ای او بی آئی پنشنروں کی سن لو، اِس سے پہلے کہ احتجاج ہو!

 ای او بی آئی پنشنروں کی سن لو، اِس سے پہلے کہ احتجاج ہو!
  ای او بی آئی پنشنروں کی سن لو، اِس سے پہلے کہ احتجاج ہو!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گذشتہ دِنوں کرم کے مسئلہ پر کراچی اور کئی دیگر شہروں میں دھرنے دیے گئے، کراچی بڑا ہدف رہا اور ایک ہی شہر میں کئی اہم مقامات پر دھرنوں کی وجہ سے شہریوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ دھرنے والوں کو ہدفِ تنقید بھی بنایا گیا، مذاکرات کے علاوہ پولیس کارروائی سے بھی فرق نہ پڑا،وزراء تو وزراء خود وزیراعلیٰ بھی برہم ہوئے۔یہ دھرنے اس وقت ختم ہو گئے جب جرگہ میں فریقین کے درمیان امن معاہدہ ہو گیا،اس صورتحال پر بہت تنقید ہوئی کہ احتجاج کے نام پر پُرامن شہریوں کی زندگی اجیرن کر دی گئی۔اس حوالے سے مختلف حضرات کے درمیان تبادلہ خیال بھی ہوتا رہا،لاہور میں دوستوں نے بات کی، ماضی کی مثالیں دی گئیں تاہم احتجاج والوں کی وجہ سے شہریوں کی پریشانی اور کئی بار املاک کے نقصان پر بھی دُکھ اور کرب کا اظہار کیا گیا،اسی بات چیت کے دوران بعض حضرات نے توجہ دلائی اور کہا کہ یہ بالکل درست کہ پُرامن احتجاج کا یہ مطلب نہیں کہ آپ راستے بند کر کے بیٹھ جائیں،لیکن یہ سب کیوں ہوتا ہے۔اس کی وجہ کیا ہے اس پر بھی تو بات ہونا چاہئے۔ایک صاحب نے کہا مثال ہے کہ بچہ روئے نہ تو ماں بھی دودھ نہیں دیتی اور یہاں تو حالات یہ ہیں کہ حکومت جو بھی ہو احتجاج سے قبل اپیلوں پر توجہ نہیں دیتی۔ متاثرین چلاتے ہیں، پریس کانفرنسیں کرتے ہیں، کوئی توجہ نہیں دیتا،ایک صاحب کا کہنا ہے کسی کو (خصوصاً غیر سیاسی افراد) بھی شوق نہیں ہوتا کہ وہ سکون چھوڑکر بے چینی مول لے اور پھر انتظامیہ کی سختی بھی برداشت کرے،لیکن کوئی اس کے بغیر سنتا ہی نہیں، تو پھر متاثرہ لوگ کیا کریں،کہاں جائیں۔

اِسی سلسلے میں گذشتہ روز متاثرہ شہریوں اور سلیمی صاحب  نے ایک پیغام کے ذریعے توجہ دلائی اور شکوہ بھی کیا۔ انہوں نے کہا ”آپ ای او بی آئی پنشنروں کو بھول ہی گئے کہ اب لکھ نہیں رہے، میں نے گذارش کی کہ ایسا نہیں، لیکن لکھ لکھ کر تھک گیا کوئی سنوائی ہی نہیں ہوتی،حالانکہ ان پنشنروں کی پنشن میں اضافہ قومی خزانے سے نہیں ہونا۔یہ تو خود ان ریٹائرڈ لوگوں کے اس ثاثے سے ہو گا جو وہ اپنی ملازمت کے دوران اپنی محنت کی کمائی سے بڑھاپے کے لئے جمع کراتے رہے ہیں۔

ایک بزرگ نے مجھے یاد دلایا کہ اس حوالے سے ذکر کر چکے ہو تو پھر سے یاد دہانی کرا دو۔ تو قارئین اور اکابرین ملت اور ریاست اور حکومت کے درو بام والو!آج پھر بتاتا ہوں اور استدعا کرتا ہوں کہ محنت کشوں کا ایسا استحصال نہ کرو کہ خود ان کی رقوم سے اپنے حضرات کو فائدہ پہنچاتے رہو،لیکن جو مستحق اور حق دار ہیں ان کو محروم رکھو۔ تفصیل اس ا جمال کی یوں ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے فلاحی(غیر ملک)  ممالک سے یہ تصور لیا کہ لوگوں کو بڑھاپے میں سُکھ  دلانے کے لئے کوئی مستقل انتظام کیا جائے جو ایسا ہو کہ کسی پر بوجھ بھی نہ بنے۔بڑھاپے کی پنشن کا ایک باقاعدہ نظام وضع کیا گیا جس کے تحت  آجر، اجیر، اور حکومت کو حصہ دار بنایا گیا،کہ یہ تینوں ماہانہ کمیٹی ڈالیں، جمع ہونے والی رقم صرف اور صرف ان ریٹائر ملازمین کو ملے جو اپنی ملازمت کے دوران مخصوص رقم ہر ماہ جمع کراتے رہے ہیں۔اس نظام کو ای او بی  آئی کا نام دیا گیا تاکہ ایک ادارہ بنا کر سلسلہ جاری ہو،اسے قانونی شکل دی گئی جس کے تحت وہ نجی اور نیم سرکاری ادارے (جن کا بالائی انتظام حکومت کے سپرد ہو) ای او بی آئی کے پاس رجسٹرڈ ہوں گے۔اول شرط کم از کم25 سے زیادہ ملازمین ہیں، پھر ان اداروں کے ملازم، مالک اور سرکار ہر ماہ ایک مقررہ شرح سے اپنا اپنا حصہ جمع کرائیں گے جو انسٹیٹیویشن کے اکاؤنٹ میں جمع ہوتا رہے اور جب کسی رجسٹرڈ ادارے کا کوئی ملازم اپنی مدت ملازمت پوری کر کے ریٹائر ہو جائے گا تحقیق کے بعد  اسے ای او بی آئی سے ہر ماہ پنشن ملا کرے گی تاکہ وہ اپنا بڑھاپا گذار سکے۔یہ بھی طے تھا کہ ماہانہ پنشن میں حالات کے مطابق اضافہ ہو گا۔1974ء میں یہ پنشن ایک ہزار روپے ماہوار تھی اور پنشنر مطمئن بھی تھے،پھر حالات کے مطابق اس میں اضافہ ہوا اور کئی سال تک تین ہزار روپے ماہوار ملتی رہی،مہنگائی بڑھی،اضافہ ہوا تو احتجاج ہوا،بڑی تاخیر  سے یہ دس ہزار روپے ماہوار کی گئی جو مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہو جانے کے باوجود جوں کی توں ہے،حالانکہ چند سال قبل یہ فیصلہ ہو گیا اور نوٹیفکیشن بھی جاری ہو گیا کہ بڑھاپے کی یہ پنشن حکومت کی طرف سے مقرر کردہ اس کم از کم کم تنخواہ کے مطابق ہو گی جو مزدور کے لئے مقرر کی جاتی ہے۔اسی کے مطابق آجر،اجیر اور حکومت کے حصہ کی بھی دوبارہ تشریح کر دی گئی لیکن نہ معلوم وجوہات کی بناء پر نہ تو اس فیصلے پر عملدرآمد ہوا اور نہ ہی بڑھتی مہنگائی کے باوجود پنشن کی رقم میں اضافہ کیا گیا۔

