عجیب بادشاہ

    عجیب بادشاہ
    عجیب بادشاہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بعض لوگوں کے دنیا سے جانے کی خبر زندگی کی بے اعتباری کو مزید بڑھا دیتی ہے۔لاہور سے فاروق تسنیم کے انتقال کی خبر نے کچھ ایسی ہی کیفیت کو جنم دیا۔ ایک زندہ دِل، بے ریا اور راضی برضا رہنے والا شخص دوسروں کو زندگی کا سلیقہ سکھاتا ہے جب موت کے بے رحم ہاتھ اُس تک بھی پہنچ جاتے ہیں تو درد کی ٹیس کچھ زیادہ ہی اندر تک محسوس ہوتی ہے۔ فاروق تسنیم سے تقریباً روزانہ ہی فیس بک یا فون کے ذریعے ملاقات ہو جاتی تھی۔میں اِس بات پر حیران ہوتا تھا کہ یہ شخص لاہور بیٹھ کر ملتان میں اپنے دوستوں، جاننے والوں، محلے داروں حتیٰ کہ معمولی شناسائی رکھنے والوں کے بارے میں بھی کتنا باخبر اور متفکر رہتا ہے۔ اکثر فون آتا تو پوچھتا یار نسیم،  فلاں دوست کے بارے میں پتہ چلا ہے اُس کی طبیعت خراب ہے یا سنا ہے اُس کے حالات اچھے نہیں ہیں،ذرا پتہ تو کر کے بتانا تاکہ کوئی مدد ہو سکے تو کی جائے۔ فاروق تسنیم کی شخصیت کا یہ پہلو مجھے ہمیشہ حیران کر دیتا۔وگرنہ ہوتا یہی ہے کہ چھوٹے شہر سے بڑے شہر میں جانے والے بھول جاتے ہیں کہ ماضی میں کیا تھا، کون لوگ تھے،اُن سے ہمارا کیا تعلق تھا۔ فاروق تسنیم کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ جسمانی طور پر لاہور میں رہ رہا تھا مگر اُس کا دل و دماغ ملتان کے اثر سے نہیں نکلا تھا، بہت سے لوگ جانتے ہیں فاروق تسنیم کون تھا اور بہت سے نہیں جانتے ہوں گے کہ وہ کتنا بڑا انسان تھا، میرا چونکہ اُس سے نصف صدی سے بھی زیادہ کا تعلق ہے،اس لئے اُس کی موت نے میرے اندر کی اُن تمام یادوں کو کھرچ  کر باہر نکال دیا ہے جو اُس سے وابستہ ہیں۔جب میں 1974ء میں میٹرک کر کے فرسٹ ایئر میں گورنمنٹ ایمرسن کالج بوسن روڈ کا طالب علم تھا تو وہاں جن نوجوان طالب علم رہنماؤں کا ڈنکا بج رہا تھا،اُن میں فاروق تسنیم بھی شامل تھا وہ ہم سے پہلے وہاں داخل تھا اور کالج کی یونین میں اُس کا بڑا کردار تھا،اُس زمانے میں این ایس ایف اور اسلامی جمعیت طلباء دو بڑی جماعتیں تھیں۔ پی ایس ایف، اے ٹی آئی اور دیگر طلبہ تنظیمیں وجود میں نہیں آئی تھیں۔فاروق تسنیم اسلامی جمعیت طلبہ کا سرگرم رہنما تھا۔اُس کی عمر کم تھی مگر وہ بڑے بڑے رہنماؤں پر بھاری تھا۔پرنسپل اُسے اہمیت دیتے اور وہ جو بات منوانا چاہتا، اُسے مان لیتے۔ وہ فرسٹ ایئر سے لے کر بی اے تک گورنمنٹ ایمرسن کالج میں یونین کے مختلف عہدوں پر رہا۔ اُس کے بعد بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ اردو میں ایم اے کا طالب علم بن گیا۔وہ بَلا کا مقرر تھا۔ سب حیران ہوتے تھے وہ اتنی اچھی اور نپی تلی تقریر کیسے کر لیتا ہے۔اس بارے میں شعبہ اردو کے استاد ڈاکٹر نجیب جمال نے دلچسپ انکشاف کیا ہے۔ وہ بتاتے  ہیں شعبہ اردو میں ڈاکٹر اسلم ادیب فاروق تسنیم کے سینئر تھے۔انہوں نے فاروق تسنیم کے لئے تقریریں لکھنے کا ذمہ لیا ہوا تھا، جس کی نوک پلک ڈاکٹر نجیب جمال بھی درست کر لیتے تھے۔ڈاکٹر نجیب جمال بتاتے ہیں کہ فاروق تسنیم اتنا ذہین طالب علم تھا کہ کئی صفحات پر مشتمل تقریر کو پوری صحت کے ساتھ یاد کر لیتا تھا اور آئینے کے سامنے ریاض کرنے کے بعد بغیر کوئی کاغذ سامنے رکھے جب طلبہ سے خطاب کرتا تو ایک سحر طاری کر دیتا تھا۔

گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان سے شروع ہونے والی مقبولیت بہاء الدین زکریا یونیورسٹی میں بھی برقرار رہی۔ وہ یونیورسٹی کی طلبہ یونین کا بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہو گیا۔ اِن دِنوں طلبہ سیاست پر زوروں پر ہوتی تھی۔ ملک میں ضیاء الحق کا مارشل لاء آ چکا تھا۔ سیاسی جماعتیں اتنی فعال نہیں رہی تھیں البتہ طلبہ تنظیمیں ہلچل بپا کئے ہوئے تھیں۔ فاروق تسنیم یونیورسٹی سے اپنا سیشن مکمل کر کے فارغ ہو چکا تھا تاہم طلبہ سیاست میں اس کا نمایاں کردار اب بھی موجود تھا۔ یہی وہ دور تھا جب جنرل ضیاء الحق سے فاروق تسنیم کا خود جنرل صاحب کی خواہش پر رابطہ ہوا، فاروق تسنیم کو ملاقات کے لئے بلایا گیا۔اس نے اپنے دوستوں سے پوچھا کہ اسے جانا چاہئے،اُسے گرفتار تو نہیں کر لیا جائے گا، سب کا خیال تھا اُسے جانا چاہئے،گرفتار تو وہ جب چاہیں کہیں سے بھی کر سکتے ہیں۔وہ ضیاء الحق سے ملا تو انہوں نے کہا مجھے آپ جیسے نوجوانوں پر فخر ہے جو لیڈر شپ کی خوبیاں رکھتے ہیں تاہم آپ اب چونکہ تعلیم مکمل کر چکے ہیں اِس لئے بتائیں میں آپ کے لئے کیا کر سکتا ہوں۔ فاروق تسنیم کے ذہن میں کوئی بڑے بڑے خواب نہیں تھے۔وہ یہ بھول گیا کہ ایک بادشاہ کے سامنے کھڑا ہے، جو پاکستان کا مالک و مختار ہے۔اُس نے بادشاہ کی بساط کو سامنے رکھ کر مانگنے کی بجائے اپنی سادگی کو سامنے رکھتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا اُسے کسٹم میں انسپکٹر بنا دیا جائے۔یہ تو معلوم نہیں اُس وقت یہ سن کر ضیاء الحق کی کیا کیفیت ہو گی تاہم اُنہوں نے فوری طور پر فاروق تسنیم کی بطور انسپکٹر کسٹم تقرری کا حکم جاری کر دیا۔اِس مرحلے پر فاروق تسنیم کی طلبہ سیاست ختم ہو گئی اور دوسری طرف ضیاء الحق کو بھی ایک بڑا ریلیف مل گیا کہ جاوید ہاشمی کے بعد فاروق تسنیم بھی طلبہ سیاست کو خیر باد کہہ گئے۔

اس کے بعد فاروق تسنیم نے نوجوانوں میں شعور کی بیداری اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی تحریک شروع کی۔اُس کی شخصیت اتنی مقناطیسی تھی کہ محکمہ کسٹم کے بڑے افسر بھی اس سے رہنمائی لیتے تھے۔اُس کی سب سے بڑی خوبی اخلاص تھی، وہ دوستوں اور اپنے اردگرد رہنے والوں کی بھلائی اور خدمت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا۔اُس نے سچ کہنے اور سچ بولنے کی اپنی روش ساری زندگی برقرار رکھی۔اِس حوالے سے کسی نقصان کی پروا نہیں کی۔ جب اُس کا تبادلہ کسٹم ہاؤس لاہور میں ہوا تو اُس نے بھاری دِل کے ساتھ ملتان کو خیر باد کہا، پھر ایک دن آیا کہ وہ محکمے سے ریٹائر ہو گیا مگر اُس وقت تک وہ لاہور کے ادبی، سماجی اور دانشوروں کے حلقے میں اپنا نقش جما چکا تھا۔اُس نے سٹیزن فورم انٹرنیشنل کی بنیاد رکھی،جس کا وہ آخری سانس تک چیئرمین رہا۔اس فورم کے تحت اُس نے فکر انگیز اور حساس موضوعات پر سیمینار اور مذاکرے کرائے۔ وہ بڑے بڑے مفکرین و دانشوروں کو اس فورم میں مدعو کرتا ہے۔ ملک کو درپیش مسائل کا حل ڈھونڈنے کی کوشش میں اس فورم کے ذریعے رہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔ فاروق تسنیم ایک ایسے محکمہ میں برسوں ملازم رہا جہاں رہ کر لوگوں نے اربوں روپے بنائے مگر وہ جیسا درویش پہلے تھا، ریٹائرمنٹ کے وقت بھی ویسا ہی رہا۔ ایک سادہ، تصنع سے پاک اور سچی زندگی گزارتا رہا۔ اُس کی شخصیت میں کوئی تضاد نہیں تھا، وہ جیسا تھا ویسا ہی نظر بھی آتا تھا۔وہ دوستوں کو جوڑتا تھا، محفلیں سجانا اُس کا شوق تھا، صرف اس لئے کہ وہ سماجی رابطوں پر یقین رکھتا تھا۔ ملتان آخر دم تک اُس کے اندر زندہ شہر کی صورت موجود رہا۔وہ ملتان سے لاہور آ کر بسنے والوں کو چُن چُن کر اکٹھا کرتا اور پھر اُن سے جی بھر کے ملتان کے ماضی و حال کی باتیں کرتا۔ فاروق تسنیم واقعی ایک عجیب بادشاہ تھا، جس کے دونوں ہاتھ بظاہر خالی ہوتے ہیں مگر جس کی شخصیت میں دنیا کے سارے خزانے موجود ہوتے ہیں۔ فاروق تسنیم ملتان کی مٹی میں جا سویا ہے، کیونکہ یہ مٹی اُس کی روح کو آسودہ رکھے گی۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -