٹ میں منزل پر، وہیل چئیر کے لیے معمولی تگ و دو اور پھر ڈیوٹی ڈاکٹر کا ذمہ دارانہ طرز عمل۔ یہاں نہ تو شناسا چہرے ہیں نہ کوئی سفارش کرنے والا، مگر چار جملوں کی میڈیکل ہسٹری سُن کر یہ نوجوان منطقی ترتیب سے کام کر رہا ہے۔ پندرہ منٹ کے اندر ہر ابتدائی رپورٹ حاضر۔ دو گھنٹے میں معدہ واش ہو چکا، مریض پلنگ پر لیٹا مسکرا رہا ہے۔ گل ہوئی نا۔

 زاہد ملک کو یہ ٹریٹمنٹ درکار نہیں تھا۔ انٹرویو ہوتے ہی دونوں خواتین کے جلو میں ڈاکٹر کے کمرے سے نکلے تو مطمئن تھے کہ اینٹی بائیوٹک انجکشن اور خون کے معمول کے ٹیسٹ تجویز کیے گئے ہیں۔ ساتھ ہی مسکراتے ہوئے معالج کا ایک سوال دُہرایا کہ آپ ڈرنِک تو نہیں کرتے؟ پھر اپنا دلچسپ جواب کہ ”اب سوچتا ہوں کہ کر ہی لیتے تو اچھا تھا۔“ اِس پر منزہ نے کہا ”وہ شعر بھی تو سُنائیں جو ڈاکٹر نے پڑھا تھا۔“ نبیلہ نے لقمہ دیا ”ہاں ہاں، کوئی چار دن کا ذکر تھا۔ عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن۔“ ”نہیں نہیں بھابھی، یہ نہیں مگر ’چار دن‘ کے الفاظ تھے۔“ بارھویں کھلاڑی کے منہ سے نکلا ”اِک فرصتِ گناہ ملی، وہ بھی چار دن۔“ تائید کا شور اٹھا تو مَیں سمجھ گیا کہ شرعی حلیے والے فزیشن کی فیض شناسی صحت کا پیغام ہے۔ اِسی لیے دوسرا مصرع نہیں پڑھا کہ ’دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے۔

مزید :

رائے -کالم -