"ضرورت مند دیوانہ ہوتا ہے "
سدرہ مشتاق
" انسان جب حالات کی تپش میں جھلس رہا ہو تو صحرا بھی اسے گلستان لگتا ہے"
زندگی میں عجب دو راہوں کا سامنا رہتا ہے، اکثر جب انسان کو لگتا ہے کہ چھاؤں میسر آ گئی اور اس میں دوپل سْکھ کا سانس لوں تو منہ کے بل گرجاتا ہے۔چھاؤں کی تلاش میں اپنی موٹی یا چھوٹی عقل کو دوڑاتا ہوا، بس لگا رہتا ہے، مسلسل محنت، تگ و دو، جہت، کوششوں اور ناجانے کون کون سی مصلحتوں میں،لیکن جب وہ تپتے ریگستاں میں مڑ کے پیچھے دیکھتا ہے تو مٹی، تنہائی، اْڑتی دھول اور، گرم ہواؤں کے علاوہ کچھ نہیں دکھائی دیتا، شاید یہی اس کے حقیقی ساتھی ہوتے ہیں، شاید اسی میں اس کی راحت کا سامان ہے اور وہ نہیں جانتا، نہیں پہچانتا، کہ جو میسر آ گیا، اسی کو غنیمت جانے اور اپنی ضرورتوں کی تکمیل میں اتنا شیدائی نہ ہو کہ صحرا میں بھٹکتے سانپ کو نفیس کھانا سمجھ بیٹھے اور لگے ہیں جناب اس کے شکار میں، نتیجہ اْسی کا شکار ہوجائے۔تو چلئے ضروریات کے اس پنجرے کی سلاخوں کو توڑیں اور اندر جھانکیں کہ آخر کیوں اور کیسے یہ ضروریات ہم پر اثر انداز ہوتیں اور ایک معقول انسان کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں اتنا کہ وہ اندھا ہی ہو جاتا ہے۔آئیے ضروریات کی اس تپتی دھوپ میں اپنے بدن کو جھْلسا کر اس سفرِ دلخراش میں ہمارے راہگیر ہو جائیں، شاید کہ کچھ نرم سائے زندگی میں میسر آ جائیں!
ایک عمر طویل گزر گئی لیکن ایک بوڑھی زندگی ابھی تک مصروف ہے۔ اپنے اثاثے کیا سمیٹنے ہیں ضروریات نے تھکا دیا، کمر توڑ دی۔سوچتی ہوں کہ ایسے راہگیروں کا سکون کہاں چھپا ہے؟ایسے مسافروں کی منزل کیا ہے؟ایسے خمیر کہاں آرام کریں گے؟۔سوالات میں اْلجھی کئی داستانیں ہوا کرتی ہیں لیکن حقیقت سے پردہ اْٹھانے والے جملوں کو، کوئی کوئی تلاش کرنے نکلتا ہے۔کئی ایسی کہانیاں ہیں جو روح کو چھلنی کر دیتی ہیں لیکن خود پہ بوجھ اْٹھائے جینا پڑتا ہے۔ہر وہ انسان جو ضروریات کے جال میں پھنسا ہے،معذرت کے ساتھ لیکن اندھا ہی ہو جاتا ہے ماسوائے کچھ بندہئِ خدا کے۔
کیسے؟آئیے ایک کہانی سنیے!ایک غریب مسافر تن تنہا اپنے بنانے والے کی چاہ میں، اس کی تلاش میں نکلا، سالوں کی مسافت طے کرنے کے بعد اْسے اپنے رب کا پتہ اپنے دل میں ملا، وہ مطمئن ہوا،دنیا کی لغزشوں سے عاری، دریا کنارے ایک درخت کی اوٹ میں اپنی جھگی بنانے میں کامیاب ہوا اور اپنی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لئے ایک ساتھی کا انتخاب کیا۔ وقت نے اپنی چال چلی، نسل بڑھانے کی چاہ جَگی،بچوں کی بڑھتی تعداد اور نیک ساتھی کا ساتھ اسے قدرت کا انمول تحفہ تھا۔اس بندہئ خدا نے،انسان کی اصل عظمت و مقام سے روشناس کروانے کے لئے، اپنے ہر بچے کو بھوک، افلاس، تنگی،خوفِ خدا، دوسروں کی مدد، نفس کے خلاف جنگ جیسی خوبیوں کو گھٹی میں ملا کر پلایا اور انسان کو عزت دینے والے نسخے تیار ہوئے،دوسروں کو بھی اپنے جیسا ہی سمجھنے والے اذہان تیار ہوئے۔اس نے اپنی زندگی کی بنیاد جن چند اصولوں پہ رکھی ان میں سے ایک" ہر انسان دوسرے سے افضل ہے " یہ تھا۔
