آخر بے صبری کیوں ہے؟

پہلے روزے سے ایک دن پیشتر شام کے وقت اگر آپ گھر سے باہر کسی بازار کی طرف گئے ہوں تو اُس کی وجہ سے یقینا ٹریفک جام میں پھنس گئے ہوں گے،بازاروں میں تاریخی رش دیکھنے میں آیا۔سوال یہ ہے کیا اگلے دن ملک میں جنگ لگنے والی تھی یا سیلاب نے آنا تھا کہ سب خریداری کے لئے نکل کھڑے ہوئے، پھر خریداری بھی ایسی کی کہ ہفتے دو ہفتے کا سامان خرید لیا۔ہم جیسے سادہ لوح شہریوں کا خیال تھا، پہلی افطاری کے وقت پھل بہت مہنگے ہو جائیں گے، آج ہی خرید لو،حالانکہ مہنگائی طلب و رسد کی وجہ سے آتی ہے، رمضان کی وجہ سے نہیں۔کچھ دوستوں نے شکایت کی سیب دو اڑھائی سو کلو آسانی سے مل رہے تھے، یکدم ساڑھے تین، چار سو روپے کلو ہو گئے۔ انڈے 240روپے درجن تھے،290 روپے ہو گئے۔اِسی طرح باقی چیزوں کو بھی جیسے آگ لگ گئی۔میں نے کہا بھائیو! جب پوری قوم ایمرجنسی میں خریداری کے لئے نکل پڑے گی تو ایسا ہی ہو گا،لینے کے دینے پڑ جائیں گے،پانچ پانچ کلو سیب خریدے جائیں گے تو سستے کیسے ہوں گے۔ایک دو دن میں ایک کلو سیب بھی استعمال نہیں ہوتے کہ صرف فروٹ چاٹ بنانے کے کام آتے ہیں،پھر اتنی بے صبری کیوں ہے، پھر یہ شکوہ بھی ہے کہ رمضان آتے ہی اشیاء مہنگی ہو گئیں۔دکانداروں اور ریڑھی والوں کو تو طعنے دیئے جاتے ہیں کہ وہ مقدس مہینے کے آتے ہی چھریاں تیز کر لیتے ہیں،مگر یہ کوئی نہیں سوچتا صبر کے ساتھ کام لیا جائے، صرف ضرورت کی حد تک خریداری کی جائے تو کوئی چیز بھی مہنگی نہ ہو۔سوشل میڈیا پر یہ مہم چل رہی ہے صرف ایک دن کی افطاری کا سامان خریدیں، مہنگائی میں 40 فیصد کمی آجائے گی،مگر کوئی سنتا ہے فغانِ درویش، دکاندار گاہک کی نفسیات کا فائدہ اٹھاتے ہیں،اگر اُس کی نفسیات میں بے چینی ہے، بے یقینی ہے، بے صبری ہے تو اُن کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔وہ منہ مانگے دام وصول کرتے ہیں۔اگر صرف ضرورت کے تحت خریداری کی جائے تو، نہ ذخیرہ اندوزوں کی چاندی ہو اور نہ ہی پرچون فروشوں کو راتوں رات قیمتیں بڑھانے کا موقع ملے۔ہم سارا نزلہ دوسری طرف گراتے ہیں،کبھی اپنی اداؤں پر غور نہیں کرتے۔اُدھر اگر لالچ اور اِس ماہ میں مہنگائی کر کے امیر ہونے کی بے صبری ہے تو اِدھر ہم خریداری میں بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔بازار چاہے گھر سے کلو آدھے کلو میٹر فاصلے پر ہی کیوں نہ ہو، کئی کئی دن کا سامان خرید لاتے ہیں،گویا طلب بڑھا دیتے ہیں، جس سے قیمتیں تو بڑھنی ہی ہیں۔
وطن ِ عزیز کی دنیا ہی الگ ہے یہاں ہر رنگ کی زندگی پائی جاتی ہے، جو غریب ہے وہ آدھا کلو سیب بھی نہیں خرید سکتا۔ دوسری طرف امیر طبقہ بیکوقت پانچ پانچ کلو سیب خرید لیتا ہے۔بیچنے والوں کی نظر اُس آدھ کلو سیب لینے والے پر نہیں ہوتی کہ اپنا منافع کم کر دیں،بلکہ اُس پانچ کلو والے خریدار پر ہوتی ہے جو اُن کی جیبیں بھر جاتا ہے۔مہنگائی تو سب کے لئے آتی ہے،مگر وسائل سب کے لئے یکساں نہیں آتے،جن کے گھر دانے ہوتے ہیں اُن کے کملے بھی سیانے ہو جاتے ہیں۔امراء کو اِس بات کی کوئی پروا نہیں، خلقِ خدا کس حال میں ہے۔انہیں تو صرف اپنی شاہانہ زندگی کے غرض ہوتی ہے۔ہر سال حکومت غریبوں کے لئے رمضان پیکیج منظور کرتی ہے۔ اِس بار بھی20ہزار ارب روپے کا پیکیج دیا گیا ہے، لیکن اِس ملک کے خوشحال اور متمول طبقے کی طرف سے جس بے دریغ انداز میں خریداری کی جاتی ہے اُس سے مہنگائی اتنی ہی بڑھ جاتی ہے۔