تحریک انصاف کی نظریاتی اساس، کہاں کھو گئی؟

epaper


آج تحریک انصاف کے بہت سے پرانے کارکن بیس بائیس سال پہلے کی تصاویر لگا کر اپنا غم غلط کر رہے ہیں۔ ان تصاویر میں وہ تحریک انصاف کا کہیں جھنڈا اٹھائے کھڑے ہیں اور کہیں عمران خان کے حق میں نعرے لگا رہے ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سب کی تصویریں عمران خان کے ساتھ بھی موجود ہیں، مگر یہ سب تصاویر ان کے وزیراعظم بننے سے پہلے کی ہیں، وزیراعظم بننے کے بعد انہیں کپتان تک رسائی کا موقع ہی نہیں ملا۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے مگر اسے نظر انداز کرکے تحریک انصاف کا 24واں یوم تاسیس منایا گیا۔ تقریبات تو بڑے پیمانے پر نہ ہو سکیں، البتہ یہ دعوے ضرور کئے گئے کہ تحریک انصاف نے 24سالہ جدوجہد کے بعد یہ مقام حاصل کیا، مقام کی بجائے اگر اقتدار حاصل کیا کہا جائے تو درست ہے۔

مجھے یاد ہے کہ میں نے اس وقت عمران خان کے حق میں کالم لکھے جب ان کی خبر بھی اخبارات کے صفحہ آخر پر دو کالمی چھپتی تھی۔ فیصل آباد سے ایم این اے فرخ حبیب جو ان دنوں انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر تھے، گواہ ہیں کہ عمران خان کالم چھپنے کے بعد مجھے شکریہ کا فون بھی کرتے تھے اور یہ بھی کہتے تھے کہ میڈیا مجھے نظر انداز کررہا ہے۔ آپ کی مہربانی ہے کہ مجھ پر کالم لکھتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ جو لوگ اس زمانے میں عمران خان کے ساتھ تھے، ان کی پارٹی میں اپنا کردار ادا کر رہے تھے، آج کہاں گئے، آج کی تحریک انصاف پر تو پیراشوٹرز کا راج نظر آٹا ہے۔ پارٹی کے وہ نظریاتی کارکن ا ور رہنما تو دور دور تک کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ اگر کہیں ہیں بھی تو انہیں پارٹی کی آخری صفوں میں دھکیل دیا گیا ہے۔


میں جب فردوس عاشق اعوان، شہباز گل، افضل چن، شاہ محمود قریشی، شیخ رشید احمد اور اسی طرح کے دیگر رہنماؤں کو عمران خان کی بے مثال جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتے دیکھتا ہوں تو میری ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ شہباز گل تو ابھی ہوش میں بھی نہیں آئے ہوں گے، جب عمران خان نے جدوجہد کا آغاز کیا، باقی سب تو عمران خان کا ٹھٹھہ اڑانے والے تھے، کیونکہ ان کا تعلق مسلم لیگ (ن) یا پیپلزپارٹی سے تھا، جن کے خلاف علم بغاوت لے کر عمران خان میدان میں آئے تھے۔ آج اگر کوئی مجھ سے یہ سوال کر بیٹھے کہ تحریک انصاف، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) سے کیسے مختلف ہے تو میری پاس شائد کوئی جواب نہ ہو۔ صرف ایک عمران خان کے فرق کو تو فرق نہیں کہا جا سکتا۔ ون مین شو والی جماعتیں تو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) بھی ہیں۔ان میں بھی آصف زرداری اور نوازشریف کا سکہ ہی چلتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کی نظریاتی اساس کیا ہے۔ کہاں کھو گئی ہے اور تبدیلی کا نعرہ کس کونے میں پڑا آخری سانسیں لے رہا ہے۔

آج بھی یہی دلیل دی جاتی ہے کہ کمانڈر کی اہمیت ہوتی ہے۔ فوج اس کی کمان میں اسی کے دیئے ہوئے راستے پر چلتی ہے۔ کیا آج عمران خان اس بات کو ثابت کر رہے ہیں، ان کے اردگرد تو دوسری جماعتوں سے آئے ہوئے روائتی سیاستدانوں کا جمگٹھا ہے، وہ کیسے اکیلے اپنی پالیسیاں نافذ کر سکتے ہیں۔ حالت تو یہ ہو چکی ہے کہ چینی سکینڈل میں جن کے نام آئے ہیں، وہ ڈنکے کی چوٹ پر کابینہ میں بیٹھے ہیں۔ پاور کمپنیوں کے اربوں روپے کے فراڈ میں ملوث لوگ بھی عمران خان کے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ بے بسی کی تصویر بنے انہیں دیکھتے رہتے ہیں۔