بچوں نے اپنے محسن، خدا ترس، نیک دل اور عملِ صالح کے اس نمونہ (باپ) کی نصیحتوں کو اپنی زندگی کا اصول نہیں مقصد بنا لیا، ان سب میں ایک بات مشترک تھی کہ انہیں ایک دوسرے کا درد یکساں محسوس ہوتا، ایک کو چوٹ لگتی اور نم دوسرے کی آنکھ ہوتی، سبھی اپنی ذات پر دوسرے کو اہمیت دیتے، ایک دوسرے کو سمجھتے اور جتنا میسر آتا مل بانٹ کھاتے۔پھر ایک دن سیلاب اور تیز طوفان نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا، باپ کے جن اصولوں کو انہوں نے مقصد بنایا وہ بے حس دشمن کی طرح سامنے آ کھڑے ہوئے۔ ہر وہ چیز جو ان کی خوبی تھی وہ خرابی قرار پائی،ان کی زندگی میں شامل ہونے والے نئے افراد انہی اصولوں کو اپنی طاقت بنائے ان کی شخصیتوں کے پرخچے اْڑانے لگے، انہیں ان اصولوں اور ان کے بدلے میں آنے والے نتیجوں نے پریشان کر دیا، شاید انہیں فرق کرنا نہیں آیا، پھر ایک دن سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ آخر غلطی کہاں ہوئی؟ان میں ایک دانا نے سب کو اپنے گزرے دنوں اور موجودہ دنوں میں فرق کرنے کو کہا اور بالآخر سبھی ایک ہی نقطے پر متفق ہوئے کہ اس نئے فرد کے آنے کے بعد ہی الجھنیں مزید بڑھی ہیں، جو ہمارے مطابق صحیح وہ اس کے لیے غلط ہے تو کیوں نا اسی سے بات کی جائے شاید کہ اس کے پاس کوئی اور قیمتی نسخہ ہو جو ہمیں نہیں معلوم۔ بس سبھی نے اس کی بیٹھک اختیار کی، دیکھتے ہی دیکھتے،نیا شخص خود کو ان سب سے افضل کہلوانے لگا، ان کے ساتھ بھیڑ بکریوں کی طرح بڑتاؤ کرنے لگا۔لیکن ان بھیڑ بکریوں کی گھٹی میں افضل کون ہے کا فرق بچپن میں ہی ڈال دیا گیا تھا،اب سب نے سوال اْٹھانے شروع کیے، ایک دوسرے سے دوبارہ بات چیت شروع کی، نئے شخص کو اپنی صفائی دینے کے لئے لگی اس عدالت سے کوفت ہونے لگی، ایک جملہ چار جھوٹ پہ مشتمل پایا۔ثابت ہوا کہ نیا شخص ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے۔
نئے شخص کو اپنی چودھراہٹ جاتی نظر آئی سو اس نے خود ان سب کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا،کیونکہ جن اصولوں میں انہیں تسکین ملتی، اْسے تکلیف دہ گزرتے، لہٰذا طے پایا کہ دوسرے کے لئے بھی آسانی کا سامان رکھا جائے۔"سب سے سخت فیصلہ دلوں کے خلاف ہوا کرتا ہے اور بہت ہی کم ایسے افراد ہوتے ہیں جو دل کو سولی چڑھا دیں۔لیکن یہ سخت فیصلہ نفس کے خلاف لڑنے والے بڑے جگرے سے لے لیا کرتے ہیں "اور ان جانبازوں نے بھی ایسا ہی کیا۔طوفان کی زد میں آئی جھگی اْسی کی نذر ہو گئی،لیکن ان سب نے دوبارہ ایک جْٹ ہوکر اپنے سائبان کو ازسرِ نو تعمیر کیا، دیکھتے ہی دیکھتے،بہاروں نے پھر سے ڈیرہ جمایا۔
آسائشوں نے زندگی کو مہکایا اور ان میں سے ایک کو ساتھی کے ہونے کا پھر سے غم ستایا،سب سر جوڑ کے بیٹھ گئے اور سوچا ممکن ہے کہ اس بار تجربہ پہلے کی نسبت مختلف ہو شاید کہ زندگی، زندگی کے جیسی ہو خوبصورت اور سکون کا باعث بنے۔بس پھر چل نکلا یہ کارواں ایک اچھے نئی فرد کی تلاش میں۔ جس کے عمل سے ثابت ہو جائے کہ ان پر وہ گزرا وقت ہی خراب تھا،وہ انسان ایک امتحان تھا، اب سب ٹھیک ہے اور ہم جیسے بھی لوگ اسی دنیا میں رہتے ہیں، اور بھی ہیں ہم اکیلے نہیں اس دشتِ صحرا میں۔
