دریا پار جانے والی” جھولا لفٹ“۔۔۔ہنزہ کے رات دن ...قسط نمبر 9

دریا پار جانے والی” جھولا لفٹ“۔۔۔ہنزہ کے رات دن ...قسط نمبر 9
 دریا پار جانے والی” جھولا لفٹ“۔۔۔ہنزہ کے رات دن ...قسط نمبر 9

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app



بازار میں دکانیں کھل رہی تھیں اور کچھ چہل پہل بھی تھی۔پُل تک راستہ ذرا چڑھائی کا تھا۔آ گے آ کر بائیں ہاتھ ایک ادھو ری عمارت میں دریا پار جانے والی جھولا لفٹ نظر آ ئی۔ ندیم کی تجویز پر ”جھو ٹے“ (جھولے) لینے کا فیصلہ کیا گیا۔یہ ایک مختلف لفٹ تھی۔ ایوبیہ اور پتر یاٹا کی چئیر لفٹ سے با لکل مختلف۔ مقامی طور پر بنی ہو ئی ، پنجرہ نمااور ایک مو ٹے آ ہنی تار سے جھولتی ہو ئی۔ عمارت کے عقب میں لفٹ پر سوار ہو نے کے لیے ایک پلیٹ فارم تھا۔ جس پر بڑی سی آہنی چرخی نصب تھی جس کے گرد لفٹ لانے،لے جا نے والا تار لپٹا ہوا تھا۔ ایک خا لی کمرہ گزر کر ہم پلیٹ فارم پر پہنچے تو لفٹ دریا کے پرلے سرے پر تھی اور دیکھنے میں بالکل چھو ٹا پنجرہ لگتی تھی۔ اب سوال لفٹ اِدھر بلا نے کا تھا۔ آواز اتنی دور جا نہیں سکتی تھی اور کمرے میں کو ئی فون یاآ پریٹر قسم کی چیز بھی نہیں تھی۔ ایک مقامی آدمی نے ہماری پریشانی دیکھ کر زمیں سے ایک سوکھی مسواک اٹھا ئی اور اس سے لو ہے کے تار کو بجایا جس سے معمولی سی آواز پیدا ہو ئی جس کا دریا پار پہنچنا نا ممکن لگتا تھا۔ حیرت انگیز طو ر پر فورا ً ہی آ ہنی پہیہ گھو منے لگا اور لفٹ آ ہستہ آ ہستہ ہماری طرف آ نے لگی۔ 
یہ پرا نے زمانے میں دلہنوں کو لے جانے والی پالکی سے مشا بہ لو ہے کا چِب کھڑبّا ڈبا تھا جس میں 6 آ دمیوں کو پھنس کر آ منے سامنے، آ نکھوں میں آنکھیں اور ٹانگوں میں ٹا نگیں ڈال کر بیٹھنا پڑتا تھا۔تری ٹانگیں مری ٹانگیں، مری ٹا نگیں تری ٹانگیں۔ فرش لکڑی کے تختوں کا تھا اور آگے پیچھے آ مد و رفت کے راستے پر لو ہے کا جنگلا لگا ہوا تھاجسے لفٹ چلنے سے پہلے سرکاکر بند کیا جا سکتا تھا۔ یہ ہمارے حا لات کی طرح ایک مخدوش اور مشکوک لفٹ تھی۔ اس ڈولی میں سوار ہو تے ہو ئے ہم نے ہیر کی طرح چیخیں نہیں ماریں بل کہ انھیں ضبط کرنے کی کام یاب کوشش کی ۔ ڈر سے ہمارے دل ذرا تیز دھڑکنے لگے تھے۔ میں نے پہا ڑی علا قوں میں بار ہا لوگوں کو اس طرح کی ڈو لیوں میں دریا عبور کر تے دیکھ کر اس میں سوار ہو نے کی خواہش کی تھی اس لیے اللہ کا نام لے کر سوار ہو گیا۔ ہمارے سوار ہو نے کے بعد اسی مقامی آدمی نے مسواک سے دوبارہ تار بجا یا اور لفٹ دھڑ دھڑ اتی اور ہچکو لے کھا تی چبو ترے سے پرے کھسکنے لگی۔ 
پلیٹ فار م سے آگے نکلتے ہی لفٹ کے نیچے ایک خلا ءپھیلنے لگا، گدلا، مٹیا لا اور متحرک خلاءجو بپھرا ہوا دریائے سندھ تھا۔ جب یہ لفٹ سطح ِ آ ب سے کا فی بلندی پر دریا کے وسط میں پہنچی تو مجھے اپنے فیصلے پر کچھ پشیمانی سی ہو ئی۔ نیچے گہرائی میں تیز بہتے پا نی پر نظر پڑتی تو ٹانگیں کمزور پڑ نے لگتیں۔دریا کے گدلے پا نی میں ابال اٹھ رہے تھے اور بہت سے چو بی شہ تیر اور گھروں کا ملبا بہتا جا رہا تھا۔۔۔ لیکن اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔
آ خر ہم دوسرے کنارے پر آ لگے۔ یہا ں کیبن میں ایک نو جوان آ پریٹر مو جود تھا۔ لفٹ سے اتر کر ایک عجیب سی خو شی کا احساس ہوا، خطرے سے بچ نکلنے کی خوشی کا احساس۔ اب بادل چھٹ گئے تھے اوردھوپ نکل آ ئی تھی۔ سا منے پتھروں سے بنا ایک کچا راستہ تھا جو اوپر کسی گاو ں کو جاتا تھا۔ ہم پتھروں پر بیٹھ کر منظر دیکھنے لگے۔ دور تھا کوٹ پُل نظر آ تا تھا جس کے متعلق افواہ تھی کہ سیلا بی ریلے کی ٹکّر سے اس کے 2 ستون ہل گئے ہیں اور اسے ہر طرح کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ اس بلندی سے تھا کوٹ واقعی ایک خوب صورت علاقہ دکھا ئی دیتا تھا جو صبح کی نرم دھوپ میں ہما رے سامنے دور تک پھیلا ہوا تھا۔موسم کھلنے سے ہماری سراسیمگی اور پریشانی کافی حد تک کم ہو گئے تھے۔ آ دمی کے مزاج پر دلی کیفیت ہی نہیں موسم بھی اثر انداز ہو تا ہے۔ گاوں کا راستہ چڑھائی کاتھا۔فا صلے کا بھی اندازہ نہیں تھااور اندیشہ تھا کہ مقامی لوگ ہماری آ مد کو شاید نا پسند کر یں۔ اس لیے کچھ دیر ٹھہر کر و اپسی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ 
واپسی پر بھی دریا کا خوف کم نہیں ہوا۔ دریا ہمیں لفٹ سمیت اپنی طرف مقنا طیس کی طرح کھینچتا تھا اور دریا میں پڑ تے بھنور قریب آ تے محسوس ہو تے تھے۔ پلیٹ فارم آ یا تو تنے ہوئے اعصاب ڈ ھیلے پڑے اور ہم دو بارہ بازار میں آ گئے۔ ( جاری ہے )