امیروں کو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا البتہ غریبوں کے لئے زندگی مزید مشکل ہو جاتی ہے۔ میں سُن رہا تھا کہ حکومت نے رمضان پیکیج کے تحت غریب گھرانوں کو پانچ پانچ ہزار روپے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔اچانک فیس بک پر میری نظر ایک سپانسرڈ اشتہار پر پڑی، جو کسی ریسٹورنٹ کا تھا، جس میں افطار،بوفے ڈنر کی سات ڈشوں کے ساتھ مشہوری کی گئی تھی اور فی کس قیمت صرف پانچ ہزار روپے تھی،میں نے سوچا ایک طرف ایک غریب گھرانہ پانچ ہزار روپے پورے رمضان کے لئے وصول کرے گا اور دوسری طرف اِسی ملک میں ایک طبقہ صرف افطاری کے لئے پانچ ہزار روپے فی کس خرچ کر کے ثواب دارین سے جھولیاں بھرے گا۔اشتہار میں یہ بھی لکھا ہوا تھا، انتظار اور زحمت سے بچنے کے لئے اپنی ایڈوانس بکنگ کرا لیں، تو صاحبو! جب اتنی بڑی طبقاتی تقسیم ہو تو مصنوعی مہنگائی کیسے کم ہو سکتی ہے،جس نے80فیصد پاکستانیوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔میرے ایک دوست امریکہ میں رہتے ہیں،چند سال پہلے جب امریکہ گئے تھے تو حالات کچھ اچھے نہیں تھے۔اب خاصے بہتر ہیں وہ مجھے بتاتے ہیں کہ جب میں امریکہ آیا تھا تو ایک کمرے کے فلیٹ میں کرائے پر رہتا تھا،اِسی دوران ماہِ رمضان آ گیا۔ فلیٹ کی مالک ایک اسرائیلی خاتون تھی،وہ مجھے دیکھتی کہ میں افطاری کے لئے چھوٹا موٹا سامان لاتا ہوں،اُس نے ایک دن پوچھا تم ایک ہفتے کا سامان کیوں نہیں خرید کر رکھ لیتے۔وہ بتاتے ہیں کہ میں نے اسے کہا میرے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں یہ سُن کر اُس نے کہا میں بھی اب صرف ایک دن کا سامان لایا کروں گی،مجھے یہ کوئی حق نہیں پہنچتا میں بڑی خریداری کروں اور میرے ساتھ رہنے والا ایک دن کی خریداری کر سکتا ہو۔وہ بتاتے ہیں کہ پورا رمضان وہ ضرورت کی چیزیں صرف ایک دن کے لئے خرید کر لاتی رہی۔اُس کا یہ چھوٹا سا عمل مجھے عجیب بھی لگا اور متاثر بھی کر گیا۔ ہمارے ہاں تو ایک ہی محلے میں رہنے والے اِس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کسی کے گھر کھانے کو بھی کچھ ہے یا نہیں اور خود شاپر بھر بھر کر اپنے گھر لاتے ہیں۔
دن بھر کی بھوک کیا ہے؟یہ اس عمل کی مشق ہے کہ بھوک کے احساس سے گزرو تاکہ تمہیں معلوم ہو سکے جو لوگ اپنی غربت اور مجبوری کے باعث بھوکے رہتے ہیں،اُن کا کرب کیا ہوتا ہے۔ پھر یہ مہینہ اِس بات کا درس بھی دیتا ہے کہ صرف اپنی سحری و افطاری کو شاندار بنانے پر توجہ نہ دو،بلکہ اپنے اردگرد، اپنے ہمسائے اور اپنے محلے میں دیکھو اُنہیں بھی سحری و افطاری کے لئے سامان میسر ہے یا نہیں، صرف حکومتیں عوام کی مشکلات کم نہیں کر سکتیں،اس کے لئے معاشرے کو آگے آنا پڑتا ہے۔اپنے اردگرد پر نظر رکھنے والے درحقیقت بڑے صاحب ِ ثروت ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی کمی نہیں، فیملی سمیت ایک دن کے بوفے پر چالیس پچاس ہزار روپے خرچ کرنے والے اگر اپنی لذت کام و دہن کو پست پشت ڈال کر روح کی آسودگی کے لئے کسی مستحق کے گھر میں انہی پیسوں سے مہینے بھر کا راشن پہنچا دیں تو ماہِ صیام کا اصل مقصد پورا ہو جائے گا۔صبر صرف یہی تو نہیں کہ صبح سے شام تک بھوک برداشت کر لی، صبر یہ بھی ہے کہ اپنی خواہشات کو پس پشت ڈال کر اُن لوگوں کی خواہشات پوری کی جائیں جو بے وسیلہ اور زندگی کو امتحان سمجھ کے گزار رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