اللہ کی مرضی

 اللہ کی مرضی
 اللہ کی مرضی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 یکم محرم دوپہر 3 بجے حسب معمول خیراتی اسپتال میں نادار مریضوں کا معائنہ کر رہا تھا۔ موبائل فون کی گھنٹی بجی۔کراچی سے بھانجے نے بھرائی ہوئی آواز میں بتایا۔چاچو حافظ ازمیر احمد کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے،میں نے پوچھا۔حادثہ کیسے ہوا؟
بچے نے بتایا۔رانگ سائیڈ سے آنے والے آئل ٹینکر نے موٹرسائیکل کو ٹکر مار دی،بچہ ٹینکر کے ٹائر کے نیچے آ گیا،عینی شاہدین کے مطابق ٹینکر کے ہیلپر نے ڈرائیور سے کہا۔استاد گاڑی لگ گئی ہے مگر بدبخت ڈرائیور نے آؤ دیکھو نہ تاؤ ٹینکر دوبارہ چلا دیا،بچہ ٹکر لگنے کی وجہ سے الٹا ہو گیا تھا، ابھی بچہ سنبھل کر اٹھنے ہی لگا تھا کہ ٹینکر نے بچے کی دائیں ٹانگ کو کچل دیا،سامنے موجود ایدھی ایمبولینس والوں نے بچے کو فوری طور پر جناح اسپتال کراچی شفٹ کردیا۔ڈرائیور کو پولیس اور رینجرز نے پکڑ کر تھانے میں بند کر دیا۔اسپتال پہنچنے پر مجھے اطلاع دی،میں نے کراچی میں موجود احباب سے بچے کے علاج میں کوئی کسر باقی نہ رہنے کی درخواست کی۔ڈاکٹروں کے بقول بچے کا بہت زیادہ خون ضائع ہو گیا تھا،لواحقین کو خون کا بندوبست کرنے کا کہا گیا،بچے کی تشویش ناک حالت کی وجہ سے وینٹی لیٹر پر منتقلی کا بھی کہہ دیا گیا۔وہاں موجود بچے کے چچا نے جناح اسپتال میں وینٹی لیٹر کے لئے بھاگم دوڑ شروع کر دی،کبھی ایک وارڈ تو کبھی دوسرا وارڈ، اسی دوران میری کزن نے کہا۔بچے کو کراچی کے کسی پرائیویٹ اسپتال میں لے کر چلے جاتے ہیں۔میں نے لیاقت نیشنل اسپتال کراچی میں کچھ دوستوں کو بھیجا مگر جناح اسپتال کے ڈاکٹروں نے بچے کی سیریس حالت کے پیش نظر کسی بھی دوسرے اسپتال میں شفٹ کرنے سے منع کر دیا،اسی تگ و دو میں 2 گھنٹے گزر گئے،میں ہر 10 منٹ کے بعد بچے بارے فون پر فون کر رہا تھا۔میرے کزن نے کہا۔بچے کا بچنا مشکل ہے۔آپ اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کر لیں۔یہ بات سن کر میرا دماغ چکرا سا گیا حالانکہ بطور ڈاکٹر انتہائی نگہداشت وراڈ میں کئی مریضوں نے میرے ہاتھوں میں دم توڑا لیکن 22 سال کے جوان بھانجے کا سن کر ذہن ماؤف سا ہو گیا اور پھر جب خون کی بوتلوں کا انتظام ہو گیا۔بچے کے والد نے ڈاکٹروں کو خون کی بوتلیں لگانے کا کہا۔ ڈاکٹروں نے کہا۔آپ کا بچہ اب اس دنیا میں نہیں رہا۔یہ دردناک خبر ہم سب پر بجلی بن کر گری،یقین نہیں آ رہا تھا،ماں باپ کا سہارا بننے والا ہنستا مسکراتا چہرہ اتنی جلدی داغ مفارقت دے جائے گا۔پچھلے دس سال سے علیل میری زوجہ محترمہ اور انکی امی جان کا اپنے نوجوان نواسے کی ناگہانی موت پر رو رو کر برا حال ہو گیا تھا،ان دونوں کی زندگی تو پہلے ہی غموں سے عبارت تھی۔زوجہ محترمہ کے چار بھائی پیدائش کے چند سالوں میں ہی فوت ہو گئے تھے اور میرے خسر بھی ہمارے بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے۔اس اندونہاک خبر کو سن کر ہر آنکھ اشکبار تھی۔ کراچی میں بچے کا آخری دیدار اس طرح کیا جا رہا تھا جیسے کسی شہید کا کیا جاتا ہے۔میرے کزن نے مجھے بتایا۔بچے کا جنازہ اتنا بڑا تھا،جہاں دیکھو حد نگاہ لوگوں کے سر ہی سر نظر آتے تھے۔