اس بار انہوں نے بھوک بھی دِکھی، افلاس بھی، پریشانیاں و غربت بھی دِکھی تو انہوں نے ایک اور نئے شخص کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیالیکن یہ ضرورت مند اس بار بھی دیکھ نہ پائے ایک چیز جسے عملِ صالح کہتے ہیں (خدا کا خوف، اسی کی طلب میں مگن ہستی)، ہونا کیا تھا پھر اسی منجدھار میں جا پھنسے۔اب پھر سے سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور کھنگالی غلطی،سب پر آشکار ہوا کہ تنِ تنہا مسافر(ان کے باپ) نے جس کی تلاش میں سالوں سفر کی تکلیفیں، تلخیاں برداشت کیں وہ زندگی کی بہاروں کی کھوج میں اْسی کو بھول گیا اور اپنے اس بنانے والے سے ہی بیگانہ ہو گیا جس کے دئیے اصولوں میں وہ زندگی گزارتا تو تسکین پاتا لیکن اب تمنا بدل گئی، ضرورت آزمائش بن گئی چونکہ "آزمائش میں راہِ فرار نہیں ملا کرتی" تو زندگی کی دوڑ میں ہارتا گیا۔ہونا یہ چاہئے تھا کہ ہر ہر مرحلے پہ جن جن حالات کا اسے سامنا رہا وہ ان سے نکلنے کے لئے اس سے متعلقہ اپنے خدائے بزرگ و برتر کے انسان کی آسانی یا بھلائی کے لئے بنائے اصول پڑھتا، ان سے مدد لیتا،انہیں سامنے رکھتے ہوئے ان مراحل یا راستوں سے گزرتا۔ لیکن" آسائشیں بھی آزمائش ہوا کرتی ہیں، سدھ بْدھ ہی لپیٹ میں آ جاتی ہے"۔ذرا سنئے!آگ سے جھلستے، کھولتے لاوے سے بنی کھائی پہ ایک رسی سے لٹکے انسان کو اپنی زندگی کے سبھی مراحل وہی لٹکے لٹکے ہی طے کرنے ہیں،رسی چھوڑی زندگی آگ سے جھلستی، کھولتی کھائی میں، اسی لیے جناب، احتیاط،ہوش و حواس، علم و عمل، سوجھ بوجھ، مصلحت، سب چاہئے، سب، جو جو ہمیں بتایا یا سمجھایا گیا ہے، اس میں ہماری ہی بہتری ہے،ہمارے لیے ہی مشعلِ راہ ہے۔
اب یہاں یہ سمجھ میں آ جانا چاہئے کہ "جڑیں کاٹ کر پھل نہیں کھائے جاتے "۔ سمجھنے والے سمجھ جایا کرتے ہیں اور نہ سمجھنے والے بس جیتے رہتے ہیں، لٹکتے رہتے ہیں،نقصان اْٹھاتے رہتے ہیں۔جب تنِ تنہا سفرکا فیصلہ کیا تو وہ با اختیار تھاملنے والا ساتھی اور اولاد بھی ہم خیال تھے تو یہاں اس کے امتحان کی تیاری ہو رہی تھی،اب جن اصولوں پر اس نے زندگی کی بنیاد رکھی تھی یا یوں کہوں کہ جس سفرِ تنہا میں اس نے ایک مقصد بنایا تھا اور اس کو اپنے ہم ذہنوں کے ساتھ بانٹا تھا تو وہ اس کے سفر کا آغاز تھا اب انتخاب، ضرورت اور تمنا کے پلڑے میں تولنے کا وقت ہے۔امتحان دینے اور ٹٹولنے کا وقت ہے۔
جن اصولوں پہ اپنی زندگی کی بنیاد رکھی جاتی ہے وہی اصول انسان کا امتحان بن جایا کرتے ہیں اور امتحان بھی ایسا کہ انسان کی اگر جڑیں کمزور ہوں تو اس کی نسلوں کے بھی پرخچے اْڑ جائیں لیکن اگر وہ صابر و شاکر ہو تو اس کی ذات معراج پائے اور کامیابیاں اس کی میراث بن جائیں۔ اسی لیے عرض ہے کہ ان اصولوں کو کھنگالیں جن پہ آپ نے اپنی ذات، اپنی زندگی کی بنیاد رکھی ہے، اور کسی بھی اصول کی پیروی کرنے کے ساتھ ساتھ دائیں بائیں بھی دیکھ لیں شاید کوئی اور آسانیوں کا سامان ہو۔
