عید مبارک

  عید مبارک
  عید مبارک

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 ایک ماہ مہنگائی کی چکی میں پسنے کے بعد پاکستانیوں کو عید کا دن دیکھنا نصیب ہوتا ہے۔عید ویسے تو روزہ داروں کے لئے اللہ کا ایک انعام ہے،لیکن ہمارے ہاں جس طرح رمضان آتے ہی کاروباری طبقہ چھریاں چاقو تیز کر کے میدان میں آ جاتا ہے،لوگوں کی رہی سہی جیبیں بھی صاف کر دیتا ہے اس  سے عوام سمجھتے ہیں اس مہینے کے اختتام پر انہیں جہاں اِس بات پر شکر ادا کرنا چاہئے کہ انہیں ماہِ رمضان نصیب ہوا،وہاں اِس بات پر بھی ہدیہئ شکر بنتا ہے کہ مصنوعی مہنگائی سے نجات مل جائے گی۔اِس بار تو نجانے اچھے سیب اور کیلے کہاں چلے گئے تھے۔ ہری مرچ کے سائز جتنے کیلے بھی اڑھائی تین سو روپے درجن ملتے رہے، جبکہ سیب جو عام دِنوں میں کوئی دو اڑھائی سو روپے کلو ملے، ساڑھے تین، چار سو روپے کلو دھڑلے سے بیچے گئے اور کسی نے اس کا نوٹس لیا اور نہ کوئی پرائس کنٹرول کمیٹی کہیں دکھائی دی۔بہرحال ماہِ رمضان جیسے تیسے گزر ہی گیا اور خیر سے عید آ گئی ہے۔ عید کے موقع پر کوئی دوسری بات کرنے سے پہلے عید مبارک کہنا فرض ہے اِسی لئے میری طرف سے تمام اہل اسلام کو دِلی عید مبارک۔آج خوب خوشیاں منائیں۔اچھے اچھے پکوان پکائیں،سویاں کھائیں باقی سب بھول جائیں۔اب اس بات پر بھی کچھ لوگ ناک بھوں چڑھائیں گے۔یہ نکتہ ڈھونڈ کر لائیں گے کہ اچھے پکوان اور خوشیاں تو وہ منا سکتے ہیں جن کے گھر دانے ہیں اور اُن کے کملے بھی سیانے ہیں۔باقی لوگ تو وہی روکھی سوکھی کھا کے عید کا دن گزاریں گے،حالانکہ میرا تجربہ اِس سے مختلف ہے۔میں نے دیکھا ہے،عیدکے دن وہ زیادہ خوش ہوتے ہیں، جنہیں ہم غریب سمجھ کے ترس کھا رہے ہوتے ہیں اُن کی خوشی درحقیقت اصلی ہوتی ہے، اُنہیں تھوڑی سی خوشی بھی مل جائے تو اُن کے لئے بھنگڑے ڈالنے کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔یہ درست ہے کہ اُن کے بچے برانڈڈ کپڑے نہیں پہنتے۔عام سا کپڑا لے کر گلی محلے کے درزی سے سلوا کر نئے کپڑے پہن لیتے ہیں،مگر اُن کے اندر کی خوشی ان کپڑوں سے کہیں قیمتی ہوتی ہے آپ ذرا کبھی عید کے دن کسی غریبوں کی بستی میں چلے جائیں۔وہاں آپ کو بچے زیادہ خوش اور اٹھکیلیاں کرتے ملیں گے۔اُن کی جیب میں بس اتنے پیسے ہوں گے کہ لچھے والے سے لچھا خرید لیں، یا غبارے والے سے غبارہ یا پھر گول گپے والا ریڑھی لے کر آ جائے تو اُس سے اپنی لذت وکام دہن کا وہ سامان کریں گے جو فائیو سٹار ہوٹلوں کے ریستورانوں میں بھی نہیں ملتا۔تو صاحبو!خوشی دراصل ایک احساس کا نام ہے یہ احساس تب پیدا ہوتا ہے جب آپ کے ضمیر پر کوئی بوجھ نہ ہو۔غریب اور مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد ہوں یا سفید پوش طبقے کے لوگ وہ کم از کم ضمیر کے اُس بوجھ سے آزاد ہوتے ہیں، جو کسی کا حق مار کر، کسی سے رشوت لے کر، ذخیرہ اندوزی کے ذریعے لوٹ مار کر کے اور ملاوٹ سے ایک کے چار بنا کر تجوری بھرنے کے بعد انسان پر حملہ آور ہوتا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ شاید دوسروں کی خوشیاں ہم اُن کا حق مار کر چھینتے ہیں،نہیں صاحب مصنوعی مہنگائی کے ذریعے غریبوں کی محدود آمدنی کو مزید محدود کر کے بھی ہم اُن کی خوشیاں چھین رہے ہوتے ہیں۔