بچے کی تدفین آبائی علاقے تحصیل خیرپور ٹامیوالی ضلع بہاولپور میں ہونا تھی۔رات 10 بجے بچے کی میت کو ایمبولینس میں رکھ کر رخت سفر باندھ دیا گیا۔خاکسار بھی علی الصبح 3 بجے تیار ہو کر نماز فجر ادا کرنے کے بعد بمعہ فیملی روانہ ہو گیا۔
دن 12 بجے میت پہنچ گئی اور ہم بھی پہنچ گئے۔نماز عصر کے بعد شام 6 بجے جنازہ کا وقت رکھا گیا،ہم نے نماز جمعہ پڑھی،سخت گرمی اور حبس نے برا حال کر دیا تھا۔51 ڈگری تک ٹمپریچر محسوس ہو رہا تھا۔دن 3 بجے اچانک موسم بدل گیا۔تیز موسلا دھار بارش نے جل تھل کر دیا۔گرم موسم جس میں دم گھٹ رہا تھا خوشگوار ہو گیا۔ہلکی ہلکی بارش مسلسل ہورہی تھی۔ نماز عصر ادا کرنے کے بعد جنازہ کے لئے جنازہ گاہ روانہ ہوئے جہاں سینکڑوں افراد موجود تھے۔نماز پڑھنے کے بعد قبرستان پہنچے۔تابوت میں موجود میت کو قبر میں اتارنے سے پہلے چہرہ کے اوپر موجود پلاسٹک کور کو جب ہٹایا گیا۔میت کے اوپر چہرے کے بالکل قریب موجود میرے بہنوئی نے کہا۔24 گھنٹے بند تابوت کا کور ہٹنے کے بعد اتنی مسحور کن اور بھینی بھینی خوشبو آئی۔میں نے اپنی زندگی میں ایسی خوشبو پہلے کبھی نہیں سونگھی (ہاں ایک بار افغانستان سے ایک شہید کا جسد خاکی کئی دنوں کے بعد شہر میں پہنچا۔اس شہید کے جسم پر خون تروتازہ تھا اور پیاری پیاری خوشبو آ رہی تھی)
نانی جان جن کو فوت ہوئے کئی سال گزر چکے تھے۔نانی جی سے متصل ایک قبر کی کھدائی کے دوران نانی کی قبر کی کچی اینٹیں گر گئی۔وہاں پر کھڑے ماموں نے دیکھا۔نانی کا کفن ویسے کا ویسا سفید اور پاؤں بھی ویسے کے ویسے تھے جیسے ابھی دفن کیا گیا ہو،اسی طرح مجھے میری کلاس فیلو ڈاکٹر سمیرا نے بتایا،ان کی تہجد گزار والدہ سچی عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھی۔تدفین کے چھ سال بعد بارش کی وجہ سے انکی قبر بیٹھ گئی تھی،ان کی قبر کی مرمت کے لئے جب قبر کشائی کی گئی۔ان کا کفن اور جسم بھی ویسے کا ویسے تھا جیسے ابھی دفن کیا گیا ہو اور خوشبو ایسی جو پہلے نہ سونگھی گئی تھی۔


