”مجھے کیوں مارا؟“ بے زبانوں کا سوال
انسان روزِ ازل سے اپنا پیٹ بھرنے،جسم ڈھانپنے، بال بچوں کی زندگیاں محفوظ بنانے کے لئے جنگلی جانوروں کا شکار کرتا چلا آرہا ہے لیکن آج 21 ویں صدی میں بھی انسان اپنے ارد گرد کی زمین پر قبضے کے لئے بے زبان جانوروں کو بڑی بیدردی سے ہلاک کئے جا رہا ہے۔ انسان کی ”زمین کی بھوک“ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ جنگل کٹ رہے ہیں اور حیوان، چرند، پرند سب ”انسانی بھوک“ کا نشانہ بن رہے ہیں۔ جنگلوں کی بے تحاشا کٹائی سے چرند، پرند کی بیشمار اقسام کے ناپید ہونے کا خطرہ لاحق بھی ہے اور متعدد نایاب ہو بھی چکی ہیں،دور کیوں جائیں ابھی بمشکل 10 سال کی بات ہے کہ صحافی کالونی ہربنس پورہ میں اپنے نئے گھر میں منتقل ہوا تو کالونی کی سڑکوں پر ”سیہہ“ کا کوئی نہ کوئی خاندان رات کے وقت مٹر گشت کرتا نظر آتا تھا اور وہ ایک نہیں،بلکہ کئی خاندان تھے جو مختلف خالی پلاٹوں میں رہ رہے تھے، اس کے علاوہ لومڑی جیسے کچھ جانور بھی اکثر چہل قدمی کرتے، نیولے، سانپ اور اس جیسی رینگنے والی کچھ اور مخلوق بھی موجود تھی، لیکن آج صرف 10 سال میں ان سب میں سے شاید کوئی بھی باقی نہیں رہا۔
خیر یہ تو لاہور شہر کے مضافات کی کہانی ہے، پاکستان کے جنگلات میں بھی آج کے جدید دور میں جنگلی حیات کا بیدردی سے خاتمہ کیا جا رہا ہے، آج صورتحال یہ ہے کہ کالا ریچھ، تیندوا، مارخور، لومڑی، آئی بیکس، برفانی چیتا، براؤن ریچھ، ہرن، بندر، گیدڑ سمیت بے شمار جانور اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ان کی تعداد تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے، ان کو بچانے کی کوششیں کی جاتی ہیں لیکن ”زمین کا بھوکا“ انسان اپنے گھر کے قریب کسی جانور کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ انسانی آبادیاں پھیلتی جا رہی ہیں، جنگل ختم ہورہے ہیں اور جنگلی حیات کا خاتمہ بھی ہورہا ہے، لیکن ہم ”بے زبانوں“ کو بچانے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ خوف کا عالم یہ ہے کہ کوئی تیندوا نظر آجائے تو اس کو فوراً شکار کرلیا جاتا ہے، ریچھ اپنی چربی اور مہنگے داموں بکنے والی کھال کے باعث بیدردی سے شکار ہورہا ہے، بھورا ریچھ اب دیوسائی نیشنل پارک میں 100 سے بھی کم باقی رہ گئے ہیں، برفانی چیتا بھی اب بہت کم نظر آتا ہے، ”مارخور“ کو بچانے کے لئے کافی کوششیں جاری ہیں، لیکن کیا یہ جانور بچائے جاسکیں گے۔
میڈیا میں تیندوں کے مارے جانے کی خبریں معمول کا حصہ ہیں۔ قانون ہے کہ ایک تیندوا مارنے پر تین سال قید اور 2 لاکھ جرمانے کی سزا ہے، لیکن یہ سزا کب اور کس کو ملے گی اس کا شدت سے انتظار ہے۔ تیندوے کو مارنے والے سزا سے بچنے کے لئے جواز پیش کرتے ہیں کہ اس نے ہماری دو بکریاں یا ایک گائے کھا لی تھی۔ گزشتہ دِنوں خیبر کی وادی تیراہ میں دیہاتیوں نے دو کم عمر نایاب تیندوے غار کے اندر گھیر کر مار دیئے، ان تیندووں کے بارے میں ڈپٹی فاریسٹ آفیسر کا کہنا تھا کہ یہ کم عمر تیندوے اس قابل نہیں تھے کہ شکار کے لئے بکریوں یا گایوں پر حملہ کرتے، انہوں نے کہا کہ تیندووں کے مارے جانے سے علاقے میں ”سورؤں“ کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے، شاید ہمیں اب ”سور“ ہی پسند آتے ہیں۔
