تہلکہ خیز ناول جوآپ کی زندگی بدل سکتا ہے، سولہویں قسط

تہلکہ خیز ناول جوآپ کی زندگی بدل سکتا ہے، سولہویں قسط
تہلکہ خیز ناول جوآپ کی زندگی بدل سکتا ہے، سولہویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

واپسی پر میں نے صالح سے کہا:
’’یہاں کی زندگی میں تو خاندانوں میں بڑی ٹوٹ پھوٹ ہوجائے گی۔ کسی کی بیوی رہ گئی اور کسی کا شوہر رہ گیا۔‘‘
’’ہاں یہ سب تو ہوگا۔ آگے بڑھنے کا موقع تو وہ دنیا تھی جو گزرگئی۔ یہاں تو جو پیچھے رہ گیا سو رہ گیا۔ لیکن یہاں کوئی تنہا نہیں ہوگا۔ رہ جانے والوں کے انتظار میں کوئی نہیں رکے گا۔ نئے رشتے ناطے وجود میں آجائیں گے۔ نئے جوڑے بن جائیں گے۔ نئی شادیاں ہوجائیں گی۔‘‘
’’مگر یہاں ویسے خاندان تو نہیں ہوں گے جیسے دنیا میں ہوتے تھے۔‘‘

تہلکہ خیز ناول جوآپ کی زندگی بدل سکتا ہے، پندرہویں قسط  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’تم ٹھیک سمجھے ہو۔ دنیا میں خاندان کا ادارہ انسانوں کی بعض کمزوریوں کی بنا پر بنایا گیا تھا۔ بچوں کی پرورش اور بوڑھوں کی نگہداشت اس ادارے کا بنیادی مقصد تھا۔ خاندان کی مضبوطی اور استحکام کے لیے مردوں کو خاندان کا سربراہ بنایا گیا تھا۔ اسی خاندان کو جوڑے رکھنے کے لیے عورتوں کو بہت سے معاملات میں مردوں سے کمزور بنایا گیا تھا، جبکہ مردوں کو جبلی طور پر عورتوں کا محتاج کردیا گیا تھا۔ وہ مردوں کے لیے ایک نعمت بھی تھیں اور ضرورت بھی۔ اس کے بغیر دنیا کا نظم چل نہیں سکتا تھا۔ مگر اب یہاں معاملات جدا ہوں گے۔ عورتیں مردوں کے لیے ایک نعمت تو رہیں گی، مگر خود ان کی محتاج نہیں ہوں گی۔ اسی لیے ان کی قدر و قیمت بہت بڑھ جائے گی اور ان کا نخرہ بھی۔‘‘
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ اِس دنیا میں عورت ہونا زیادہ فائدے کی بات ہے۔ عورت جب چاہے گی مرد کی توجہ حاصل کرلے گی، مگر مرد کا عورتوں پر کوئی اختیار نہیں ہوگا حالانکہ وہ ان کے ضروت مند ہوں گے۔‘‘
’’ہاں یہ بات ٹھیک ہے۔‘‘
’’تو ہم مرد توپھر نقصان میں رہے۔‘‘
’’ہاں نقصان میں تو تم لوگ رہوگے۔‘‘
’’یہ تو بڑا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کا کوئی حل ہے؟‘‘
’’جنت کی نئی دنیا میں ہر چیز کا حل ہوتا ہے۔ حوریں اسی مسئلے کا حل ہیں۔‘‘
’’مگر ان سے تو خواتین کو جیلیسی محسوس ہوگی۔‘‘