کیونکہ منزلیں پْر خطر راستوں کا انتخاب کرنے والوں کو ہی ملا کرتی ہیں اور طریقے / سلیقے سے زندگی گزارنے والے ہی پْرسکون رہتے ہیں۔سلیقہ وہ جس میں بندگی جھلکے جس میں اطاعت نظر آئے جس میں روح و بدن تسکین پائیں۔یاد دہانی کے لئے پھر سے، اپنی زندگی میں کسی بھی اصول کی پیروی سے قبل اس کے سبھی پہلوؤں کی چانچ پرکھ کر لیں کیونکہ بظاہر تصویر کا ایک ہی رْخ دیکھا جاتا ہے لیکن دوسرا رُخ بھی ہوا کرتا ہے،اس سے پہلے کہ اصول آپ کی چٹنی بنا جائیں آپ انہیں ہی سمجھیں اور ہر پہلو سے ان کا جائزہ لیں، ہر شے پہ ہر حالت پہ،ہر شخص پہ، ہر کیفیت میں ایک اصول لاگو نہیں ہوتا اس کا متبادل بھی ہوتا ہے۔باقی "زندگی سیکھنے سیکھانے کا ہی نام ہے۔جو اس ہنر کو پا گیا جی گیا۔"
وگرنہ تو جو ہمارے معاشرے کے حالات ہیں، سب دیکھ ہی رہے ہیں، آسان حل صرف ایک ہے کہ اپنا مقصد واضح رکھیں (جو ہے دنیا و آخرت کی کامیابی)، جو اس راہ میں رکاوٹ بنیں انہیں دل پہ نہ لیں، بندوں کو ٹٹولیں،جاہلوں کو سلام کریں اور آگے بڑھیں۔آپ کے پاس اور بھی بڑی مصروفیات ہیں آپ کونسے ناکارہ یا فارغ انسان ہیں۔ آپ بھی افضل اور دوسرا بھی افضل۔کوئی کسی سے کم تر یا برتر نہیں مگر ہاں وہ جو حق کو پہچان گیا جو تقویٰ و پرہیز گاری اختیا ر کر پایا اور اسی کے لئے جی گیا،خدائے یکتا نے اسے افضل کہا ہے۔ میانہ روی بڑی ہی خوبصورت شے ہے، اسے جانیں اسے اپنی زندگی اور زندگی کے سبھی مراحل اور فیصلوں میں شامل کریں۔اور اگر میری سنیں تو" اپنی ذات کی اْلجھنوں کو دل سے سلجھائیں، دل کی نشست میں بیٹھیں، یقین جانئے بڑی ہی تسکین بخش بیٹھک ہے اس دل کی"۔جو اس کو سننا شروع کریں تو مسکان آپ کی جاگیر ہوا کرتی ہے، زندگی آسانیوں کی تصویر ہو ا کرتی ہے۔ ضروریات کی چکی میں پستے پستے خود کو ہی تباہ نہ کریں، یہ سلسلہ تو قبر میں جانے تک آپ کا پیچھا نہیں چھوڑے گا، دعا گو ہوں کہ حقیقی تسکین سے دلوں کو راحت ملے(آمین)۔اب آخر میں، اس ضرورت کے سفر میں اندھا دھند دوڑنے والے میرے بہادر ساتھیو!ضرورت کا یہ سفر کافی طویل ٹھہرا تو اے دل سے سننے والو دِل کی سنیں،توجہ فرمائیں!
وہ جو تپتے صحرا کو بھی گلستان سمجھ لیتا ہے
در حقیقت ضرورت مند، اندھا ہوتا ہے
لیلہ کا تمنائی جسے مجنوں پکارتے ہیں سوچو
کیوں خار دار جھاڑیوں میں،اْلجھا ہوتا ہے
وہ ہر لغت میں اپنی شناخت رکھتا ہے
باوفا کی قسمت میں کچھ منفرد، لکھا ہوتا ہے
ہر شے کو جنون یارِ مستی نامی مرض لاحق ہوا
رانجھے کو اْسی کی دھڑکنوں نے، باندھا ہوتا ہے
نسبتوں کے متلاشی نڈھال رہے سدا
بے سْدھ بوجھ ڈھونے والا، گدھاہوتا ہے
خود کو غور و فکر کے پلڑے میں تولو
وگرنہ شتر بے مہار بھی، بوڑھا ہوتا ہے
کوئی تدبیر نہ بتلائے کوئی چال نہ کام آئے
تقدیر کا شکار اپنے قد سے بھی، آدھا ہوتا ہے
جو پاس ہے اس پہ کبھی سر نہ رکھا
دل ہی تو بھروسے مند، کندھا ہوتا ہے
وہ جو خاموشی سے سب سہہ جائے اور مسکائے
سفید پوش نے ذائقہئ حیات، چکھا ہوتا ہے
ضرورت مند گر ضرورت کے پیمانے پہ تولا جائے
تولنے والا ہو حق تو، صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے
قطعی باتیں صرف اْسی لاشریک کی ہیں
نہ ماننے والا قبر تک،اوندھا ہوتا ہے
final