اب اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے کہ جو ادارہ بنایا  گیا وہ ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹ انسٹیٹیوشن ہے، اس کا کام رجسٹرڈ اداروں سے ماہانہ حصہ وصول کرنا اور حق دار پنشنر حضرات میں تقسیم کرنا ہے۔یہ ادارہ بتدریج حاکموں کے اعزہ کی صنعت کا ذریعہ بنتا گیا، اس کا بورڈ آف ڈائریکٹر بنا، ریجنل  دفاتر بنائے گئے اور غیرضروری بھرتیاں کی گئیں جبکہ بورڈ اراکین، چیئرمین،ڈائریکٹرز کے علاوہ متعدد جنرل منیجرز کی آسامیاں تخلیق کی گئیں اور ان کے مشاہرے اور مراعات سرکاری اعلیٰ ترین حکام سے بھی زیادہ رکھے گئے، جو یہ سب وصول کر رہے ہیں، جبکہ افسر اور ملازم ضرورت  سے کہیں زیادہ ہیں اس ادارے کے پاس اربوں روپے جمع ہو چکے ہوئے ہیں یہ اربوں کی رقوم خورد برد بھی ہوتی ہیں۔ایک سابقہ چیئرمین قریباً پانچ ارب کے روپے کے فراڈ میں ملوث ہیں اور ان دِنوں ضمانت پر ہیں،ایک کیس سپریم کورٹ میں بھی زیر التواء  ہے، اگر کسی کی سنوائی نہیں تو وہ بوڑھے دو چار پنشنرز ہیں کہ جو مانگ مانگ کر تھک گئے، کوئی ان کا حق نہیں دیتا، اضافہ نہ تو قومی خزانے اور نہ ہی کسی کی جیب سے ہونا ہے۔یہ خود آجر اور اجیر  کی جمع شدہ رقم سے اضافہ ہو گا جو نہیں کیا جاتا،خود چیئرمین، ڈائریکٹرز، منیجرز، ریجنل ڈائریکٹرز اور ملازمین کی فوج ظفر موج مستفید ہو رہی ہے۔

ستم تو یہ ہے کہ اس ادارے کا کنٹرول وزارتِ خزانہ کے پاس ہے اور ماضی میں بھی اضافہ ہوا،وہ وزیر خزانہ کے احکام کے ذریعے ہوا، موجودہ وزیر خزانہ وہ ٹیکنو کریٹ ہیں، جنہوں نے ای او بی آئی سے لاتعلقی ہی کا اعلان کر دیا،ان سے کوئی پوچھے کہ اس ادارے میں چیئرمین سے نیچے تک تقرریاں کون سا محکمہ کرتا ہے۔

اب سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ ان سینئر شہریوں نے بھی ایسوسی ایشن بنا کر مطالبہ شروع کر رکھا ہے جسے بہت پذیرائی مل رہی ہے، اس ایسوسی ایشن نے اب اعلان کیا ہے کہ پنشنروں سے رابطے کر کے احتجاج، جلوس، مظاہرے اور دھرنے کا پروگرام بنایا جائے گا کہ اس کے بغیر کوئی سنتا ہی نہیں، میری عرض ہے کہ ایسا وقت آنے سے قبل عوامی بہبود کا دم بھرنے والے وزیراعظم ہی توجہ دیں تاکہ کسی دھرنے،مظاہرے اور اس کے نتیجے میں بوڑھوں پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی نوبت نہ آئے۔آخر میں ایک تجویز پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں،جو پہلے بھی عرض کر چکا تھا،ای او بی آئی کا موجودہ ڈھانچہ ختم کرکے اسے ڈاکٹر امجد ثاقب کے سپرد کر دیا جائے،اس کی نظم و نسق ہو اضافی عملہ معہ افسروں فارغ کیا جائے،کہ بچت کے ساتھ کرپشن ختم ہو۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -