بیرونی جارحیّت کا دو ٹوک جواب

قومی سیاسی و عسکری قیادت نے ایک بار پھر پاکستان کے دفاع کے عزمِ صمیم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ کسی بھی بیرونی جارحیت کا بھرپور اور دو ٹوک جواب دیا جائے گا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کہا گیا کہ ملکی دفاع ناقابلِ تسخیر ہے،بیرونی جارحیت کے خلاف مُلک کو ہر ممکن حد تک مضبوط بنایا جائے گا،بھارت لائن آف کنٹرول پر نہتے شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے،جو ناقابلِ برداشت ہے۔بھارتی جارحیت سے متعدد افراد شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔قومی سلامتی کمیٹی نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے شہریوں پر بھارتی مظالم کی شدید مذمت کی، کمیٹی کے شرکا کو آگاہ کیا گیا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات کے دوران اُنہیں کشمیریوں پر مظالم کے دستاویزی ثبوت دیئے اور سیکرٹری جنرل پر زور دیا کہ اقوام متحدہ جموں وکشمیر کے لئے اپنا خصوصی نمائندہ متعین کرے،کمیٹی کو وزیراعظم کے دورۂ امریکہ اور جنرل اسمبلی سے خطاب کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا۔کمیٹی نے افغانستان کے ساتھ موجودہ صورتِ حال،پاک افغان تعلقات خصوصاً بارڈر مینجمنٹ اور افغان مہاجرین کی واپسی کا بھی جائزہ لیا۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ آج افغانستان کے دورے پر جا رہے ہیں،جسے موجودہ حالات میں بڑی اہمیت دی جا رہی ہے۔
کشمیر کی کنٹرول لائن پر بھارت نے کئی سال سے اشتعال انگیز صورتِ حال پیدا کر رکھی ہے، اور وقتاً فوقتاً گولہ باری اور بمباری کا سلسلہ جاری رکھا جاتا ہے،ابھی گزشتہ روز بھی بھارتی فوج کی فائرنگ سے صوبیدار سمیت تین افراد شہید ہو گئے۔ راولا کوٹ کے علاقے رکھ چکری میں بلااشتعال شہری آبادی کو نشانہ بنایا گیا۔فوجی پٹرولنگ پارٹی پر بھی فائرنگ کی گئی، کنٹرول لائن کے قریب واقع دیہات کے لوگوں کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہراساں کیا جاتا ہے،جس کی وجہ سے کسان اپنے کھیتوں میں کھیتی باڑی کا سلسلہ بھی جاری نہیں رکھ سکتے،اپنی فصلیں کاشت کر سکتے ہیں نہ برداشت کر سکتے ہیں، کئی دیہاتی بھارتی فوج کی فائرنگ سے شہید اور زخمی بھی ہو چکے ہیں۔ پاکستان کی فوج کی جوابی کارروائی سے بھارتی فائرنگ کا سلسلہ وقتی طور پر تو رُک جاتا ہے تاہم کچھ دِنوں کے بعد پھر فائرنگ کا کوئی نہ کوئی واقعہ ہو جاتا ہے۔
جن دِنوں مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کی سرگرمیاں تیز ہوتی ہیں کنٹرول لائن پر بھارتی فوج کی اشتعال انگیزی بھی بڑھ جاتی ہے،جس کا واضح مقصد یہی نظر آتا ہے کہ دُنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر کے حالات سے ہٹائی جا سکے،لیکن پاکستان نے جنرل اسمبلی میں یہ معاملہ پوری شدت سے اُٹھا دیا ہے،وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے اپنے خطابات میں دُنیا کی توجہ اِس مسئلے کی طرف دلائی،کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کی داستانِ الم اور اس کی گواہ تصویریں بھی دُنیا کو دکھائی گئیں، جس پر بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے بوکھلا کر پاکستان پر الزام تراشی شروع کر دی اور جواب میں ’’ترقی کرتے ہوئے‘‘ بھارت کی ایسی مثالیں پیش کر دیں،جن