میں پو قدمے گھر کی طرف لوٹ گیا
پہلے بھی بتایا تھا اب پھر دہرائے دیتا ہوں کہ ہمارے محلے میں ایک اردو سپیکنگ بزرگوار رہتےہیں۔ غالباً دلی سے تعلق ہے۔ اردو زبان کا چٹخارا لینے گاہے ان سے بات چیت کر لیتا ہوں۔ عرصے بعد ان کی مزاج پرسی کا موقع ملا۔ میں بازار جا رہا تھا بزگوار اپنے دروازے پر کھڑے تھے۔ علیک سلیک کے بعد حالات کا پوچھا تو کہنے لگے :
"میاں کیا بتاوؑں لوگوں کے لیے کرونا بیماری نہیں ہنسی ٹھٹھا ہو گیا ہے۔ "
"کیا ہوا جی؟" میں نے دریافت کیا۔
بتانے لگے:" جس سے بات کرو آگے سےقہقہ اڑاتا ہے۔ پھبتی کہتا ہے۔
نوعمر و نوجوان، کم سن اور نادان تو رہے ایک طرف۔ سن رسیدہ، گرگ باراں دیدہ، کمر خمیدہ اور سنجیدہ فہمیدہ لوگ بھی گھروں میں ٹک کر نہیں بیٹھ رہے۔
باہر نکل کر دیکھیے۔ چل چلاو لگ رہا ہے۔ ہر ایک تلوے کھجلا رہا ہے۔ جوتے پر جوتا سوار ہے۔۔ سیر کا بھتنا سر پر چڑھ بیٹھا ہے۔"
" ہاں یہ تو ہے، لوگوں کو سمجھانا چاہیے۔"
" سمجھانا چاہیے؟ میاں کیا بات کرتے ہو۔ ان گڈھ لوگوں سے کون بحثے؟ کوئی ذی عقل سمجھائے تو الٹی آنتیں گلے پڑیں۔"
"آپ کے خیال میں پھر اس کا حل کیا ہے؟"
"میاں اس کا ایک ہی حل ہے۔ پولیس ان سیر کرنے والوں کی خبر لے۔ جو شریف زادے ہیں ان کی چپت گاہ پر دھول جمائے، کھوپڑی سہلائے۔۔ جو شہدے، لقے اور لونڈے لاڑیے ہیں ان کو بے رحمی سے ٹھونکے۔ ان کا اپنجر ڈھیلا کر دے۔
" بزگوار اچانک میری طرف متوجہ ہوئے۔ "
میاں ناصر، لگتا ہے تمھارے پاوں میں بھی پرکار کی گردش ہے۔ تمھیں بھی گھر میں چین نہیں پڑتا۔ اب کہاں کی سیر کی دھن سمائی ہے؟"
میں گڑ بڑا گیا:" جی، وہ دکان پر جا رہا ہوں۔ کچھ سودا سلف لینا ہے۔" "میاں سودا سلف تو بہانہ یے. میں کھڑکی میں سے ہر روز دیکھتا ہوں تم خراماں خراماں ہوا کھانے جا رہے ہوتے ہو۔ "
"جی وہ روزانہ ہی دکان پر جانا پڑتا ہے سودا سلف لینے"
"ہفتے بھر کا سودا ایک ہی بار کیوں نہیں اٹھوا لیتے۔ میاں، ہوش کی دوا کیجیے۔ کرونا نگوڑی موذی بیماری ہے. اپنا نہیں توگھر والوں ہی کا خیال کر لو۔ "
"جی بہتر۔" میری پیشانی عرق عرق ہو گئی۔ میں پو قدمے گھر کی طرف لوٹ گیا۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
.
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