تحریک انصاف شکر کرے کہ آج بھی اس کی ساکھ عمران خان کی وجہ سے بچی ہوئی ہے۔ ایک ان کی شخصیت ہے کہ جس پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں۔ بس سبھی اسی ماڈ ل کو سامنے رکھ دیتے ہیں، حتیٰ کہ وہ بھی جن کی پانچوں گھی میں ہیں۔ مثلاً جہانگیر ترین بھی اپنی صفائی میں یہی کہتے ہیں کہ عمران خان کرپشن کے خلاف اپنے ایجنڈے پر سختی سے قائم ہیں، اس لئے یہ ممکن نہیں کہ کوئی ان کے ہوتے کرپشن کر سکے۔ شاید عمران خان ان کی اس بات سے خوش ہو جاتے ہوں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات ہی نہیں، بلکہ چینی اور پاور کمپنیوں کی تحقیقاتی رپورٹوں میں حکومت کے ذمہ داروں کی نشاندہی بھی ہو چکی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمران خان اپنی نظریاتی اساس بچانے کے لئے انہیں فوراً حکومت سے الگ کر دیتے، مگر وہ بھی روائتی ہتھکنڈے استعمال کرکے انہیں بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 25اپریل کو انکوائری رپورٹ سامنے آئی تھی، مگر عین اسی دن یہ خبر جاری کی گئی کہ انکوائری کمیشن نے تین ہفتوں کی مہلت مانگ لی ہے۔ یہ کام تو ماضی کی حکومتیں بھی کرتی رہی ہیں کہ معاملات کو التواء میں ڈال کے قوم کی یادداشت سے محو کیا جائے۔ اب اگر شہبازشریف اور مسلم لیگ(ن) نے اپنی توپیں سیدھی کر لی ہیں اور مطالبہ کیا ہے کہ عمران خان اور عثمان بزدار مستعفی ہو جائیں، کیونکہ انہی کے حکم پر چینی کا بحران پیدا ہوا تو اسے غلط کیسے کہا جائے گا۔

چینی اور آٹے کی انکوائری رپورٹ عام کرکے تالیاں تو بجوا لی گئیں، لیکن یہ نہیں سوچا کہ جن مافیاز نے حکومتی صفوں میں پناہ لے رکھی ہے، ان کے خلاف کارروائی کی گئی تو حکومت کہاں رہے گی۔ جہانگیر ترین نے اپنے ایک انٹرویو میں بالکل ٹھیک کہا تھا کہ عمران خان اگر موروثی سیاستدانوں کو تحریک انصاف میں شامل نہ کرتے، انہیں انتخابی ٹکٹ نہ دیتے تو کبھی بھی اقتدار میں نہ آ سکتے۔ اب سوال یہ ہے کہ جن موروثی سیاست کے خلاف عمران خان 22سال لڑنے کا دعویٰ کرتے ہیں، اس کے نمائندوں ہی سے اگر اقتدار کی بھیک مانگ کے وزیراعظم بنے ہیں تو یہ کیسے کہا جائے کہ وہ نظریاتی آدمی ہیں۔ تحریک انصاف کے بانی ارکان جواب پارٹی سے الگ ہو چکے ہیں یا انہیں الگ کر دیا گیا ہے اگر یہی بات کہتے ہیں تو معیوب قرار پاتے ہیں۔ آج اوپر سے نیچے تک تحریک انصاف کا پارٹی تنظیمی ڈھانچہ دیکھیں تو سو میں سے ایک بھی ایسا نہیں ملے گاجو بائیس سال کی جدوجہد کا شریک ہو، بلکہ منزل انہیں ملی ہے، جو شریکِ سفر نہ تھے۔


آج جب میں تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کی سرگرمیاں دیکھتا ہوں تو مجھے کہیں سے بھی نہیں لگتا کہ وہ کسی ایسی سیاسی جماعت کے رکن ہیں، جس نے نظام کے خلاف بائیس سال جدوجہد کی۔ ان کے وہی روائتی جملے ہیں اور اپنے مفادات سمیٹنے کی وہی روائتی سرگرمیاں ہیں۔ عوام سے منہ چھپاتے پھرتے ہیں اور پارٹی کے اندر عوام کے حق میں یا کم از کم اپنے حلقے کو مسائل اجاگر کرنے کے ضمن میں بھی ان کی زباں بندی انہیں گونگا بہرہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ میں نے تحریک انصاف کی حکومت میں ایک نیا رجحان دیکھا ہے۔ تحریک انصاف کے تمام ارکان اسمبلی حتیٰ کہ وزراء تک بیورو کریسی کے بغل بچے کا کردار ادا کررہے ہیں۔یہ آگ اور پانی کا ملاپ ہے، جس کا ملنا عوام کو بے یار و مددگار چھوڑنے کے مترادف ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ارکانِ اسمبلی کم از کم بیورو کریسی سے ایک محاذ آرائی جاری رکھتے تھے، کہیں یہ محاذ آرائی ذاتی مقاصد کے لئے ہوتی تھی اور کہیں عوام کے مسائل کو حل نہ کرنے کے ردعمل میں بہرحال ایک گٹھ جوڑ کی فضا نہیں تھی۔ آج بیورو کریسی پنجاب پر پوری طرح راج کر رہی ہے۔ ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کی مکمل سپورٹ حاصل ہے، یہی وجہ ہے بُری گورننس نے پنجاب میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ اب اگر 22سالہ جدوجہد کا ثمر یہی ہے کہ جمہور کی آواز کو دبا دیا گیا ہے تو پھر اس پر فخر کرنے کی بجائے اظہار ندامت کرنا چاہیے۔