کا اِس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں تھا،کشمیر میں بھارت نے جو مظالم روا رکھے ہوئے ہیں جب ان کی تصویریں بھی جنرل اسمبلی میں دکھائی گئیں تو بھارت نے اپنے مظالم سے پردہ اُٹھنے کے خوف سے یہ واویلا شروع کر دیا کہ یہ تصویریں کشمیر کی نہیں، فلسطین کی ہیں،حالانکہ ایسی سینکڑوں تصویریں سوشل میڈیا پر موجود ہیں اگر ان میں کوئی تصویر فلسطین کی بھی ہے تو اسرائیل بھی تو وہاں وہی کچھ کر رہا ہے جو بھارت کشمیر میں کر رہا ہے۔اسرائیل بھی عالمی رائے عامہ کو گمراہ کر رہا ہے اور بھارت نے بھی یہی روش اپنا رکھی ہے۔ اب تو مودی اور نیتن یاہو مل کر اسلحہ بنانے کے منصوبے بھی بنا رہے ہیں۔
کشمیر کے حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں اس کے بعد اب بھارت میں یہ بات تسلیم کی جا رہی ہے کہ کشمیری اب آزادی کے سوا کسی چیز پر رضامند نہیں، بھارت کے سیاسی اور فوجی حلقے دونوں اپنی قیادت کو یہ مشورے دینے لگے ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے، لیکن بھارت نہ تو مذاکرات کی میز پر آتا ہے اور نہ ہی کنٹرول لائن پر اشتعال انگیز فائرنگ کا سلسلہ رکتا ہے، قومی سلامتی کمیٹی میں اس پہلو پر تفصیلی غور کے بعد بھارت کو خبردار کر دیا گیا ہے کہ وہ اشتعال انگیزی سے باز رہے اور حالات کو پُرامن بنانے کے لئے اقدامات کرے۔ بھارت نے ’’سرجیکل سٹرائیک‘‘ اور ’’کولڈ سٹارٹ‘‘ کے بارے میں بھی بہت سے افسانے تراشے ہیں، حالانکہ معروضی حقائق اِس کی تصدیق نہیں کرتے، اِس کا مقصد بھی اپنے عوام کو مطمئن کرتا ہے، جو کنٹرول لائن پر بھارتی فوجیوں کی ہلاکتوں پر سوال اُٹھاتے ہیں ،جب نریندر مودی کی ہدایت پر فوجی کمانڈروں نے نام نہاد سرجیکل سٹرائیک کے بارے میں سیاسی جماعتوں کو بریفنگ کا اہتمام کیا تو بریفنگ کے بعد جو سوالات ہوئے فوجی کمانڈر اِس سے بوکھلا گئے اور کوئی جواب نہ دیا بس اتنا کہا کہ جو کچھ آپ کو بتایا جا رہا ہے اس پر اکتفا کریں۔
اب امریکہ نے بھارت کو افغانستان میں جو نیا کردار سونپنے کا اعلان کیا ہے پاکستان اسے مسترد کر چکا ہے، کیونکہ بھارت پہلے ہی افغان سر زمین کو دہشت گردی کے لئے استعمال کر رہا ہے اور اس کے تربیت یافتہ دہشت گرد اِسی راستے سے پاکستان میں آ کر دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں اِس لئے پاکستان کو طورخم سرحد کے ساتھ بارڈر مینجمنٹ بہتر بنانے کے لئے اقدامات کرنا پڑے اور سرحد پر باڑ بھی اِسی مقصد کے لئے لگائی جا رہی ہے۔ امریکہ کے کہنے پر بھارت نے افغانستان میں اپنی فوجیں بھیجنے سے اگرچہ انکار کر دیا ہے،کیونکہ اسے اس مُلک میں پیش آنے والی مشکلات کا اندازہ ہے تاہم امریکہ اگر بھارت کا وسیع تر کردار افغانستان میں چاہتا ہے تو وہ اس کے پردے میں پاکستان کے خلاف کارروائیاں جاری رکھ سکتا ہے اِس لئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو اپنے دورۂ افغانستان میں یہ مسئلہ بھی افغان حکام کے سامنے رکھنا چاہئے اور ان پر واضح کر دینا چاہئے کہ افغان سر زمین کا استعمال اگر دہشت گردی کی کارروائیوں کے لئے جاری رہا تو یہ نہ صرف افغانستان اور پاکستان ،بلکہ خطے کے دوسرے ملکوں کے لئے بھی اچھا نہیں ہو گا خطے کا امن و استحکام اِس بات پر منحصر ہے کہ تمام مُلک مل کر امن کے لئے اقدامات کریں اور ایسے حالات پیدا نہ کریں، جس سے امن کی صورتِ حال خراب ہو۔