’’نہیں ایسا نہیں ہوگا۔ حوریں اپنے اسٹیٹس اور خوبصورتی میں کبھی جنت کی خواتین کے برابر نہیں آسکتیں۔ اس لیے وہ جنتی خواتین کے لیے کبھی رشک و حسد کا باعث نہیں بنیں گی۔ جنت کی خواتین اپنے اعمال کی وجہ سے حوروں سے کہیں زیادہ خوبصورت اور بہت بڑے اسٹیٹس کی مالک ہوں گی۔ انہیں اس کی پروا نہیں ہوگی کہ ان کے شوہر کی اور دلچسپیاں کیا ہیں۔ ویسے بھی جنت انسانوں کی نہیں خدا کی دنیا ہے۔ تم جانتے ہو کہ انسانوں اور خدا کی دنیا میں کیا فرق ہوتا ہے؟‘‘
میں خاموشی سے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھتا رہا۔ اس نے اپنے سوال کا خود ہی جواب دیا:
’’انسانوں کی دنیا میں رقیب سے حسد کی جاتی ہے۔ مگر خدا کی دنیا میں رقیب بھی محبوب ہوتا ہے۔‘‘
’’یہ بات تو لاجواب ہے، مگر اس مسئلے کا فیصلہ جنتی خواتین ہی کرسکتی ہیں ۔‘‘
’’جنت پاکیزہ لوگوں کے رہنے کی جگہ ہے۔ ان کی پاکیزگی خدا کی مہربانی سے کسی منفی جذبے کو ان کے پاس پھٹکنے نہیں دے گی۔‘‘، صالح نے میری بات کا براہ راست جواب دینے کے بجائے ایک اصولی بات بیان کی اور پھر اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا:
’’اصل میں تم ابھی تک انسانی دنیا کے اثرات سے نہیں نکلے ہو۔ پچھلی دنیا آزمائش کی دنیا تھی۔ اس لیے وہاں مثبت جذبوں کے ساتھ منفی جذبے بھی رکھ دیے گئے تھے۔ یہ منفی جذبے انسانی شخصیت کے اندر سے اٹھتے تھے۔ ہر مومن مرد و عورت کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ ہر طرح کے منفی حالات اور ماحول میں رہنے کے باوجود اپنے اندر پیدا ہونے والے منفی جذبات پر قابو پائے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے پسینہ، بول و براز، پیشاب اور پاخانہ وغیرہ انسانی جسم سے نکلنے والی گندگیاں تھیں۔ مگر حکم تھا کہ ہر گندگی سے اپنے وجود کو پاک رکھو تو تم لوگ پانی سے غسل و طہارت کرتے تھے۔ اسی طرح منفی جذبے بھی اندر سے پیدا ہونے والی گندگیاں تھیں۔ غصہ، نفرت، جھوٹ، حسد، تکبر، کینہ، ظلم اور ان جیسی تمام گندگیوں کے بارے میں حکم تھا کہ صبر کے پانی سے انہیں دھو ڈالو۔ مومن مرد و عورت زندگی بھر یہ مشقت اٹھاتے رہے۔ مگر آج کے دن انہیں ہر ایسی مشقت سے پاک کردیا جائے گا۔‘‘
’’یعنی؟‘‘
’’مطلب یہ کہ اب نہ ان کے جسم سے گندگیاں نکلیں گی اور نہ ان کے ذہن میں منفی جذبے اور خیالات ہی پیدا ہوں گے۔ جنت خوبصورت لوگوں کے رہنے کی ایک خوبصورت جگہ ہے جہاں کوئی بدصورت جذبہ باقی نہیں رہے گا۔‘‘
’’لیکن میرے خیال میں اس بحث میں اصل بات یہ سامنے آئی کہ حوریں جنت کی خواتین سے کمتر ہیں اور بس گزارے کے قابل ہیں۔ تبھی وہ ان سے حسد نہیں کریں گی۔‘‘
پھر میں نے ہنستے ہوئے اپنی بات میں اضافہ کیا:
’’مسلمان خوامخواہ حوروں کے حسن کا چرچا سن کر ان کے دیوانے بنے اور بلاوجہ لوگوں کے طعنے سنتے رہے۔‘‘
