ہاؤس آف ننھاز(Nannas) …… اعجاز + انور فیسٹیول (3)
ملکی حالات پر نظر ڈالی جائے تو دل بیٹھنے لگتا ہے ایسے حالات میں عوام فیسٹیولز سے کیا لطف اندوز ہوں گے مگر ہمارے اساتذہ اور ان کے دیئے ہوئے سبق ہمیں یاد آتے ہیں پھر ایسے اساتذہ جنہوں نے ہر بُرے وقت میں اپنے طالب علموں کو تسلی و تشفی کے ساتھ خوبصورت خواب بھی دکھائے ہوں اور وہ خواب اور ان کی تعبیر ان کے ہی تخلیقی سفر سے صاف صاف دکھائی دیتے ہوں ایسے ناموں میں ایک نام محترم پروفیسر ڈاکٹر اعجاز انور کا ہے جنہیں میں نے بچپن ہی سے سچا اور سُچا پایا ہے ان کی گفتار میں بے حد شیرینی ہوتی ہے وہ اکثر اردو میں بات کرتے ہوئے پنجابی بولنے لگتے ہیں میں نے تو ان سے ہمیشہ پنجابی میں بات کی ہے۔ وہ بھی مجھے یہی کہتے ہیں کہ تیرے نال پنجابی وچ گل کرن نوں دِل کردا اے اُردو بولدے کج عجیب لگدا اے، سو میں بھی ان کے ساتھ پنجابی میں بات کرنا پسند کرتی ہوں اور ان کے اندر چھپی کہانیوں کو سننا میرا شوق ہے وہ پنجابی میں انتہائی میٹھے انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔ ان کی تخلیق کردہ ہر پینٹنگ ایک داستان لئے ہوئے ہے وہ کسی غیر کی کہانیاں نہیں ہمارے پاکستان کی کہانیاں ہیں مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ ہماری آج کی نسل ان کے اس دور کے طالب علم خاص طور پر نیشنل کالج آف آرٹس یونیورسٹی کے بچے بے حد احترام و محبت سے اپنے استاد محترم کی باتوں کو سنتے ہیں اور سننا چاہتے ہیں۔ مجھے 15نومبر 2024ء کو اعجاز+ انور ٹرسٹ ہاؤس 62چنار کورٹ 13 رائے ونڈ روڈ لاہور مہمانِ خصوصی کے طور پر شرکت کی دعوت ملی وہ دن ایک یادگار دن تھا۔ فیسٹیول کے افتتاح کے موقع پر ڈاکٹر اعجاز صاحب کے بھائی انجینئر اسرار انور خاص طور پر امریکہ سے تشریف لائے تھے اور امتیاز بھائی انجینئر اسلام آباد سے آئے تھے ایک عرصہ بعد ان سے ملاقات کا موقع ملا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ہم سب بہن بھائیوں کے نام آپ کے دادا صوفی تبسم نے رکھے تھے کیونکہ وہ ہمارے دادا کے بہت گہرے دوست تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ہماری بہنوں کے نام زمرد اور الماس بھی انہوں نے ہی تجویز کئے تھے۔ امتیاز بھائی اور اسرار بھائی نے صوفی تبسم کے ساتھ گزاری بہت سی یادیں شیئر کیں ان کے گھر جو محفلیں سجتیں ان میں اس دور کے اساتذہ،شاعر، ادیب، آرٹسٹ شرکت کیاکرتے تھے۔
ہم سب باتیں ہی کررہے تھے کہ نیشنل کالج آف آرٹس یونیورسٹی سے 4بسیں وہاں کے طالب علموں کو لے کر اعجاز+انور ہاؤس پہنچی تھیں۔ پروفیسر ڈاکٹر اعجاز انور، امتیاز انور، اسرار انور، صبیحہ انور، محمد منور(ڈائریکٹر آرٹ گورنر ہاؤس)آغا شاہد،محمد جاوید اور راقم نے تمام طالب علموں اور ان کی استاد پروفیسر رابعہ جلیل کو خوش آمدید کہا۔ پروفیسر ڈاکٹر اعجاز انور نے طالب علموں کو اعجاز +انور فیسٹیول اور ہاؤس آف ننھاز کے مقاصد بیان کئے اور اپنے والد محترم انور علی کے بارے میں بھی گفتگو فرمائی۔ گیلری کے کشادہ ہرے بھرے لان میں طالب علموں کے لئے خوبصورت میزوں پر خوبصورتی سے سجے تازہ پھلوں سے ان کی مہمان نوازی کی گئی۔ بچوں نے سیر ہو کر پھل کھائے ٹھنڈا پانی پیا اور لان میں بچھی کرسیوں پر آکر بیٹھ گئے تمام مہمانوں کا تعارف کروایا گیا۔ ڈاکٹر اعجاز انور نے اپنی زندگی میں چند گزرے دلچسپ واقعات بھی سنائے جو کچھ یوں تھے کہ ایک مرتبہ وہ اندرون شہر میں اپنی پینٹنگ بنانے چلے گئے، شہر کی گلیوں میں گھومتے ہوئے ایک بازار میں پہنچ گئے۔