”آسودگی، بے ہودگی، آلودگی اور ہماری موجودگی“
آج کا انسان مادی لحاظ سے انتہائی آسودہ حال ہے۔ جدید آلات کی بدولت بڑے شہروں اور بڑے گھروں میں آسودگی ہی آسودگی نظر آتی ہے۔ آسودہ حال لوگوں کو ماضی فرسودہ لگتا ہے تو بعض شخصیات کو حال بے ہودہ لگتاہے اوربعض افراد یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا مستقبل آلودہ ہے۔ ہرکوئی اپنی اپنی سوچ رکھنے کا مکمل حق رکھتا ہے مگراس بات پر کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ زمین پرحضرت انسان کی موجودگی ایک انتہائی اہم واقعہ ہے۔ چند محققین کہتے ہیں کہ جب لوگ جدت پسندوں کی نظر میں فرسودہ تھے، تب بھی اکثریت کے دل ودماغ نہ اتنے آلودہ تھے اورنہ ہی طور طریقے اتنے بیہودہ تھے۔زیادہ پُرانی بات نہیں، جب ہمارے شہروں کا پانی اور ہمارے افراد کی جوانی صاف شفاف ہوتے تھے۔ ہماراپانی آب حیات تھا۔ ہمارے کردار کو ثبات تھا۔ شہر، شہر امن تھا۔ پورا ملک مہکتا چمن تھا۔ گئے دنوں میں ہمارے ہاں راوی بہتا تھا۔ ست رنگ کہانیاں کہتا تھا۔ آلودگی کا ذکر صبح و شام نہ تھا۔ بیاس بھی پیاس کا دوسرا نام نہ تھا۔اب بیاس خشک ہوچکا ہے۔ راوی نے بہناتو کیا کچھ کہنا بھی چھوڑ دیا ہے۔
ہمارا پانی آلودہ ہوچکا ہے۔ چند لوگوں کا چلن بہیودہ ہوچکا ہے۔ بے ہودگی آلودگی کو جنم دیتی ہے۔ ایک محقق کے بقول بے ہودگی بھی ایک طرح کی ذہنی آلودگی ہے۔ بے ہودگی اور آلودگی کا آپس میں گہرا رشتہ ہے۔ بے ہودگی کی وجہ سے آلودگی بڑھتی ہے اور آلودگی کی وجہ سے بے ہودگی بڑھتی ہے۔ ایک شاعر نے صحیح کہا تھا ”جو بات ناپسندیدہ ہوتی تھی اب وہی خوب ہوچکی ہے“۔ ذہن آلودہ ہوں توخیالات اوراعمال بے ہودہ ہوجاتے ہیں۔ بہت سے لوگ اس تگ و دو میں ہیں کہ ہمارے نوجوانوں کے ذہن آلودہ کردیں۔ ایک شاعر نے بالکل بجا کہا تھاکہ ”بعض اوقات کردار کا اتنا قحط پڑ جاتا ہے کہ لوگ اپنا پیٹ بھرنے کیلئے اپنے ہی ملک کے راز بیچنا شروع کر دیتے ہیں“۔ ہمارے دشمنوں کی بے ہودگی کی وجہ سے ہمارے ہاں بھی چند لوگوں کے ذہن آلودہ ہوچکے ہیں۔ جن لوگوں نے اپنا خون پسینا ایک کرکے یہ ملک بنایا وہ انہی کے بارے میں بے ہودہ خیالات رکھتے ہیں۔ جن لوگوں نے دن رات محنت کرکے یہ ملک بنایا اور جولوگ دن رات محنت کرکے یہ ملک بچا رہے ہیں۔ بعض لوگ انہی کے اخلاص پر سوال اُٹھاتے ہیں۔ اس سے بڑی بے ہودگی اور ذہنی آلودگی کاتصور تک بھی نہیں کیاجاسکتا۔ تاریخ کے ہردور میں چند لوگ محسن کش رہے ہیں۔ یہی لوگ ذہنی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔
یہی نہیں ہے کہ زبانیں ہوئی ہیں زہریلی
میں اُن کے ذہن کی آلودگی میں شامل ہوں
اللہ تعالیٰ اپنی آخری کتاب میں فرماتے ہیں کہ کائنات کی تخلیق انتہائی بامقصد عمل ہے۔ اس دنیا میں انسان کی ہرطرح کی تمام ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تمام ضروری اسباب مہیا کردیئے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی رہنمائی کیلئے اپنا دین بھی مکمل کر دیاہے۔ انسانوں کی ایک کثیر تعداد مگر ظالم اور جاہل ہے۔انسان نہ صرف اپنے گھر، زمین، کو تباہ کرنے پر تل جاتا ہے بلکہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو بھی بے رحمی سے قتل کرتا ہے۔ اُن کے ذہن آلودہ کرتا ہے۔ اسلام دینِ فطرت ہے۔ فطرت بے ہودگی اور آلودگی کو شدید ناپسند کرتی ہے۔ ذہنی آسودگی فطرت کے طریقوں پر چلنے میں ہے۔ فطرت کے مظاہر جابجا بکھرے پڑے ہیں۔ انسان کو دعوتِ فکر دیتے ہیں۔ ایک شاعر نے بالکل بجا کہا تھا کہ صبح صادق کا منظر اتنا خوبصورت ہوتا ہے کہ سلیم فطرت لوگ صرف اسی منظرکے طفیل ہر طرح کی بے ہودگی سے بچ سکتے ہیں۔ اسلام ہر طرح کی آلودگی کے خلاف ہے۔ درخت آلودگی کا بہترین علاج ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺ نے جنگ کے دوران بھی درخت کاٹنے سے منع کیا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ زندگی اور پانی کا رشتہ بہت گہرا ہے۔ پانی کا صدقہ بہترین صدقہ ہے۔ جو لوگ پانی کو آلودہ کرنے کاباعث بنتے ہیں، وہ انسانیت کے مجرم ہیں۔
فرقان کہتا ہے ”جس نے ایک انسان کو قتل کیا، اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا“۔ پانی کو آلودہ کرنا انسانیت کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ بہت سارے لوگ آلودہ پانی پینے کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اُن میں سے کئی اپنی جان سے جاتے ہیں۔ چند علماء کا خیال ہے کہ ”آلودگی پھیلانا فتنے پھیلانے کے مترادف ہے“۔ اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ فتنہ قتل سے بھی بدترین چیز ہے۔ آلودگی، لوگوں کی آسودگی کی بدترین قاتل ہے۔ جو لوگ آج آلودگی پھیلا رہے ہیں، وہ نہ صرف اپنے ہم عصر لوگوں کو بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی ایسی آسودگی سے محروم کررہے ہیں جس کا کوئی متبادل ہو ہی نہیں سکتا۔ ماحول کو صاف رکھنا اور آنے والی نسلوں کو بہترین فضا اور آب و ہوا مہیا کرنا ہر انسان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ سچی آسودگی اپنی ذمہ داریوں سے بطریق احسن عہدہ برا ہونے سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ اپنے فرائض ادا نہ کرنا بدترین بے ہودگی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بے ہودگی اور آلودگی سے محفوظ رکھے۔ روزِ محشر اللہ پاک ہمیں آسودگی عطا فرمائیں۔آمین۔
نہیں ہے شہر میں چہرہ کوئی تر و تازہ
عجب طرح کی آلودگی ہوا میں ہے
(کالم نگار نشترمیڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کاحصہ ہیں اور آج کل منیجنگ ڈائریکٹر، چولستان ترقیاتی ادارہ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں)