ہمارے بڑے ادارے اپنی حدود کو سمجھنے سے قاصر کیوں ہیں؟؟
اس کائنات کا نظام کسی آئین کے تحت چل رہا ہے یہ آئین اسی ذات کا بنا ہوا ہے جس نے یہ کائنات تخلیق کی ہے۔ اگر اس آئین کی کہیں کوئی خلاف ورزی ہو رہی ہے تو وہ حضرت انسان ہیں جو یہ کرتے ہیں. باقی تمام سیارے، آب و ہوا اور نباتات سب اپنے خالق کے آئین کے پابند ہیں. اس کرہ ارض پر جتنے ممالک ہیں ان میں کامیاب اور خوشحال وہی ہیں جن کا آئین ملکی عوام کے مفاد میں بنایا گیا ہے اور وہ اس آئین کی پابندی کرتے ہیں. تمام ترقی یافتہ ممالک کے ادارے اپنی حدود کو بخوبی سمجھتے اور ان حدود کے اندر کام کر کے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ ہم نے کبھی یورپ کے میڈیا میں کسی چیف جسٹس یا جسٹس صاحب کے ریمارکس کا ذکر نہیں دیکھا ہے۔ یورپی ممالک کے عام عوام کو کبھی یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ ہمارے ملک کا چیف جسٹس کون ہے یا فوج کی کمان کس کے ہاتھ میں ہے یہاں ایک آپ بیتی پیش کرتا ہوں، میں نے ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں کچھ عرصہ ٹیکسی چلائی ہے۔ ایک بار میرے ساتھ ایک میاں بیوی بطور سواری بیٹھے اور اپنے گھر کا پتا بتایا اور میں گاڑی چلانے لگا، میں نے گاڑی کو حد رفتار سے کچھ تیز چلایا تو پیچھے بیٹھے مرد نے گاڑی آرام سے چلانے کو کہا، میں نے کچھ آہستہ کی لیکن دوبارہ پھر تیز کر دی اور ایک اشارے پر اشارہ بند ہوتے ہوتے گاڑی آگے نکال لی، اس کے بعد اس شخص نے دوبارہ مجھے ٹریفک قانون کی پابندی کرنے کو کہا اور ساتھ ہی بتایا کہ میں ناروے کی بڑی عدالت کا چیف ہوں۔ مجھے یہ سنتے ہی فکر ہوئی اور گاڑی کو حد رفتار کے اندر کیا لیکن چیف کے ساتھ بیٹھی ان کی بیگم قدرے سختی سے بولی کہ اگر تم چیف جسٹس ہو تو کیا؟ کیا تم ڈرائیور پر رعب ڈال سکتے ہو؟اُس نے جواب دیا کہ نہیں،میں رعب ہر گز نہیں ڈال رہا میرا مطلب یہ تھا کہ چونکہ میں ایک جج ہوں اور مجھے قانون کا احترام کرنا چاہئے، لیکن اس کی بیوی بالکل مطمئن نہیں ہوئی وہ تھوڑی نشے میں بھی تھی وہ گھر پہنچنے تک اعتراض کرتی رہی کہ تم نے جو بولا ہے وہ غلط ہے، تم ٹیکسی میں بیٹھ کر عدالت نہیں لگا سکتے، تم ڈرائیور کو سکھا نہیں سکتے،کیونکہ اس کے پاس لائسنس ہے اور وہ اپنے کام کا خود ذمہ دار ہے۔ اس دوران میں نے بھی کہا کہ وہ درست کہہ رہے تھے لیکن وہ عورت تھی کہ بولی گئی اور اس کا خاوند معذرت کرتا گیا کہ میرا یہ مطلب نہیں تھا لیکن پھر بھی میں آپ دونوں سے معذرت کرتا ہوں۔ میں یہ سب دیکھ کر حیران ہوتا رہا کہ پہلی بات چیف جسٹس ٹیکسی میں اور وہ بھی بغیر کسی پروٹوکول کے؟ دوسری بات اس نے کوئی ایسی غلط بات بھی نہیں کی صرف اپنا تعارف بطور اعلیٰ عدالت کا جج کروایا لیکن پھر بھی معذرت کر رہا ہے اپنی غلطی مان رہا ہے۔
