ایک شام ڈاکٹر خورشید رضوی کے نام (آخری قسط)

    ایک شام ڈاکٹر خورشید رضوی کے نام (آخری قسط)
    ایک شام ڈاکٹر خورشید رضوی کے نام (آخری قسط)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  صوفی تبسم اکیڈیمی میں صاحبِ شام حضرت خورشید رضوی کی نعتیہ شاعری کے متعلق ڈاکٹر شاہد اشرف کے تبصرے نے بھی متاثر کیا فرماتے ہیں کہ خورشیدرضوی شعر کہنے سے پہلے خاموشی اور درود سے حضوؐرِ سرکار کی محفل میں نیاز حاصل کرتے ہیں اور بعدازاں ریاضت و مجادلے سے شعر کہتے ہیں کہ ان کی نعتیہ شاعری عقیدت و محبت کا مجسم نمونہ بن جاتی ہے، ان کی ذات میں جو خلوص و صداقت کا جوہر ہے وہی ان کی نعت کا مضبوط و مستحکم مواد بنتا ہے۔ 

ہوں تو گناہگار یہ قسمت عجیب ہے 

خوابوں میں پارسائی کی دولت عجیب ہے

کیا دیجئے مثال کہ ملتی نہیں مثال

ذکرِ رسوؐلِ پاک کی لذت عجیب ہے

تقریب کے مہمانِ خصوصی ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے فرمایا کہ میرا رشتہ ڈاکٹر خورشید صاحب کے ساتھ تقریباً 45سال پرانا ہے جیسا کہ ڈاکٹر خالدسنجرانی نے بتایا اور الحمدللہ جو آج بھی قائم ہے۔ 

ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کو عام طور پر ایک شاعر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے، اس میں شک نہیں کہ انہوں نے شعروادب میں نہایت عمدہ اور قابلِ توجہ کام کیا ہے لیکن اُن کا حقیقی کام یا اُن کا حقیقی تعارف تحقیق کی دنیا میں ہے جس سے عام لوگ واقف نہیں ہیں میری مراد ”قائدالجمان“ کی تدوین اور عربی ادب قبل از اسلام کی تاریخ لکھنے سے ہے۔ قائدالجمان کی تدوین ایک بہت غیرمعمولی کارنامہ ہے،اسی طرح عربی ادب قبل از اسلام کی دو جلدیں جو انہوں نے بیس سال کی محنت سے لکھی ہیں، اُن کی عظمت اور اُن کی وقعت کا احساس وقت کے ساتھ ساتھ اُن لوگوں کو ہوگا جو تحقیق اور تدوین کی دنیا سے واقف ہیں۔ 

مہمانِ خصوصی پروفیسر غلام حسین ساجد نے فرمایا کہ ڈاکٹر خورشید رضوی ایک دریا کے مانند ہیں اور ان کی شاعری کبھی بے حد پرسکون اور کبھی بپھرے ہوئے پانی کی طرح ہے جو کناروں کو ڈھاتا بھی ہے اور زمین کی زرخیزی کو بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ اُن کے طالب علم ایک کنویں کی مانند ہیں جو باطنی اور ظاہری دونوں دریاؤں کے محتاج ہوتے ہیں اور ان سے پانی لے کر پیاسوں کی پیاس بجھاتے ہیں، غلام حسین ساجد صاحب نے کہا کہ ڈاکٹر خورشیدرضوی کی طبیعت میں بے حد سادگی، رواداری اور خلوص ہے یہی وجہ ہے اُن کے دوست ملنے والے اور خاص طور پر اُن کے شاگرد اُن  کا بے حد احترام  ان   سے محبت کرتے ہیں، آخر میں سیّد ذیشان نے ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کا تعارف کراتے ہوئے اُن کو خطاب کی دعوت دی۔ 

ڈاکٹر خورشید رضوی کا شمار ایسے عبقریوں میں ہوتا ہے جو شاعر ہی نہیں ماہرِلسانیات، محقق اور اعلیٰ پائے کے دانشور بھی ہیں۔ وہ 19مئی1942ء کو امروہہ (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی نے سکول اور کالج کی تعلیم پنجاب کے شہر منٹگمری (ساہیوال) میں حاصل کی پھر اورینٹل کالج لاہور سے 1961ء میں گولڈمیڈل کے ساتھ ایم اے عربی کیا اور 1981ء میں پنجاب یونیورسٹی سے عربی ادب میں پی ایچ ڈی (Ph.D) کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر خورشید رضوی اب تک نظم و نثر میں بہت سی کتب و مضامین لکھ چکے ہیں، وہ عربی و فارسی، انگریزی، اُردو اور پنجابی میں اچھی دستگاہی رکھتے ہیں۔ 

ڈاکٹر خورشید رضوی آجکل گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں پروفیسر ایمریٹس ہیں اور لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ 2008ء میں علمی وادبی خدمات کی بنیاد پر حکومت پاکستان نے انہیں ”ستارہئ امتیاز“ سے نوازا، اس کے علاوہ اُنہیں شاعری میں احمد ندیم قاسمی ایوارڈ اور احمد فراز لٹریری ایوارڈ، یوبی ایل ادبی ایوارڈ، عالمی فروغِ اُردو ادب ایوارڈ دوحہ (قطر)، خالد احمد ایوارڈ، احمد فراز ادبی ایوارڈ بھی مل چکے ہیں، ان کے کریڈٹ پر قائدالجمان، پس نوشت، دیریاب، تالیف، اطراف، رائیگاں، یکجا کلیات، عربی ادب، قبل از اسلام 2جلدیں، بازدید، تاریخ علوم میں تہذیب اسلامی کا مقام، ارمغانِ خورشید رضوی کتب ہیں۔ 

