سیاسی خلیفے

یہ دور بھی آ گیا ہے اب کسی سے کہو اپنا مسئلہ حل کرانے کے لئے اپنے علاقے کے رکن اسمبلی سے بات کرے تو وہ آگے سے کہتا ہے مسئلہ حل کرانا ہے،بگاڑنا نہیں۔ ایسے تین واقعات میرے سامنے آئے ہیں جب لوگوں نے یہ کہا رکن اسمبلی کو چھوڑیں آپ کوئی دودسری سفارش ڈھونڈ کے پولیس یا انتظامیہ کے افسر سے ہمارا کام کرادیں۔ ابھی دو دن پہلے تو ایسا بھی ہوا کہ ایک بڑے پولیس افسر کے دفتر میں علاقے کا ایک دبنگ نمائندہ آیا۔ اتفاق سے اسی وقت وہ پارٹی بھی پولیس افسر کے دفتر میں موجود تھی، جس کے خلاف وہ اپنے کسی بندے کی سفارش کرنا آیا تھا۔ پولیس افسر نے ان افراد کی روداد تحمل سے سنی اور علاقے کے ایس ایچ او کو طلب کرکے میرٹ پر کام کرنے کی ہدایت دی۔ یہ صورت حال دیکھ کر وہ عوامی نمائندہ چپ سادھ کے رہ گیا اور بس اتناکہا میں صرف سلام کرنے آیا تھا اس کے بعد چائے پئے بغیر یہ جاوہ جا۔ میں نے نے جن لوگوں کو پولیس افسر کے پاس بھیجا تھا، انہوں نے کہا حیرت انگیز طور پر یہ عوامی نمائندہ جو ہمیشہ پولیس کی آشیرباد سے اپنے مخالفین کو جھوٹے مقدموں میں پھنسواتا ہے، بغیر کوئی لفظ زبان سے نکالے اُٹھ کر چلا گیا۔ حالانکہ اس نے ہمیں پیغامات بھجوائے تھے کہ زمین سے دستبردار ہو جائیں وگرنہ پچھتائیں گے۔ چند روز پہلے میں ایک اور بڑے انتظامی افسر کے پاس موجود تھا۔ باتوں باتوں میں یہ تذکرہ ہواکہ آج کل سیاسی سفارشوں کی کیا رفتار ہے۔ کتنا عمل دخل ہو رہا ہے۔ انہوں نے یہ بتا کر حیران کر دیا کہ ناجائز کاموں کے لئے ہرقسم کے دباؤ اور سفارش پر کاٹا لگ گیا ہے۔ جائز کاموں کے لئے سسٹم کو بہتر کر دیا گیا ہے اور مزید کیا جا رہا ہے، اس لئے سیاسی نمائندے عملاً بے کار ہو گئے ہیں۔ میں نے کہا ٹرانسفر پوسٹنگ کے لئے تو آتے ہوں گے۔ خاص طور پر پٹواری یا رجسٹری برانچ کے اہلکاروں کے لئے کہنے لگے سب کو پتہ چل گیا ہے ایسی سفارش کرانے سے کام الٹا خراب ہو گا، بنے گا نہیں۔ اب لوگ سفارش کے لئے کسی اور طرف دیکھتے ہیں مگر مجبوری یہ ہے کہ اس تک ہر کسی کی رسائی نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے حکم دے رکھا ہے کہ کسی دباؤ کے بغیر کام کریں البتہ یہ بات سامنے رکھیں کہ عوام کو ریلیف ملنا چاہیے، اس لئے آپ کو پنجاب میں ایک تبدیلی نظر آئے گی۔ اگر آپ کو یقین نہیں تو کسی دفتر میں جائیں،کام میں بشرطیکہ جائز اور قانونی ہو، کوئی رکاوٹ ہو تو سیدھا محکمے کے مقامی سربراہ سے ملیں، نہ ملنے میں کوئی دشواری پیش آئے گی اور نہ ہی فوری نوٹس لینے میں کوئی کمزوری دکھائی دے گی۔
میرے قریب ہی ایک ایم این اے کا گھر ہے۔ یہاں میں نے بہت رونقیں دیکھی ہیں۔ صبح سے شام تک ملاقاتیوں اور سائلوں کا ایک اژدھام نظر آتا تھا، مگر اب ایک بے رونقی سی نظر آتی ہے، حالانکہ ان کا تعلق اپوزیشن سے نہیں۔ ایک روز میں نے انہیں خود یہ کہتے سنا کہ علاقے کا ایس ایچ او ان کا فون نہیں اٹھا رہا، حالانکہ تین بار فون کر چکے ہیں وہ کسی کی سفارش کرنا چاہتے تھے۔ پھر انہوں نے سائلین کو ٹالنے کے لئے ایک رقعہ لکھا اور کہا تھانے جا کر ایس ایچ او کو دکھائیں ضرور مدد کریں گے۔ اس پر مجھے ایک دوست کی یہ بات یاد آئی کہ بہت جلد ہمارے سیاسی نمائندے سیاسی خلیفے بن جائیں گے جنہیں اچھی تنخواہیں تو ملیں گی تاہم قانون سازی یا حکومت میں مداخلت کا کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ بس جو بل آئے گا اس کے حق میں ہاتھ کھڑا کرنا پڑے گا یا ووٹ ڈالنا ہوگا۔ کل میں پیپلزپارٹی کے ایک سینئر رہنما کا ایک بیان پڑھ رہا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا وفاقی اور پنجاب کی سطح پر پیپلزپارٹی کے ساتھ اس طرح کا امتیازی سلوک جاری رہا تو بجٹ کے موقع پر حکومت کی حمایت نہیں کریں گے اور حکومت عدم اعتماد کا شکار ہو کر گھر چلی جائے گی۔ مجھے اس بیان پر بہت ہنسی آئی، بلکہ کیا پدی او رکیا پدی کا شوربہ والا محاورہ یاد آ گیا جس بندوبستی نظام کے تحت پیپلزپارٹی کو اتنا کچھ دیا گیا ہے اس میں یہ کیسے ممکن ہے وہ حکم عدولی پر اتر آئے اور بجٹ جیسے اہم موقع پر حکومت کو شکست سے دوچار کر دے، او دن ڈبا جدوں گھوڑی چڑھیا کبا، اب سبھی کو اس طرح پرانی تنخواہ پر کام کرنا پڑے گا۔ صرف عوام کی نظر میں اپنی ساکھ بچانے کے لئے بیانات کی قلابازیاں کھائی جا سکیں گی باقی ہوگا وہی جو پیا چاہے گا۔ مرکز میں تو پھر بھی وزیراعظم شہبازشریف پیپلزپارٹی کے گلے شکوے سن کر آصف علی زرداری یا بلاول بھٹو سے ملاقات کر لیتے ہیں لیکن پنجاب میں مریم نواز ایسی کسی بھی مجبوری سے ماورا ہیں جہاں یوسف رضا گیلانی جیسے سینئر رہنما کو ملتان میں سیاسی حوالے سے کوئی اختیار نہ مل رہا ہو اور انتظامی افسر بعض اوقات فون تک نہ سنتے ہوں وہاں کسی اور کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے۔ سیاسی مداخلت کے بند ہونے سے اچھا ہوا ہے یا بُرا، اس کا فیصلہ تو متاثرین ہی کر سکتے ہیں تاہم سرکاری افسروں کا کہنا ہے اب وہ ایک آزاد ماحول میں کام کررہے ہیں اور انہیں معلوم ہے کہ صرف ان کی کارکردگی انہیں عہدے پر برقرار رکھ سکتی ہے۔
حالات بہت بدل گے ہیں۔ پہلے یہ ہوتا تھا کچھ ارکان اسمبلی کے کام نہ ہوتے یا ان کی سفارش پر افسروں کے تبادلے اور تقرریاں نہ ہوتیں تو وہ وزیراعلیٰ یااپنی پارٹی پر دباؤ ڈالنے کے لئے اپنا گروپ بنا لیتے تھے، علیحدہ بلاک بنانے کی دھمکی بھی دیتے تھے۔ جو اکثر کارگرثابت ہوتی اور ان کی بات مان لی جاتی۔ اب ارکان اسمبلی کو ایسی کوئی سہولت حاصل نہیں ہے بعض لوگ کہتے ہیں فارم 47کی جادوگری سے اسمبلیوں میں آنے والے سر نہیں اٹھا سکتے۔ وہ اب سیاسی خلیفے ہیں سیاسی حاکم نہیں ان کی اشک شوئی کے لئے وزیراعظم شہباز شریف، وزیراعلیٰ مریم نواز اور خود نوازشریف گاہے بہ گاہے ملاقاتیں کرکے احساس دلاتے رہتے ہیں کہ وہ مقتدر جماعت کے رکن ہیں لیکن انہیں اب یہ اجازت نہیں کہ وہ حکومت کو ڈکٹیشن دیں۔ ہم نے ایک ایسا زمانہ بھی دیکھا ہے جب ارکان اسمبلی کسی ضلع کا ڈی سی یا ڈی پی او تعینات کرانے کے لئے ایک گروپ بناتے تھے، درخواست لے کر 7کلب روڈلاہور جاتے اور بیٹھے بیٹھے آرڈر کراکے واپس آتے۔ اس کے بعد اپنے اضلاع میں ایک طرف میرٹ کی دھجیاں اڑواتے تو دوسری طرف اپنی دھاک بٹھانے کے لئے پولیس اور انتظامیہ کا بے دریغ استعمال کرتے۔ حالات ایسے بدلے ہیں کہ سرکاری افسروں نے سیاسی سفارشیں ڈھونڈنے سے توبہ کرلی ہے کیونکہ بعض اوقات ایسی سفارش صوبہ بدری تک لے جاتی ہے تو صاحبو! اگر سیاسی ڈیرے ویران مل رہے ہیں تو سمجھ جائیں، سیاسی خلیفوں کو وہ سرپرستی حاصل نہیں جو انہیں اپنے حلقوں میں بے تاج بادشاہ بناتی تھی۔