دوسری جانب ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو اِس بیتابی سے ایسے افراد کو تلاش کر رہے ہوتے ہیں جو کسی وجہ سے عید کی خوشیاں منانے سے قاصر ہیں۔میرے حلقہ ئ  احباب میں کئی ایسے متمول دوست ہیں جو ماہِ رمضان میں جب بھی فون کریں گے ایک ہی سوال ہو گا۔آپ کی نظر میں کوئی مستحق خاندان ہے،جس کی مدد کی جا سکتی ہے،ایسے تو یہ ایک سادہ سا سوال ہوتا ہے،لیکن بہت ذمہ داری بھی مانگتا ہے آپ کے کہنے پر کوئی کسی کی مدد کرتا ہے تو یہ آپ کا فرض ہے اُس کے مستحق ہونے کی مکمل چھان پھٹک کریں،بعض دوست ایسے بھی ہیں جو بیرون ملک بیٹھے ہیں وہ اپنے مال سے غریبوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں وہ سارا بوجھ ہم پر ڈال دیتے ہیں کہ ضرورت مند اور مستحقین تلاش کرو۔اس پر کوشش شروع ہوتی ہے میرا تجربہ تو یہ ہے کسی کوشش اور تلاش کے بعد ہم کسی حقیقی ضرورت مند تک پہنچ جاتے ہیں تو اُس تک امداد پہنچا کر جو خوشی ہوتی ہے وہ کئی عیدوں پر بھاری ہوتی ہے،جنہوں نے ماہِ رمضان میں مہنگا مال بیچ کر دولت بنائی ہے وہ اس حقیقی خوشی کا اندازہ ہی نہیں لگا سکتے۔دنیا کے اُن ممالک میں جہاں اسلام نہیں، زیادہ آبادی غیر مسلموں پر مشتمل ہے، وہاں کے لوگ اور حکومتیں ماہِ رمضان میں مسلمانوں کو سہولتیں دینے کے لئے کتنے جتن کرتی ہیں اور ہمارا کاروباری طبقہ غریبوں اور روزہ داروں کے منہ سے آخری نوالہ بھی چھین لینا چاہتا ہے یہ بہت بڑی دو عملی ہے جس نے ہمیں حقیقی خوشیوں سے محروم کر رکھا ہے۔ عید کا دن بھی سب کے لئے آتا ہے جس طرح سورج کی روشنی اور ہوا پر کسی کا اختیار نہیں اسی طرح عید کا دن بھی ایک ہی سورج رکھتا ہے جو سب کے لئے آتا ہے اگر انسان دوسروں کے لئے اس سورج کی روشنی کو روکنے کا باعث بنتا ہے تو درحقیقت وہ اپنے حصے کی روشنی کم کر رہا ہوتا ہے،جو اس روشنی کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے، وہ اپنے اندر کی روشنی کو بڑھا رہا ہوتا ہے۔

اس عید پر ہمیں پاکستان کے لئے بھی دعائیں مانگنی ہیں،خاص طور پر بلوچستان میں امن و خوشحالی کی دُعا بہت ضروری ہے،مجھے ایک جاننے والے نے بتایا اُس کے عزیز و اقارب اس بار کوئٹہ سے نہیں آ رہے وگرنہ ہم ہمیشہ عید اکٹھی گذارتے ہیں۔اُس نے کہا ایک تو ٹرینیں نہیں چل رہیں اور دوسرا سڑک کے راستے سفر بھی بہت خطرناک ہو چکا ہے اس لئے مناسب یہی سمجھا ہے کہ وہ عید وہیں کریں،میں سوچنے لگا، ایک زمانے میں صرف بیرون ملک رہنے والوں کی یہ مجبوری ہوتی تھی کہ وہ پاکستان اپنی فیملی کے ساتھ عید نہیں منا سکتے تھے اب اندرون ملک رہنے والے بھی مجبور کر دیئے گئے ہیں۔ یہ اذیت زیادہ ہوتی ہے۔ ایک دوست بتا رہے تھے عید کے موقع پر دیہی علاقوں میں رش بڑھ جاتا ہے اور بڑے شہر خالی ہو جاتے ہیں،لوگ اپنے اصلی گھروں کی طرف لوٹتے ہیں جہاں انہیں سچی محبت اور سچے لوگ ملتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا عید پر خصوصی ٹرینیں چلائی جاتی تھیں تاکہ لوگ اپنے آبائی علاقوں میں عید منا سکیں۔اب بلوچستان میں رہنے والے پردیسی اس سہولت سے محروم ہو گئے ہیں اللہ سب کے لئے آسانیاں پیدا کرے۔اسلام نے بڑی خوبصورتی سے ایک فلاحی معاشرے کی بنیاد رکھی ہے زکوٰۃ کے ذریعے محروم طبقوں کو خوشیوں میں شامل کیا جا سکتا ہے اور فطرانہ نے ذریعے آخری وقت پر خوشیوں سے محروم رہ جانے والوں کی بھی مدد کر کے انہیں عید نے دن خوشی فراہم کی جا سکتی ہے۔آج کا دن نمازِ عید کے بعد گلے ملنے تک محدود نہیں ہونا چاہئے،بلکہ ہمیں حقیقی معنوں میں اپنے دِلوں سے نفرت، کدورت اور بغض و حسد کے سارے منفی جذبے نکال کر محبت اور انسانیت کے ارفع و اعلیٰ جذبوں کو جگہ دینی چاہئے،اُس کے بعد ہی صحیح معنوں میں عید مبارک ہو گی۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -