دوسروں کو سدھارنے کا خبط

   دوسروں کو سدھارنے کا خبط
   دوسروں کو سدھارنے کا خبط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 ہماری ساری زندگی دوسروں کو سدھارنے کی کوشش یا خبط میں گزر جاتی ہے۔ کسی نے کیا سچ کہا ہے اگر دوسروں کو سدھارنے کے خبط میں کمی لاکے ہم آدھی توجہ بھی خود کو سدھارنے پر صرف کریں تو معاشرہ گل و گل زار ہوجائے۔ ہمیں دوسروں کی آنکھ کا تنکا بھی نظر آ جاتا ہے۔ اپنی آنکھ کا شہتیر بھی دکھائی نہیں دیتا۔ یہاں ادلے کا بدلہ چلتا ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں ہمارے ساتھ جو سلوک ہوا وہ ہم نے دوسرے کے ساتھ تو کیا ہی نہیں حالانکہ اس سلوک سے ملتا جلتا کوئی کام ہم کر چکے ہوتے ہیں۔ ایک اعلیٰ افسر جو بہت قریبی دوست ہیں کل ملے۔ باتوں باتوں میں یہ ذکر آیا کہ ہمارے معاشرے میں ہی اتنے زیادہ مسائل کیوں ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں لوگ اس طرح دفتروں میں مسائل لے کر مارے مارے نہیں پھرتے۔ کہنے لگے اس کی وجہ بہت خاص ہے ہمارے ہاں ہر شخص دوسرے کے لئے مسائل پیدا کرنے پر لگا ہوا ہے۔گلے محلے سے لے کر محکمے اور دفاتر تک یہ روش عام ہے۔ یورپی ممالک میں لوگ مسائل اپنی سطح پر حل کرتے ہیں کوئی ایسا شخص ہوتا ہے جو مسائل پیدا کرتا ہے تو نظام اسے سدھارنے کے لئے آ جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا، شہریوں کے مسائل پر مبنی درخواستیں پڑھیں تو اندازہ ہو جائے گا ان کے پیچھے خود شہریوں کا ہاتھ ہے۔ ایک مسئلہ پیدا کرتا ہے تو دوسرا حل کرانے کے لئے نکل پڑتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ وہ مل بیٹھ کے اس مسئلے کا خود ہی حل نکال لیں۔ یہاں مسئلے لوگ خود پیدا کرتے ہیں اور چاہتے ہیں ان کا حل انتظامیہ نکالے۔ ایک ہی محلے سے دس بندے ایک طرف اور دس دوسری طرف سے آ جائیں گے تو انتظامیہ کیا کرے گی۔ ایک شخص سپیڈ بریکر  اپنے گھر کے آگے بنا لیتا ہے، تو چند قدم چھوڑ کر دوسرے کو بھی سپیڈبریکر بنانے کا خیال آ جاتا ہے۔ جب بہت سے بن جاتے ہیں تو اہل علاقہ تنگ آ جاتے ہیں اور انتظامیہ سے رجوع کرتے ہیں جس وقت پہلاسپیڈ بریکر بن رہا ہوتا ہے اسے نہیں روکتے۔ انہوں نے کہا وزیراعلیٰ مریم نوازکے حکم سے تجاوزات کے خلاف مہم جاری ہے۔ اس دوران ایسے ایسے حقائق سامنے آ رہے ہیں جو اس معاشرے کی لاتعلقی اور بے حسی کو ظاہر کرتے ہیں۔ سڑکوں تک تجاوزات قائم ہوتی ہیں اور جب ہو رہی ہوتی ہیں تو کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔ اس میں مقامی انتظامیہ کی بھی غفلت ہوتی ہے تاہم علاقے کے لوگ آواز نہ اٹھائیں تو انتظامیہ کے افسر اور کارندے بھی سوئے رہتے ہیں یا پھر رشوت لے کر آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ دوسروں کو سدھارنے کے لئے پاکستان میں ہرشخص بے تاب نظر آئے گا۔ زبانی اور علمی دونوں طرح سے اپنے ردعمل کا اظہار بھی کرے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے خود اس کے بارے میں بھی کچھ لوگ یہ کوشش کررہے ہوں گے کہ اسے غلط کاموں سے روکا جائے۔ رشوت لینے کی عادت اب تو سرکاری کارندوں میں راسخ ہو گئی ہے، مگر ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ اپنے دفتر میں بیٹھ کر رشوت و بدعنوانی کی گنگا بہانے والا جب کسی کام سے کسی دوسرے محکمے میں جاتا ہے اور وہاں وہی دستور نافذ العمل دیکھتا ہے جو اس نے خود اپنے دفترمیں رائج کر رکھا ہے تو کانوں کو ہاتھ لگا کر دہائی دیتا ہے۔ پاکستان میں تو آوے کا آوا بگڑ گیا ہے۔ اپنے گریبان میں جھانکنے کا مشورہ تو یہاں ہر کوئی دیتا ہے لیکن عین وقت پر اپنے کی بجائے دوسرے کے گریبان میں جھانکنا شروع کر دیتا ہے۔

