تیسرے ملتانی مخدوم کا مخمصہ

   تیسرے ملتانی مخدوم کا مخمصہ
   تیسرے ملتانی مخدوم کا مخمصہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ملتان کے تین مخدومین میں سے آج صرف ایک مخدوم، سید یوسف رضا گیلانی اقتدار میں ہیں۔ ایک مخدوم شاہ محمود قریشی جیل میں اسیر ہیں اور دوسرے مخدوم جاوید ہاشمی موجودہ سیاسی ماحول میں مس فٹ ہونے کی وجہ سے صرف سوشل میڈیا پر وی لاگ بنا کر اپنا غصہ نکالتے رہتے ہیں۔ سید یوسف رضا گیلانی کے چاروں بیٹے بھی ارکان اسمبلی ہیں اور یوں اس گیلانی خاندان نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہوئی ہے۔ بظاہر یہ ایک بڑے اقتدار کی شکل ہے، مگر برا ہو پیپلزپارٹی کے اُس فیصلے کا کہ حکومت کی حمایت تو کرنی ہے،حکومت میں شامل نہیں ہونا، وزارتیں نہیں لینی۔ اب یہ ایسا فیصلہ ہے کہ جس پر خود پیپلزپارٹی کے اندر اضطراب ہے،پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کے پنجاب میں کام نہیں ہو رہے اور وہ اپنے ووٹروں کے سامنے ہر روز شرمندہ ہوتے ہیں، دو روز پہلے گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان نے لاہور میں صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کی اور یہ صورتحال سامنے رکھی،لیکن سب جانتے ہیں کہ اس نظام میں سب کے ہاتھ بندھے ہیں بس اتنا کچھ ہی ہو سکتا ہے، جتنے کی اجازت دی گئی ہے، آصف علی زرداری نے اور تو کچھ نہیں کیا، البتہ یہ کہہ دیا کہ پنجاب میں جلد بلدیاتی انتخابات ہونے چاہئیں،پیپلزپارٹی اُن میں بھرپور حصہ لے گی، اب ایسی حالت میں ملتان کے گیلانی خاندان کی اضطراری کیفیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، جو پورے ملتان کی نمائندگی سینٹ کی چیئرمین شپ لینے کے  باوجود پنجاب کی انتظامیہ سے لوگوں کا چھوٹا موٹا کام بھی نہیں کرا سکتا۔ میری اطلاع تو یہ ہے صوبائی محکموں کے افسروں کو باقاعدہ یہ پالیسی دی گئی ہے وہ گیلانی خاندان کے کہنے پر کسی کو غیر معمولی رعایت نہ دیں۔ایک طرف یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف سید یوسف رضا گیلانی ایک خاص واقعہ کے بعد خود کو بے بس اور بے اختیار سمجھ رہے ہیں۔آپ کو یاد ہو گا سید یوسف رضا گیلانی نے بطور چیئرمین سینیٹ لاہور سے تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور سینیٹر اعجاز چودھری کے پروڈکشن آرڈر جاری کئے تھے یہ آرڈر کوٹ لکھپت جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو موصول بھی ہو گئے تھے۔امید تھی کہ ایک طویل عرصے بعد اعجاز چودھری سینٹ اجلاس میں شریک ہوں گے اور اپنے دھواں دار خطاب سے سینٹ کے در و دیوار کو گرمائیں گے،جس دن اجلاس میں اُن کی شرکت متوقع تھی،اس دن تحریک انصاف کے سینیٹرز نے اُن کے بھرپور استقبال کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔اجلاس شروع ہو گیا، سید یوسف رضا گیلانی چیئرمین کی مسند پر بیٹھے انتظار کرتے رہے کہ اُن کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اعجاز چودھری کو ایوان میں لایا جائے گا، مگر شام ہو گئی، چیئرمین سینٹ کے حکم پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔اب ہونا تو یہ چاہئے تھا وہ کوٹ لکھپت جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو ہونے کا حکم دیتے۔ کسی بڑی کارروائی کا فیصلہ کرتے، مگر اس کے برعکس انہوں نے درویشی اور پیروں فقیروں جیسے راستے کا انتخاب کیا جس میں دوسرے کو کچھ نہیں کہا جاتا، خود پر نزلہ گرایا جاتا ہے۔ انہوں نے احتجاجاً سینٹ اجلاس کی سربراہی کرنے سے انکار کر دیا اور اُس وقت تک یہ بائیکاٹ جاری رکھنے کا اعلان کیا،جب تک اُن کے پروڈکشن آرڈر پر عملدرآمد کر کے اعجاز چودھری کو اجلاس میں نہیں لایا جاتا، سینٹ کا سیشن ختم ہو گیا،مگر گیلانی صاحب کے حکم پر عملدرآمد نہ ہوا۔پیپلزپارٹی نے اِس معاملے میں اُن کا ساتھ دینے کی بجائے، چُپ سادھ رکھی ہے۔اگر پیپلزپارٹی کے سینیٹرز بھی اعجاز چودھری کو نہ لانے پر اجلاس کا بائیکاٹ کر دیتے تو شاید بات بن جاتی۔