یہ اندرون شہر لاہور کا علاقہ تھا۔ جہاں ایک خوبصورت طریقے سے سجی مٹھائی کی دکان تھی جو انہیں بہت پسند آئی وہ اس مٹھائی والے کے پاس گئے اور اپنا تعارف کروایا کہ میں آرٹسٹ ہوں اور تمہاری دکان کی چھت سے ایک پینٹنگ بنانا چاہتا ہوں اور آپ کی اجازت چاہیے اس نے بخوشی مجھے اجازت دے دی اور اپنے لڑکے سے کہا کہ جاؤ باؤ کو چھت پر لے جا مجھے لڑکا کوٹھے پر لے گیا جہاں سے لاہور شہر کامنظر بہت خوبصورت نظر آ رہا تھا۔ میں نے خوشی سے اپنا پینٹنگ کا سامان لگانا شروع کیا اور پھر پینٹنگ بنانا شروع کر دی پینٹنگ کا ایک ہی دن مکمل ہونا ممکن نہ تھا شام ہو گئی، میں نے سب کچھ وہیں رہنے دیا اور چھت سے نیچے آیا اور اس دکاندار سے کہا کہ میری سب چیزیں اوپر ہی ہیں اور میں کل آکر دوبارہ کام کروں گا مگر اپنے لڑکوں سے کہنا کہ میری چیزوں کو نہ چھیڑیں، خاص طور پر جو پینٹنگ میں نے بنا رکھی ہے اس کو بالکل ہاتھ نہ لگائیں۔ ان کے ہاتھوں پر تھندا یعنی آئل لگا ہوگا تو میری پینٹنگ خراب ہو جائے گی۔ دکاندار کہنے لگاآپ بالکل فکر نہ کرو۔ میں مطمئن ہو کر گھر آیا دوسرے دن صبح آٹھ بجے گیا تو میرا سامان اپنی جگہ موجود نہ تھا جب میں نے اپنی پینٹنگ دیکھی تو ساری پینٹنگ میں تھندا(آئل) لگا تھا۔ اس پر ہاتھوں کے نشان لگے تھے۔ میں نے سوچا میری محنت ضائع ہو گئی کچھ لمحے میں پینٹنگ کو دیکھتا رہا تو اس تھندے (آئل) کے نشانوں سے میرے ذہن میں ایک نیا آئیڈیا آ گیا اور ان نشانوں کی وجہ سے میری پینٹنگ نے ایک نیا رخ اختیار کرلیا اور ان ہاتھوں کے نشانوں نے ایک خوبصورت پینٹنگ کو جنم دیا۔ جب واٹر پینٹ کا ذکر ہوا تو انہوں نے کہا کہ میرا دل کرتا ہے کہ رنگوں میں سے سفید رنگ کو نکال دوں۔ہم جب سفید کاغذ پر پینٹ کرتے ہیں تو سفید رنگ اسی سفید کا غذ کا ہی استعمال کرنا چاہیے اس طرح آپ کی پینٹنگ میں جو نکھار آئے گا وہ سفید پینٹ لانے سے کبھی نہیں آتا۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے جب مجھے کچھ کہنے کا موقع ملا تو میں نے اپنے والد پروفیسر صوفی گلزار احمد اور انور علی کے ساتھ دوستی اپنی ملاقاتوں کا ذکر کیا اور صوفی تبسم کے حوالے سے بھی طالب علموں کے ساتھ گفتگو رہی۔ این سی اے یونیورسٹی کی ہونہار طالب علم سجل فاطمہ نے صوفی تبسم کی معروف غزل سنائی اور داد وصول کی وہاں ایک اور ہونہار طالب علم رضوان سے بھی ملاقات ہوئی اس کے بعد تمام طلبہ و طالبات کو گیلری کا دورہ کروایا گیا۔ انہوں نے وہاں انور علی (ننھا) اور پروفیسر ڈاکٹر اعجاز انور کی پینٹنگ دیکھیں اور بہت سے سوالات کئے جس کے جواب وہ دیتے رہے۔ ڈاکٹر اعجاز اور صبیحہ انور نے مجھے ایک خوبصورت پینٹنگ تحفتاً دی۔ بہت سے پوسٹ کارڈ اور بک مارک ڈاکٹر اعجاز انور کی پینٹنگ کے آرٹسٹ پرنٹ بھی ہم سب اور طالب علموں نے بڑے شوق سے خریدے۔ ساڑھے چار کنال پر مشتمل خوبصورت ہاؤس آف ننھاز &بے بیز کے اخراجات کو ڈاکٹر اعجاز انور اپنی پینشن،کچھ سلیکشن اور پینٹنگ کے بکنے پر گیلری کی دیکھ بھال کے لئے خرچ کر دیتے ہیں۔ ابھی اور بہت سا کام ہونا باقی ہے اس گیلری کے لئے فنڈز کی کمی ہے میرے خیال میں اس گیلری کو مزید فعال بنانے کے لئے اس کو اگر این سی اے یونیورسٹی کی سرپرستی حاصل ہو جائے اور یہاں باقاعدہ کلاسز کا اجراء ہو جائے، (Artist Risidencies) کی جائیں اور اس کا ایک حصہ میوزیم بنا دیاجائے تو یہ آرٹ گیلری آنے والی ہماری نسلوں کو نئے راستوں کا پتا ضرور دے گی۔ (ختم شد)