نواب محمد اسماعیل خان۔۔۔ تحریک پاکستان کاروشن باب

تحریک پاکستان کے افق پر یوں تو کئی ایک ستارے جگمگائے لیکن چند ایک کی ضوفشانی سے تحریک نہ صرف تحریک کے صحیح معنوں سے آشنا ہوئی بلکہ تابناک بھی بن گئی۔ انہی ناموں میں سے ایک نام اگست 1884ء میں نواب اسحاق خان کے گھر پیدا ہونے والے نواب محمد اسماعیل خانؒ کا بھی ہے۔ اُنہوں نے خاندانی روایت کو مدنظر رکھتے ہوئے ابتدائی تعلیم کے لئے گھر کی چار دیواری کو ہی منتخب کیا‘ کہ یہاں انہیں اساتذہ کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ پدرانہ شفقت کا سہارا بھی میسر تھا۔ نواب اسماعیل فطرتاً ذہین واقع ہوئے تھے۔ انہیں قرآن مجید سے ازحد لگاؤ تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے دل و دماغ میں قرآنِ کریم اور دین اسلام کی عظمت و توقیر جزولاینفک بن کر رہ گئی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد مزید تعلیم کے لئے ایم اے او کالج اور اعلیٰ تعلیم کے لئے کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور بعدازاں یہیں سے بیرسٹری کی ڈگری بھی حاصل کی۔ آپ نے بھارت واپسی پر اپنے آبائی شہر میرٹھ میں وکالت شروع کی۔ اس زمانے برصغیر میں انگریزی استعمارسے آزادی حاصل کرنے کی لہر بیدار ہوچکی تھی۔
نواب محمد اسماعیل خان بھی خود کو زیادہ دیر تک سیاسی سرگرمیوں سے دور نہ رکھ سکے۔ اُنہوں نے 1917ء میں ہوم رول لیگ میں باقاعدہ شرکت کی۔ اسی دوران اسلامیانِ برصغیر کے نجات دہندہ‘ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ سے اولین رابطے اور جان پہچان بھی ہو گئی۔ تحریک پاکستان کی راہ ہموار کرنے والی تحریک خلافت میں مرکزی نام اگرچہ علی برادران کا ہے لیکن نواب محمد اسماعیل خان بھی ایک کلیدی کردار کی حیثیت رکھتے ہیں کہ وہ اپنی خداداد صلاحیتوں اور پرخلوص محنت کے باعث ’’آل انڈیا خلافت کمیٹی‘‘ کی مجلس عاملہ کے رکن اور یو پی خلافت کمیٹی کے صدر منتخب ہوگئے۔ علی برادران کی اسیری کے دوران نواب محمد اسماعیل خان خلافت کمیٹیوں کو کامیابی سے چلاتے رہے۔ تحریک خلافت کی مجلس خلافت نے لاہور میں دسمبر 1929ء میں ایک عظیم الشان جلوس آپ کی قیادت میں نکالا۔1925ء سے 1935ء تک ایک طرف بھارت میں موجود مسلمان سیاسی انتشار کا شکار تھے تو دوسری طرف نواب محمد اسماعیل خان کی شخصیت کے گرد کیا ہندو کیا مسلمان ایک ہالہ بنائے کھڑے تھے کہ آپ تحریک خلافت کے قائد‘ کانگریس کے رکن اور مسلم لیگ کے رکن بھی تھے اس پر مستزادیہ کہ ہندو اور مسلم جماعتوں کے راہنماؤں سے ذاتی تعلقات تھے۔ آپ کی سربراہی اور صدارت میں متعدد چھوٹی بڑی جماعتوں نے منظم ہونے کی کوشش کی جن میں سے آل مسلم پارٹیز کانفرنس آل انڈیا مسلم کانفرنس اور مسلم یونٹی بورڈ اہم ہیں۔
نواب محمد اسماعیل خان تحریک خلافت کے مسلمہ قائد تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ نیشنل کانگریس کے بھی رکن تھے۔ اُنہوں نے کانگریس اور ہندوؤں کے متعصبانہ رویے دیکھتے ہوئے متعدد مسلم جماعتوں کو متحد کرنے کی بھی کوشش کی لیکن نتیجہ صفر رہا اور بالآخر1926ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اٹھارویں سالانہ اجلاس(دہلی) میں انہوں نے بطور رکن صوبائی کمیٹی آل انڈیا مسلم لیگ شرکت کی۔ اسی طرح 30دسمبر 1927ء کے سالانہ اجلاس میں آل انڈیا مسلم کانفرنس کے صدر کی حیثیت سے جناح گروپ کے حق میں تقریر کی۔ آپ نے دسمبر 1928ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تیسویں سالانہ اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے ’’نہرو رپورٹ‘‘ کے مضمرات کے خلاف پیش ہونے والی قرارداد کی تائید کی۔ نواب محمد اسمٰعیل خان کو دسمبر 1930ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اکتیسویں سالانہ اجلاس کے دوسرے دن علامہ محمد اقبالؒ کی رخصت کے بعد صدارت کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ آپ ان تین معزز راہنماؤں میں بھی شامل تھے جنہیں آل انڈیا مسلم لیگ کے آئین کی نظرثانی اور ترمیم کا کام سونپا گیا تھا۔ 1937ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر قائداعظم محمد علی جناحؒ پہلی مرتبہ معروف ’’جناح کیپ‘‘ ’’پہن کر جلسہ گاہ پہنچے۔ یہ ’’جناح کیپ‘‘ دراصل نواب محمد اسمٰعیل نے پہن رکھی تھی۔ جلسہ گاہ پہنچنے سے قبل قائداعظمؒ نواب محمد اسماعیل کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ کیا وہ تھوڑی دیر کے لئے انہیں(قائداعظمؒ کو) دے سکتے ہیں؟ اس طرح نواب اسمٰعیل کی سیاہ سموری ٹوپی قائداعظم محمدعلی جناحؒ سے منسوب ہوکر ’’جناح کیپ‘‘ اور بعدازاں پاکستان کے قومی لباس کا حصہ بن گئی۔
آپ کے کئی ایک کارناموں میں سے ایک منفرد کام یوپی جیسے مسلم اقلیتی صوبے میں مسلم لیگ کی مضبوط تنظیم سازی ہے جس کا اعتراف لیگی قیادت کے علاوہ خاص طور قائداعظم محمد علی جناحؒ نے بھی کیا۔ یوپی میں مسلم لیگ کی شہرت کی وجہ نواب اسمٰعیل خان کا فن خطابت اور تحریک خلافت کے دوران قائم کی گئی خلافت کمیٹیاں تھیں۔ آپ یو پی مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے جہاں بھی جاتے اپنے خطبے میں پہلے اس شہر کی توصیف دل پذیر انداز میں بیان کرتے‘ پھر اپنے استقبال کے لئے آنے والے شہریوں کا عاجزانہ انداز میں شکریہ ادا کرتے‘ پھر حالات حاضرہ کا بیان‘ مسلم لیگی نقطۂ نظر سے بیان کرتے اور آخر میں مسلم لیگ کا پروگرام نقطہ بہ نقطہ تفصیل سے پیش کرتے۔ اگرچہ یہ مسلم لیگ کا جاری کردہ سرکاری پروگرام نہیں تھا بلکہ نواب صاحب نے خود تیار کیا تھا جس کی تبلیغ بھی خود ہی کرتے تھے۔ آپ نے مسلم لیگ کے ستائیسویں سالانہ اجلاس (قراردادِ لاہور) میں ببانگ دہل کہا کہ ’’میں تمام کانگرسیوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ مولانا ابوالکلام آزاد کی آواز مسلمانوں کی آواز نہیں ہے۔ مسلمانانِ ہند کی آواز وہ ہے جو جناح کی آواز ہے۔‘‘ انہیں کراچی میں منعقد ہونے والے مسلم لیگ کے سالانہ جلسہ(دسمبر 1943ء) میں ایک قرارداد کے ذریعے مجلس عمل کا چےئرمین منتخب کیا گیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت کے بعد سب سے بڑا اور اہم ترین عہدہ مجلس عمل کی صدر نشینی تھی جس پر آپ فائز ہوئے۔
غرض کہ نواب محمد اسمعٰیل خانؒ 1926ء سے 1950ء کو مسلم لیگ کے وفادار رکن رہے جیسا کہ وفا داری کا حق ہے۔ آپ مسلم لیگ کی پہلی ورکنگ کمیٹی کی مجلس عاملہ کے رکن منتخب ہوئے تو انتہائی فعال پسندی کا ثبوت دیا۔ تحریک پاکستان کا کوئی بھی مرحلہ ہوتا تو قائداعظم محمد علی جناحؒ کی مردم شناس نگاہ نواب محمد اسمٰعیل خانؒ پر ٹھہرتی۔ نواب صاحب نے بھی قائداعظمؒ کی ہر آواز پر لبیک کہا۔
آپ نے آزادی کے بعد بھارت میں رہنے کو ترجیح دی کہ آپ کے پیش نظر یہ امر تھا کہ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے رہیں گے۔ آپ نے اپنی اولاد کو پاکستان آنے کی اجازت دی۔جنہوں نے پاکستان کی سول سروس میں آکر وطن کی خدمت کی۔آپ نے 28جون 1958ء کو 75سال کی عمر میں ’’مصطفی کاسل‘‘ میرٹھ میں وفات پائی۔ آپ کی میت کو میرٹھ سے دہلی لایا گیا اور خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کی درگاہ میں اپنے بزرگوں کے پہلو میں دفن کیا گیا۔