ڈاکٹر خورشید رضوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ڈاکٹر فوزیہ تبسم مجھے بہت عرصے سے اکیڈیمی میں مدعو کرنا چاہتی تھیں میں بھی  چاہتا تھا کہ کسی دن سمن آباد آؤں کیونکہ میں تو ان کا ہمسایہ بھی رہ چکا ہوں مگر ان کے اصرار پر میں آج صوفی تبسم اکیڈیمی آیا ہوں اور آپ سب کو انہوں نے اس لیے مدعو کیا ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ صوفی تبسم اکیڈیمی میں پروگرام بھی کرتی رہتی ہیں۔ صوفی تبسم کی شخصیت میں بے حد رچاؤ تھا اُن کا ایک فارسی شعر مجھے اکثر یاد آتا ہے 

بیانِ کفر چنیں دلنشین نباید و ہست

حدیث شیخ حرم دلنواز باید و نیست 

ترجمہ: کفر کا بیان اتنا دلچسپ نہیں ہونا چاہیے تھا مگر ہے، شیخِ حرم کی گفتگو جو کہ دل پسند ہونی چاہیے تھی مگر نہیں ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ اس محفل میں آکر ڈاکٹر فوزیہ کی وساطت سے مجھے اتنے لوگوں کی محبت حاصل ہوئی یہ میری ماں کی بھی دعائیں ہیں کہ مجھے ہمیشہ لوگوں سے محبت حاصل رہی۔ آج بھی غلام حسین ساجد، ڈاکٹر زاہد منیرعامر، ڈاکٹر خالد سنجرانی، سعود عثمانی، نوید صادق تو جانتے ہیں کہ نصف صدی سے اُن کے ساتھ بیٹھا ہوں۔ ڈاکٹر خورشید نے کہا کہ آپ سب کی گفتگو پائے کی ہے ان کی تمام گفتگو میری ذات و صفات کے علاوہ ان کی محبت ہی ہے جو کچھ میرے بارے میں کہا اُس میں بہت سی باتیں یادوں کی بازگشت تھی۔ میں دائمی تشنگی میں کسی سرچشمے میں بیٹھ جاتا ہوں ہر جگہ سے سیرابی اور سرشاری آجاتی ہے۔ 

دل میں یوں اترا کسی ساعدِ سیمیں کا دھیان

شاخِ گل جس طرح دیوارِ قفس سے آ لگے

شاعر کو زندگی کی اذیتیں بھی زیادہ محسوس ہوتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے زندگی میں توازن رکھا ہے۔ مسرت اور شادمانی کا جو مجموعی تصور ہے یہ انسانی وجود سے ہی منسلک ہے بعض اوقات انسانی زندگی میں کسی بڑی محرومی کا خلا اگر رہ بھی جائے تو لحظہ لحظہ وہ اپنے مشاغل سے اپنی زندگی کو شاد کرسکتا ہے۔ اگر شاعر غیرمعمولی طور پر چھوٹی چھوٹی چیزوں سے اذیت زیادہ لیتا ہے تو وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں سے مسرت بھی زیادہ کشید کرتا ہے جو اور لوگوں کو نظر نہیں آتیں۔ انہوں نے آخر میں حاضرین کے اصرار پر اپنا خوبصورت کلام بھی سنایا 

صرف خزاں ہیں کس کے رنگ، وجہِ بہار کون ہے

ابلقِ صبح و شام کا شاہسوار کون ہے

دیکھ رہا ہوں دُور سے اپنی شبیہِ سربلند

مَیں نہیں بستہئ رسن، پھر سرِ دار کون ہے

…………

گل کھلاتی ہے، کبھی خاک اُڑاتی ہے یہ خاک

شعبدے کرتی ہے، نیرنگ دکھاتی ہے یہ خاک

مَیں تو خود خاک ہوں میرا تو بھلا کیا مذکور

آسمانوں سے ستاروں کو بلاتی ہے یہ خاک

پروگرام کے اختتام پر ڈاکٹر خورشید رضوی کو صوفی تبسم ایوارڈ پیش کیا گیا، غلام حسین ساجد، سعود عثمانی، ڈاکٹر زاہد منیر عامر اور ڈاکٹر خالدسنجرانی کو بھی صوفی تبسم ایوارڈ پیش کیا گیا۔ ہونہار طالبہ ام لیلیٰ نے ڈاکٹر خورشید رضوی کا کلام گا کر بے حد داد وصول کی۔ آغا شاہد نے تمام مہمانانِ گرامی کا شکریہ ادا کیا۔ آخر میں عشائیے کا اہتمام کیا گیا۔ یوں ایک یادگار حسین شام کا اختتام ہوا۔ (ختم  شد)

مزید :

رائے -کالم -