میرے مذاق کے جواب میں صالح نے سنجیدگی سے کہا:
’’یہ دونوں تمھاری غلط فہمیاں ہیں۔ بات یہ ہے کہ جنت میں تم مرد، عورتوں کے لیے کوئی ایسا قیمتی اثاثہ نہیں رہوگے جس کی وجہ سے وہ کسی سے حسد کریں۔ رہی حوریں تو ان کی اتنی تحقیر مت کرو کہ ان کے لیے ’کم تر‘ اور ’گزارے کے قابل‘ کے الفاظ بولو۔ وہ جنتی خواتین جیسی تو نہیں، مگر بہرحال ایسی بھی نہیں ہیں کہ تم ان کو کم تر سمجھو۔‘‘
’’اچھا تو وہ کیسی ہیں؟‘‘
’’میں بتاتا ہوں وہ کیسی ہیں۔ وہ حوریں نسوانی جمال کا آخری نمونہ اور جسمانی خوبصورتی کا آخری شاہکار ہیں۔ ان کا بے مثال حسن اور باکمال روپ؛ سرخی پاؤڈر کے سنگھار، گجروں کے تار، موتیوں کے ہار اور زیب و زینت کی جھنکارکا محتاج نہیں ہوتا۔ ان کے وجود کی تشکیل کے لیے کائنات اپنا ہر حسن مستعار دیتی ہے۔ پھول اپنے رنگ، ہوا اپنی لطافت، دریا اپنا بہاؤ، زمین اپنا ٹھہراؤ، تارے اپنی چمک، کلیاں اپنی مہک، چاند اپنی روشنی، سورج اپنی کرنیں، آسمان اپنا توازن، چوٹیاں اپنی بلندی اور وادیاں اپنے نشیب جب جمع کردیتے ہیں تو ایک حور وجود میں آتی ہے۔
ان کا حسن خوبصورتی کے ہر معیار پر آخری درجہ میں پورا اترتا ہے۔ ان کا قد لمبا اور رنگ زردی مائل گورا ہے۔ پورے جسم کی جلد بے داغ اور شفاف ہے۔ آنکھیں بڑی بڑی اور گہری سیاہ ہیں، مگر ہر لباس کی مناسبت سے اس کے رنگ میں ڈھل سکتی ہیں۔ ان کی بھنویں ہموار اور پلکیں دراز ہیں۔ ان کی نظر عام طور پر جھکی رہتی ہے، مگر جب اٹھتی ہے تو تیر کی طرح دل تک جاپہنچتی ہے۔ ان کا چہرہ کتابی، پیشانی کشادہ، رخسار سرخی مائل ، ناک ستواں، زبان شیریں ، ہونٹ گلاب کی طرح نازک اور دانت موتیوں کی طرح چمکدار ہیں۔ ان کے بال ریشم کی طرح نرم اور چمکدار اور ان کے سفید رنگ کے برعکس گہرے سیاہ اور پنڈلیوں تک لمبے ہیں۔ ان کی آواز سریلے نغمے کی طرح کان میں رس گھولتی، باتوں سے موتی جھڑتے اور مسکراہٹ سے رُت حسین ہوجاتی ہے۔ ان کے وجود میں حیا کا عطر اور سانسوں میں خوشبوؤں کی مہک ہے۔ ان کے لہجے میں نرمی، چلنے کے انداز میں دلربائی اور بولنے کے طریقے میں شان و وقار ہے۔ ان کا معطر وجود مخملی لباس اور چمکتے زیور کے اندر بادلوں میں چھپتے کھلتے بدرِ کامل کا منظر پیش کرتا ہے۔‘‘
’’تم نے حوروں کو دیکھا ہے؟‘‘
’’نہیں! انہیں کسی نے نہیں دیکھا۔ صرف ان کا احوال سنا ہے۔ وہی تمھیں سنارہا ہوں۔‘‘
یہ کہتے ہوئے اس نے سلسلہ بیان جاری رکھا لیکن اس دفعہ اشعار میں اپنے مدعا بیان کرنے لگا:(جاری ہے)

تہلکہ خیز ناول جوآپ کی زندگی بدل سکتا ہے، 17ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں