پولیس اہلکار عید کیسے منائیں گے۔۔۔

پاکستان میں لوگ عید بھرپور انداز میں اپنے پیاروں کے ساتھ منانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں لیکن ہر سال کی طرح ملک میں سکیورٹی اور پولیس اہلکاروں کی چھٹیاں اس سال بھی منسوخ ہو گئیں۔ اس بار بھی یہ اہلکار اہم سیاسی شخصیات کی رہائش گاہوں کے علاوہ شاہراؤں اور مساجدکے باہر بھی پہرا دیں گے تاکہ شہری امن و چین سے عید منا سکیں۔پاکستانی خاص کپڑے پہن کر اور میٹھے پکوان کھا کرعید الفطرکا تہوار منائیں گے لیکن ہیڈ کانسٹیبل محمد اعجاز اپنی وردی درست کر رہے ہیں، بوٹوں کے تسمے باندھ رہے ہیں۔ ملک بھر میں عید کا جشن ہے لیکن پنجاب پولیس کے لیے خصوصی ڈیوٹی کا دن ہے۔ بیشتر پولیس اہلکار اس سال بھی گھر والوں کے ساتھ عید نہیں منا سکیں گے۔ کانسٹیبل محمد اعجاز نے کہا،،، جی ہماری عید کی خوشی اسی میں ہے کہ ہمارے ملک کے شہریوں کی عید خیریت سے ہو جائے ہمارا کیا ہے جب گھر جا سکیں گے عید ہو جائے گی۔ ممکنہ دہشت گردی کے پیش نظر عید کے دن سکیورٹی چوکس کر دی گئی ہے اور ایک بار پھر پولیس اہلکاروں کی چھٹیاں منسوخ ہو چکی ہیں۔ لاہور پولیس محدود تنخواہوں اور وسائل کی واضح کمی کے باوجود فرض نبھانے میں کوشاں ہے، آئی جی پولیس ڈاکٹر عثمان انور،سی سی پی او لاہوربلال صدیق کمیانہ،ڈی آئی جی عمران کشور، ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران،ڈی آئی جی انویسٹی گیشن سید زیشان رضا کے مطابق پنجاب پولیس کو جدید ٹیکنالوجی کی تربیت دی گئی ہے تاکہ شہروں کو اور محفوظ بنایا جا سکے اور نئی بھرتیاں بھی کی گئی ہیں لیکن فی الحال تقریباً ہر 2ہزار شہریوں کے تحفظ کے لیے ایک کانسٹیبل تعینات ہے۔ لوگوں کے لئے عید خوشی کا دن ہوتا ہے لیکن ہمارے لئے مشکل تیاری کا دن کہ شہر کو ہر ناگہانی واقعے سے محفوظ کیسے رکھنا ہے۔ عوام کو تنقید کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکاروں کی مجبوریوں اور قربانیوں کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے۔ اگر آپ جان کو خطرے کی بات کریں یا گھنٹوں کی ڈیوٹی کی تو پولیس کا محکمہ سب سے آگے ہے۔ملک بھر میں دہشت گردی یا کوئی وباء کی لہر جب زور پکڑتی ہے تو اس کی لپیٹ میں فرنٹ لائنز پر موجود پولیس اہلکار بھی آتے ہیں۔ پولیس ہیڈ کوارٹرز کی ایک دیوار پر قطار در قطار پولیس والوں کی تصاویر لگی ہیں، نیچے نام لکھے ہیں۔ اہلکار گزرتے ہوئے یہاں سیلوٹ کرتے ہیں۔ یہ دیوار ان 250 سے زائد پولیس والوں کی خاموش گواہ ہے جنھوں نے گزشتہ چند سالوں میں دہشت گردی اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ پولیس کے جوان یہ جانتے ہیں کہ ڈیوٹی کرتے ہوئے انھیں کسی ناگہانی واقعے کی صورت میں سب سے پہلے نشانہ بنایا جا سکتا ہے اور شہریوں کے لیے ڈھال بھی بننا ہے۔پولیس اہلکاروں کا اپنے بچوں سے دور رہ کر ڈیوٹی دینا محب الوطنی اور اپنے فرض سے محبت کی نشانی ہے۔جہاں پولیس کے ادارے کو تنقید اور منفی رائے عامہ کا جواب اکثر دینا پڑتا ہے وہاں ادارے کی مشکلات کی عکاسی، عید کے دن ڈیوٹی پر کھڑے تنہا پولیس والے سے بہترشاید کوئی نہیں کر سکتا ایک ایسے ہی ناکے پر کانسٹیبل محمد اعجاز تعینات ہیں۔ ایک پرانے سے موبائل فون سے وہ گوجرانوالہ میں اپنی اہلیہ سے بات کر رہے ہیں ہاں اس بار بھی عید پر نہیں آ رہا تم نے بچوں کو عید کے کپڑے دلوا دئیے ہیں نہ؟ اچھا پھر ملیں گے، عید مبارک۔ مسلح افواج اور حساس ادارے کے جوان بشمول پولیس و دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار ملک بھر میں امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوشیوں کی قربانی دیتے ہیں۔ مسلح افواج کے سربراہان اور اعلیٰ افسران جوانوں کے حوصلے بلند کرنے کے لیے ان کے ساتھ ہی نمازِ عید ادا کرتے ہیں اور ا ن سے گلے مل کر پرمسرت دن کی مبارک باد پیش کرتے ہیں، یہ موقع جوانوں کے لیے قابلِ فخر ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے درمیان سربراہ کو پاتے ہیں۔اس عید پر بھی پاک فوج اور پولیس کے جوان قوم کو دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد سے بچانے کے لیے شہری اور دیہی علاقوں میں میدانِ عمل میں ہیں۔ پولیس کا یہ اقدام یقینا مثالی اور قابل ستائش ہے، قارئین سے درخواست ہے کہ ہمیں ان پولیس والوں کو اپنے ہی جیسا انسان سمجھنا چاہیے جو ہماری حفاظت پر معمور بیس‘بیس گھنٹے اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں اور بالخصوص عید کے تہواروں پرکہ جب اپنے ماں‘ باپ‘ بیوی بچوں اور بہن بھائیوں سے دور اپنی فیملی کو چھوڑ کے اور اپنی جان داؤپر لگا کے ہماری حفاظت کر رہے ہوتے ہیں ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم انہیں بھی اپنی فیملی کا ممبر سمجھتے ہوئے گلے لگائیں اور ہاتھ اٹھا کر سیلوٹ پیش کرتے ہوئے اپنی خوشیوں میں شامل کریں۔