ہم اپنے اسلاف کی اعلیٰ روایات کو بھی دوسروں پر منطبق کرتے ہیں سچ بولنے کی بات ہو تو دوسروں سے توقع رکھتے ہیں وہ سچ بولیں، خود جھوٹ بولنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ دودھ والا جب پانی کی ملاوٹ کرتا ہے تو اسے یہ کام برا نہیں لگتا ہاں اگر راستے میں ٹریفک کانسٹیبل اسے روک لے، اس کی موٹرسائیکل پر لدے دودھ کے ڈبوں پر اعتراض کرے یا لائنیں دکھانے کا کہے اور نہ دکھانے پر چالان کرنے کی دھمکی دے، اس سے بچنے کے لئے دودھ والا رشوت دے کر جان چھڑانے کا راستہ اختیار کرے تو اگلے دس دن وہ یہ دہائی دیتا رہے گا۔ ملک میں رشوت عام ہو گئی ہے، لوگوں کو خوفِ خدا رہا ہے اور نہ خوف قانون۔ میرے علاقے میں روزانہ دودھ کے نام پر بھرے ہوئے ٹینکر آتے ہیں۔ عقل حیران رہ جاتی ہے اتنا زیادہ دودھ کون سی بھینسیں دے ری ہیں اور کہاں کھڑی ہیں۔ اندھے کو بھی پتہ ہے یہ کیمیکل ملا دودھ ہے، مگر سب نے آنکھیں بند کی ہوتی ہیں اور کہنے والے بھی صرف سفید رنگت دیکھ کر دودھ لے جاتے ہیں۔ آپ دیکھتے جائیں اور میں دکھاتا جاؤں گا تو شاید اس معاشرے کی دوعملیاں، منافقتیں اور جھوٹ پھر بھی پوری طرح سے آشکار نہ ہوں۔  یہ تو وہ معاشرہ ہے جہاں رشوت ختم کرنے پر مامور محکمے کے اہلکار رشوت لینے لگ جاتے ہیں۔ ملاوٹ کے خلاف کارروائی کرنے کے ذمہ دار ملاوٹ مافیا کے ہم پیالہ بن جاتے ہیں۔ جرائم کو کنٹرول کرنے پر تعینات پولیس اہلکار مجرموں کے سرپرست اور سہولت کار نظر آتے ہیں۔ چند روز پہلے ایک دوست جنہیں سماج سدھار بننے کا بہت جنون ہے۔ ملنے آئے اور مجھے کہا میں اپنے جاننے والے انتظامی افسر سے کہوں کہ وہ فلاں علاقے کے پٹرول پمپ کاپیمانہ چیک کرے۔ یہ پٹرول پمپ ان کے علاقے میں موجود تھا۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے ایک لٹر میں ایک پوائنٹ کم ہوتا ہے۔ میں نے کل اس کی شکایت کی تو پٹرول پمپ کے غنڈے مجھے مارنے آ گئے۔ میں نے کہا ٹیمیں پٹرول پمپوں کے پیمانے چیک کرتی رہتی ہیں، کہنے لگے آپ نے کتنی بار سنا ہے۔ پٹرول پمپوں کے پیمانے چیک کئے گئے اور کم تو پیمائش کرنے والوں کو جرمانہ کیا گیا، میں لاجواب ہو گیا۔ میں نے وعدہ کرلیا کہ پیمانہ چیک کروانے کی کوشش کروں گا۔ متعلقہ محکمے میں میرا ایک شاگرد لگا ہوا تھا۔ اس سے بات کی، اس نے کہا کل چیک کرلیتے ہیں۔ اگلے دن انہوں نے بتایا پیمانہ صحیح تھا۔ البتہ انہوں نے ایک شخص کی نشاندہی  کی جو مفت پٹرول نہ دینے پر ان کے خلاف شکائتیں کرتا رہتا ہے۔ غالباً آ پکو بھی کسی ایسے بندے نے ہی اطلاع دی ہے۔ میں ہکا بکا رہ گیا۔

غرض آپ معاشرے میں موجود جتنی بھی برائیاں اور خرابیاں اٹھا کر دیکھ لیں، جن کی ہر بندہ شکایت کرتا اور جو آئے روز سامنے آتی رہتی ہیں، تو ایک بات ابھر کر سامنے آ  ئے گی، کہیں ایک فرد ملوث ہے اور کہیں دوسرا۔ جس خرابی کا مجھے سامنا ہے میں اس کی بنیاد پر معاشرے کے خراب ہونے کی دہائی دے رہا ہوں اور جس خرابی کا میری وجہ سے دوسروں کو سامنا ہے اس پر سب میری شکایت کررہے ہیں، یہ ایک زنجیر ہے جو ہم نے بنا رکھی ہے۔ اس زنجیر کو بہتر تو تبھی کیا جا سکتا ہے جب اس کی ہر ایک کڑی اپنا کردار ادا کرے، لیکن یہاں سب کی سوچ یہ ہے کٹریوں کو چھوڑیں پہلے زنجیر کو درست کریں، معاملات کا بگاڑ بھی اوپر سے آتا ہے اور سدھار بھی، اس ملک میں فرشتوں کی حکومت بھی آ جائے تو حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔ حالات بہتر ہوتے ہیں جب افراد بہتری کی طرف جاتے ہیں۔ دوسروں کو سدھارنے کی خواہش کا خبط ہمیں اندر سے کھوکھلا کر چکا ہے۔ خود کو سدھارنے کی عادت اپنائے بغیر کوئی مثبت تبدیلی نہیں آ سکتی اسے پتھر پر لکیر سمجھا جائے۔

مزید :

رائے -کالم -