ہمارے ملک میں ایسا کیوں ہے کہ ہمارے اداروں کے سربراہان خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہیں؟ دوسرے اداروں اور دوسروں کے کام میں مداخلت کو اپنا حق گردانتے ہیں؟ لیکن اپنے ادارے کے اندر کی خرابیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ماضی قریب میں پاکستانی اعلیٰ عدلیہ کا جو کردار ہمارے سامنے آیا ہے وہ افسوس ناک ہے، بلکہ پاکستان کی پوری تاریخ میں عدلیہ کا کردار کوئی مثالی نہیں رہا ہے۔ ہمارے ججز صاحبان یا تو دوسرے طاقتور اداروں سے ڈکٹیشن لیتے رہے یا پھر اپنی طاقت کے جوہر اپنی سوچ، اپنے نظریات اور اپنی مرضی کے زیر اثر دکھاتے رہے لیکن آج تک اپنا عدالتی نظام درست نہ کر سکے۔
یورپ اور امریکہ کے اندر مختلف مذاہب، مختلف نسلوں اور مختلف رنگوں کے لوگ رہتے ہیں۔وہاں تعصب بھی ہے بالخصوص اکثریت مسلمان اقلیت سے تعصب رکھتی ہے لیکن جیسے ہی کوئی مرد یا عورت کسی بڑے عہدے پر بیٹھتے ہیں ان میں تعصب کا شائبہ تک بھی نہیں رہتا پھر ان کا کوئی مذہب ہوتا ہے. نہ کوئی نسل ہوتی ہے نہ ان کے کوئی سیاسی نظریات رہ جاتے ہیں وہ صرف اور صرف آئین میں دئیے گئے اپنے اختیارات کے مطابق اپنے فرائض کی انجام دہی پوری دیانتداری سے کرتے ہیں۔
لیکن ہمارے ہاں جو جس عہدے پر بیٹھتا ہے وہاں اس کی سوچ، اپنے نظریات اور اپنے کام کرنے کے طریقہ کار کی جھلکیاں صاف نظر آتی ہیں ہمارے ہاں مختلف سیاسی جماعتیں انتظار کرتی ہیں کہ فلاں ادارے میں اپنا آدمی آ جائے پھر سب کچھ ہماری مرضی سے ہو گا۔
اس کالم کا خیال مجھے اپنے موجودہ چیف جسٹس صاحب کے حکم پر رجسٹرار سپریم کورٹ کی طرف سے برطانوی ہائی کمشنر کو لکھے گئے خط سے آیا، جہاں تک ہمارا علم ہے کسی بھی دوسرے ملک کی ایمبیسی یا اس ملک کی حکومت تک کوئی پیغام پہنچانا ہو تو یہ کام وزارت خارجہ کا ہوتا ہے اگر برطانیہ کے ہائی کمشنر نے عاصمہ جہانگیر کی یاد میں منعقدہ پروگرام میں کوئی ایسی بات کی ہے جسے ہم اپنے ملکی معاملات میں مداخلت سمجھتے ہیں تو اس کا جواب دینے کے لئے ہماری وزارت خارجہ ہے نا!ہماری وزارت خارجہ برطانوی ہائی کمشنر کو فون پر بلوا سکتی ہے ان سے جواب طلب کرنے کے علاوہ خبردار بھی کر سکتی ہے۔ ہمارے قاضی القضا صاحب کو یہ ضرورت کیوں کر محسوس ہوئی کہ وہ برطانیہ کے ہائی کمشنر کو خط لکھ کر برطانوی نظام انصاف درست کرنے کی ہدایات دیں؟ کیا ہمارے سارے چیف جسٹس صاحبان ایک ہی راستے پر چلتے رہیں گے اور وہ راستہ اپنے نظام سے باہر باہر سے گزر کر دوسرے اداروں کے اندر احکامات دینے کا ہے. چیف جسٹس افتخار صاحب سے ہوتے ہوئے ثاقب نثار صاحب اور بندیال صاحب سے ہمارے قاضی صاحب تک یہی کام جاری رہے گا کہ آپ کبھی وزرائے اعظم کی سرزنش کرتے نظر آئیں گے کبھی اپنی مرضی کے ریمارکس میں دوسروں پر طنز کے تیر برسائیں گے اور اپنی طاقت دکھاتے رہیں گے یا کبھی عوام کو انصاف دلانے کے لئے اپنا عدالتی نظام بھی درست کریں گے؟ اب تو آپ کے اپنے ججز بھی انصاف کی دہائی دے رہے ہیں۔ عوام کو نہ سہی اپنے زیر انتظام ہائیکورٹ کے ججز کو تو انصاف دلا دیں۔