اسے کہتے ہیں،اللہ کا پروٹوکول!اللہ سوھنا اس دنیا میں بھی دکھا دیتا ہے۔
اللہ پاک حافظ قرآن و حادثاتی موت میں چلے جانے والے شہداء کو کیسے عزت سے نوازتا ہے۔ اس ناچیز نے اپنی دکھ بھری آنکھوں سے یہ سب منظر دیکھ لیا تھا۔بچے کو مٹی کے سپرد کرنے کے بعد تعزیت کرنے والوں کی زبان پر ایک ہی لفظ تھا۔بھائی جی!اللہ کی مرضی،اللہ کی رضا پر ہم راضی ہیں 
اسی کی دی ہوئی امانت تھی جو اسے لوٹا دی گئی کوئی شک نہیں۔ہم سب نے اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے لیکن انسان ہونے کے ناتے اولاد کے غم نے نبی آخر الزماں پیارے کریم مدنی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی غمزدہ کر دیا تھا۔آپ نے اپنے بیٹے شہزادہ حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات پر کہا تھا " ابراہیم بڑے غم دے کر جا رہے ہو "
اور اس دنیا سے پردہ پوشی فرماتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری وقت اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک، جگر کے ٹکڑوں حضرت حسنین کریمین رضی اللہ تعالٰی عنہ کو گلے سے لگا کر بہت روئے تھے۔
خاکسار بھی اپنے بھانجے کی پرانی تصاویر کو دیکھ کر غمزدہ ہو جاتا ہے تو بچے کے والد کی کیا حالت ہو گی؟اللہ صبر دینے والا ہے لیکن جوان اولاد کی جدائی کا غم ماں باپ کو جیتے جی مار دیتا ہے اور حادثے کے بعد اسپتال میں بروقت خون نہ ملنا، وینٹی لیٹر کی عدم دستیابی اور قاتل ڈرائیور کے خلاف قانونی کارروائی نہ ہونے کا نوحہ والدین، عزیزواقارب نجانے کب تک پڑھتے رہیں گے؟
ہم جیسے لکھاری بھی کیا کریں؟


جن کی تحریروں پر ایکشن لینے والے شاید ناپید ہو چکے ہیں؟
پیارے دیس میں ہر اسپتال میں بلڈ بنک تو بنے ہوئے ہیں مگر خون کی فوری فراہمی کا مسئلہ آج تک کوئی حل نہ کر سکا ہے۔ہمیشہ ایمرجنسی میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا مریض کے جاننے والے ہی آکر خون دیں گے تو خون مریض کو لگے گا۔اتنی دیر میں چاہے۔مریض اگلے جہاں سدھار جائے۔ہونا تو یہ چاہئیے تھا۔ایمرجنسی میں آئے مریض کے خون کا بلڈ گروپ و کراس میچ کے بعد فوری خون کی بوتل ادھار پر دے دی جائے تاکہ مریض کی جان بچائی جا سکے۔بلڈ بنک سے آئی اس خون کی بوتل کی واپسی مریض کے اٹینڈٹ سے کروا دی جائے اور سرکار کے اسپتالوں میں وینٹی لیٹر موجود نہ ہوں تو پرائیویٹ اسپتالوں کے وینٹی لیٹر پر مریضوں کو شفٹ کر کے مریض کی زندگی بچائی جائے۔صحت کارڈ کی طرح پرائیویٹ اسپتال میں مریضوں کے آئی سی یو وینٹی لیٹر چارجز حکومت ادا کرے۔اس میں کیا راکٹ سائنس ہے؟ بات تو نیت اور بروقت کام کرنے کی ہے۔بحیثیت قوم ہمارا ہر بات کو اللہ کے کھاتے میں ڈال کر اللہ کی مرضی کہنا میری سمجھ سے بالاتر ہے۔اس سے بھلا کون انکار کر رہا ہے۔اللہ کے اذن کے بغیر ایک پتا بھی نہیں ہل سکتا ہے۔اللہ سے ہونے اور مخلوق سے نہ ہونے کا کامل یقین ہے۔اس کے ساتھ ساتھ  اللہ نے قرآن مجید میں صاف صاف فرما دیا ہے۔
" جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے ساری انسانیت کی جان بچائی "
اب فیصلہ ہمارے اہل اقتدار نے کرنا ہے۔ہم نے بیرون ملک کے باسیوں کی طرح جان بچانی ہے یا اللہ کی مرضی کہہ کر جان چھڑانی ہے۔اب تو یہی دعا ہے
 خدا کرے!
ہم جان بچانے والے بن جائیں۔آمین

مزید :

رائے -کالم -