سندھ کے ضلع تھر پارکر کی تحصیل اسلام کوٹ میں ایک تیندوے کو دیہاتیوں نے مار ڈالا۔ علاقے کے جنگلی حیات کے متعلقہ افسر کے مطابق تیندوے کے نظر آنے کی اطلاع پر وہ علاقے میں گئے اور تیندوے کو قریب سے دیکھا اور دیہاتیوں سے کہا کہ یہ نقصان نہیں پہنچائے گا۔ ہمارے پاس اسے بے ہوشی کی ”دوا کی سرنج پھینکنے والی گن“ نہیں ہے۔ کراچی سے منگوا رہے ہیں، ہم اسے بیہوش کر کے لے جائیں گے، لیکن کراچی سے گن آنے تک دیہاتیوں نے اسے مار ڈالا، وہ گن اگر متعلقہ افسر کے پاس موجود ہوتی تو تیندوے کو پکڑ کر کیرتھر نیشنل پارک منتقل کر دیا جاتا لیکن دیہاتیوں کو کون سمجھائے اس ملک میں تو پڑھے لکھوں کو سمجھانا مشکل ہے۔ انہی دیہاتیوں نے تقریباً ڈیڑھ سال پہلے بھی اسی طرح ایک تیندوے کو مار دیا تھا، ان دونوں تیندووں کے بارے دیہاتیوں کا یہ کہنا تھا کہ یہ بھارت کی سرحد پار کر کے آ گئے تھے، یعنی ہم نے انہیں ”بھارتی“ سمجھ کے مارا ہے۔ تیندوا خرگوش، گلہری اور دوسرے چھوٹے جانور شکار کرتا ہے، بہت زیادہ بھوک لگی ہو تو بڑے جانور بھی تلاش کرتا ہے۔ ہم نے تیندوے کے شکار پر سزا تو مقرر کی ہے، مگر پاکستان کے جن علاقوں میں یہ جانور پائے جاتے ہیں وہاں وائلڈ لائف کے عملے کو جانوروں کو زندہ پکڑنے کے لئے بیہوش کرنے والی گن بھی مہیا نہیں کرتے اور پھر ہم کہتے ہیں کہ سزا ملے گی جو مارے گا۔
اسلام آباد کے خوبصورت مارگلہ نیشنل پارک میں تیندوے موجود ہیں۔ ایسا ہی ایک تیندوا ایک دن جنگل سے نکل کے جی ٹی روڈ پر آ گیا اور سنگ جانی کے قریب ٹرک اور کار کی ٹکر سے ہلاک ہو گیا لیکن کمال یہ ہے کہ جب وائلڈ لائف والے پہنچے تو اس کی لاش غائب کردی گئی تھی۔گلگت بلتستان کے بلندوبالا پہاڑوں میں دیوسائی کی خوبصورت وادی میں پایا جانے والا بھورا ریچھ ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ اس صدی کے شروع میں ان ریچھوں کی تعداد صرف 17 رہ گئی تھی جو ایک محتاط اندازے کے مطابق اب 80 سے 100 کے درمیان ہے۔
ایسے حالات میں جب ہمارے ہاں ان نایاب جانوروں کو بیدردی سے مارا جا رہا ہے وہیں کچھ ان سے محبت کرنے والے بھی ہیں۔ گلگت میں محکمہ وائلڈ لائف کے ملازم کمال الدین نے بھوک سے نڈھال قریب المرگ برفانی چیتے کے بچے کی جان بچائی، اسے سوا سال تک اپنے ساتھ رکھا اور وہ برفانی چیتا کمال الدین کے ساتھ سو جاتا تھا، کمال الدین نے اسے ”لیو“ کا نام دیا، مگر پھر امریکیوں کو ”لیو“ کا پتہ چلا اور انہوں نے اسے جنرل پرویز مشرف سے اسی طرح مانگ لیا جس طرح ”پاکستانی“ مانگے اور دئیے جاتے رہے۔ جنرل پرویز مشرف نے جیسے پاکستانی حوالے کئے ویسے ہی اس برفانی چیتے کو ”پانچ سالہ معاہدے“ کے تحت امریکہ بھیج دیا تاکہ اس کی افزائش نسل ہو لیکن ”لیو“ کہاں گیا؟ شاید ہم صرف دینے پر یقین رکھتے ہیں، واپس لینے کا حوصلہ یا واپس مانگنے کا حوصلہ ہم میں نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے ہمارے بچپن میں مداری کالا ریچھ لے کر شہر شہر پھرتے تھے اور ریچھ کا تماشا دکھاتے تھے۔ بڑے زمیندار اور جاگیردار ان کالے ریچھوں کا اپنے بھوکے کتوں سے مقابلہ کروایا کرتے تھے، جس میں ریچھ اپنی جان بچانے کے لئے ان کتوں سے لڑتے، زخمی ہوتے اور مرتے بھی تھے۔ مداری کے ریچھ تماشے اور ”ریچھ کتے کی لڑائی“ کے کھیل پر اب پابندی ہے لیکن پاکستان میں قانون توڑنا بھی کھیل ہے،یقینا اب بھی کہیں نہ کہیں بلند و بالا چار دیواریوں کے اندر طاقتور اشرافیہ اور جاگیردار کالے ریچھ اور بھوکے کتے کا مقابلہ کر کے تماشا دیکھتے ہوں گے اور شاید انہی تماشوں نے ہمیں اقوام عالم میں تماشا بنا چھوڑا ہے۔