یاد رہے کہ یہ وہی سید یوسف رضا گیلانی ہیں جنہوں نے اپنے وزارتِ عظمیٰ کے دور میں سپریم کورٹ کے حکم پر آصف علی زرداری کے خلاف سوئس عدالت کو خط لکھنے سے انکار کر دیا تھا اور اُس کی پاداش میں انہیں وزارتِ عظمیٰ سے محروم ہونا پڑا تھا۔اب معاملہ اُن کے حکم پر عملدرآمد نہ کرنے کا ہے، مگر نجانے وہ کیا مجبوریاں یا مصلحتیں ہیں جن کی وجہ سے ملتانی مخدوم کوئی سخت قدم اٹھانے سے گریزاں ہیں۔سوال یہ ہے وہ سینٹ اجلاس کی صدارت نہ کر کے کسے کیا پیغام دے رہے ہیں۔خود اُن کی پارٹی اس معاملے میں اُن کے ساتھ نہیں کھڑی،نہ ہی انہوں نے اس معاملے پر صدر آصف علی زرداری یا بلاول بھٹو سے کوئی ملاقات کی۔شاید وہ جانتے ہیں جن کے حکم پر اعجاز چودھری کو پیش نہیں کیا جا رہا،اُن کے حوالے سے سب کے پَر جلتے ہیں، لگتا ہے سید یوسف رضا گیلانی نے صرف اپنی سیاسی لاکھ بچانے کے لئے ایسا کیا ہے۔انہیں اعجاز چودھری کے سینٹ میں آنے سے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں، البتہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ انہوں نے حالات کا جائزہ لئے بغیر اعجاز چودھری کے پروڈکشن آرڈر کیسے جاری کر دیئے۔ اعجاز چودھری تحریک انصاف کے اُن رہنماؤں میں شامل ہیں، جنہوں نے ہر قسم کی سختی کے باوجود ٹوٹنے سے انکار کیا ہوا ہے۔وہ ایک اچھے مقرر بھی ہیں اور سینٹ اجلاس میں آ گئے تو ایک سخت اور دھواں دھار تقریر بھی کر سکتے ہیں جو موجودہ حالات میں قابل ِ قبول نہیں ہے۔ملتانی مخدوم گویا جلد بازی یا پھر سیاسی غلط فہمی کے باعث ایک بڑا آرڈر دے کر ہنی ٹریپ ہو گئے۔اب ایک طرف اُن کی سیاسی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے اور وہ چاہتے ہیں تاریخ میں ان کا نام اسی وزیراعظم کے طور پر رہے جس نے استعفیٰ دے دیا تھا،مگر اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے تھے۔اگر اُن کا نام اس واقعہ کے حوالے سے آتا ہے کہ وہ ایک کمزور  چیئرمین سینٹ تھے جو اپنے حکم پر عملدرآمد بھی نہیں کرا سکے تو یہ اُن کے لئے ایک بڑے  سیاسی خسارے کی بات ہو گی۔

اب غالباً اس پر سوچ بچار ہو رہی ہے کہ ملتان کے اس بڑے مخدوم کو اس صورتحال سے کیسے ریسکیو کیا جائے۔ سنا ہے حکومت اِس حوالے سے پیپلزپارٹی کی قیادت کو اعتماد میں لینا چاہتی ہے نکتہ یہ نکالا جا رہا ہے سید یوسف رضا گیلانی  نے جس سیشن کے لئے پروڈکیشن آرڈر جاری کیا تھا، وہ ختم ہو چکا ہے۔ شاید وہ یقین دہانی بھی کرائی جائے کہ آئندہ اجلاس میں اگر وہ پروڈکشن آرڈر جاری کریں گے تو عمل کیا جائے گا تاہم یہ بھی ہو سکتا ہے سید یوسف رضا گیلانی اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ مطالبہ بھی رکھ دیں کہ ملتان ڈویژن کے انتظامی عہدوں پر تقرری و تعیناتی کے مرحلے پر گیلانی خاندان سے مشورہ کیا جائے۔یہ بہت بڑا دُکھ ہے، جو پچھلے ایک سال سے گیلانی ہاؤس کے حلقوں میں محسوس کیا جا رہا ہے،کیونکہ صوبائی محکموں خصوصاً انتظامی اور پولیس افسروں کی تعیناتی میں وزیراعلیٰ مریم نواز نے ہر قسم کی مداخلت کو ختم کر دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں اُن کی گرفت مضبوط نظر آ رہی ہے۔ایسے میں پیپلزپارٹی جتنا مرضی شور مچاتی رہے۔ جب تک باقاعدہ طور پر حکومتوں میں شامل نہیں ہو گی اُسے اقتدار میں کوئی حصہ نہیں ملے گا۔یہ بات بھی ابھی حل طلب ہے کہ پیپلزپارٹی خود پنجاب اور مرکزی حکومت میں شامل نہیں ہو ر ہی یا اُسے شامل ہونے کے لئے گرین سگنل نہیں مل رہا۔ بہرحال سید یوسف رضا گیلانی کے پروڈکشن آرڈر پر عمل نہ ہونے کے اس معاملے سے ”ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ“ کی حقیقت مزید واضح ہو گئی ہے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -