عزمِ استحکامِ پاکستان 

 عزمِ استحکامِ پاکستان 
 عزمِ استحکامِ پاکستان 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں نیشنل ایکشن پلان اپیکس کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں عزمِ استحکام آپریشن کی منظوری دے دی گئی۔ اس اجلاس میں خارجہ دفاع، داخلہ، قانون اور اطلاعات کے وفاقی وزراء آرمی چیف سمیت تینوں مسلح فورسز کے سربراہان، تمام صوبوں اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ چاروں چیف سیکرٹریز، آئی جیز اور دیگر اعلیٰ عسکری اور سول حکام نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف نے فرمایا کہ امن کے بغیر معاشی ترقی، سرمایہ کاری ناممکن ہے جب تک ہم دہشت گردی پر قابو نہیں پائیں گے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آئے دن ہمارے بہادر نڈر فوجی بھائیوں کی شہادتیں ہورہی ہیں۔ یہ دہشت گرد کہاں سے آرہے ہیں یہ کون لوگ ہیں جو دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں۔ ہمارے عوام بھی اس انتہاپسندی کے خلاف آپریشن چاہتے ہیں۔ ایسے چھپے دشمنوں کا قلع قمع ہونا ہی چاہیے، اسی وجہ سے اس اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی نے ملک بھر میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف عزمِ استحکام آپریشن لانچ کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ 

ہمارے اپنے فوجی بھائیوں کے ساتھ ساتھ ہمارے چینی بھائی کئی بار گوادر کے راستے میں اس دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں۔ پاکستانی قوم جانتی ہے کہ یہ دہشت گردی کون کروا رہا ہے اور کون پاکستان کی بقاء اور ترقی کے راستے میں حائل رہا ہے، ایسے ملک دشمن عناصر کو جب تک مکمل طور پر قابو نہیں کیا جائے گا کوئی بھی ملک پاکستان میں سرمایہ کاری اور عملی طور پر کام کرنے یہاں نہیں آئے گا۔ پاک چین مشاورتی اجلاس میں بھی سی پیک پر تمام سیاسی جماعتیں متحد نظر آئی ہیں جو کہ پاکستان کی ترقی کے لیے سنگ میل ثابت ہوگا۔ سی پیک منصوبہ چین اور پاکستان کے مستقبل کے لیے ترقی کا ضامن ہے۔ یہ منصوبہ پاکستانی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور ہمیں مل کر اس پر کام کرنا ہے۔ اندرونی ڈر اور خوف کی کیفیات میں یہ ممکن نہیں کہ ہم اس منصوبے کو جلد تکمیل تک پہنچا سکیں، اس کے لیے ہمیں ہر صورت سیکیورٹی پلان پر عمل کرنا ہی ہوگا۔ کیونکہ ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ غیرملکیوں خصوصاً چینی شہریوں کی حفاظت کی جائے تاکہ وہ اپنا کام پاکستان میں خوش اسلوبی سے سرانجام دے سکیں۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ پوری قوم نے مل کر ہی دہشت گردی کو کچلنا ہے۔ جرائم، منشیات، اسمگلنگ، انتہاپسندی اور مذہبی منافرت سب کا تعلق دہشت گردی ہی سے ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے ہماری مسلح افواج کی قربانیاں بے مثال ہیں۔ ملک کی پائیدار ترقی اور استحکام کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے ملک میں مکمل سکون اور اطمینان ہو اور غیرملکیوں کو مکمل طور پر سیکیورٹی بھی میسر ہو۔ 

پاکستان کو بنے 76سال گزرچکے ہیں ابھی بھی ہمارے ملک کو کئی مسائل کا سامنا ہے ہم آج بھی تجربات سے گزر رہے ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب قانون کی بالادستی تھی لوگ رشوت لیتے اور لوٹ مار کرتے ہوئے ڈرتے تھے۔ ٹریفک کا نظام نہایت منظم تھا۔ لوگوں میں قانون کی خلاف ورزی کرنے کی جرأت نہ تھی، لوگ جھوٹ نہیں بولتے تھے ناپ تول کا نظام درست تھا۔ ہمارے ملک کے  عوام اور حکومت میں وہ سب خوبیاں موجود تھیں جو ایک ترقی یافتہ قوم میں ہوتی ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ پاکستان اور اس کے عوام کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ملک ترقی کی راہ پر گامزن تھا۔ ملک میں انڈسٹریز کا جال بچھایا جارہا تھا۔ لوگ خوشحال تھے بہترین نظام تھا شاگرد اپنے استاد کا بے حد احترام کرتے تھے پھر نجانے کہاں سے ایک بڑا ہوا کا جھونکا آیا اور سب کچھ بہا کر لے گیا۔ سب کچھ درہم برہم ہوگیا۔ آج ہمارے ملک میں سیاسی جماعتیں تو بہت ہیں مگر ایک دوسرے کے ساتھ وفادار نہیں ہیں۔ دوسرے ممالک کو پھلتے پھولتے دیکھتے ہیں باتیں بھی ہوتی ہیں مگر پاکستان کے لیے ایسی کوئی قانون سازی نہیں ہوتی جس میں عوام کی بھلائی نظر آتی ہو۔ 

ہر حکمران پارٹی کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ عتاب میں آئی مخالف پارٹی کو خوب رگڑا لگتا رہے۔ ان پارٹیز کی یہ باتیں اگر کسی کے لیے مسائل پیدا کرتی ہیں تو وہ صرف عوام کے لیے ہی ہیں، ان سیاست دانوں نے حالات کو اس قدر بگاڑ دیا ہے کہ درست کرنا ممکن نہیں رہا انہی سیاستدانوں نے ہی قرض لے لے کر ملک کو اس حالت پر پہنچا دیا ہے۔ پارٹیز کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اس مہنگائی کے دور میں اُن کے ملک کے عوام کس قدر ذہنی انتشار کا شکار ہوچکے ہیں گیس، بجلی، پانی کے بلوں نے انہیں معاشی طور پر بدحالی کا شکار کررکھا ہے، سفید پوش سب سے زیادہ پریشانی اور اذیت میں ہے۔ 

ان مشکلات سے نبردآزما ہونے کے لیے ماں باپ اپنے بچوں کو ملک سے باہر بھیجنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ دوسری طرف ایک ہجوم ہے جو ان تمام مراعات سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور موج میں ہے۔ ہمیں اگر ملک کے استحکام کا سوچنا ہے تو عوام کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا، استحکامِ پاکستان تب ہی ہوسکتا ہے کہ جب آپ بجائے ایک دوسرے کے ساتھ بدلے میں بلکہ ذاتی دشمنیوں کو بالائے طاق رکھ کر ملک کا سوچیں اور صرف استحکامِ پاکستان کے لیے آپس کی مخالفت اور منافقت کو ختم کریں اور تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر چلا جائے۔ 

تبھی پاکستان ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے دوسری پارٹیوں کو مذاکرات کی دعوت دے کر بہت بڑا کام کیا ہے۔ مزید کچھ خوشدلی کے فیصلے ہوجائیں تو حالات آپ کی وجہ سے ہی اچھے ہوسکتے ہیں کیونکہ ہم سب صرف اور صرف مسلمان ہیں۔ کوئی اور قوم ہمارے درمیان نہیں چند منٹ کے لیے 1947 سے پہلے کا دور سوچ لیں تو شاید کچھ اچھا محسوس ہونے لگے۔ 

مزید :

رائے -کالم -