رواں دواں ہے زندگی
اکتوبر کے آخری ہفتے مجھے کسی ضروری کام کے سلسلے میں اسلام آباد جانا تھا۔ کہتے ہیں سفر وسیلہ ء ظفر ہوتا ہے آپ کسی بھی کام کے لئے سفر پر نکلیں تو نکلتے ہوئے یہ دعا ضرور کرلیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے حفظ و امان میں رکھے اور خیریت سے منزل پر پہنچائے۔ اسلام آباد کاسفر موٹروے پر کرتے ہوئے جہاں اردگرد کے خوبصورت کھیت کھلیان سرسبز و شاداب نظر آئے وہاں موٹر وے پر ایک ٹرک اُلٹا گرا ہوا بھی نظر آیا جسے دیکھ کرمیرے دل سے یہی دعا نکلی کہ اللہ کرے اس میں بیٹھے تمام افراد خیریت سے ہوں۔ عموماً موٹروے پر ڈرائیونگ کرتے ہوئے عام عوام قوانین کو ضرور Followکرتے دکھائی دیتے ہیں مگر بس اور ٹرک وغیرہ کے ڈرائیوروں کے لئے دعائیں ہی کی جا سکتی ہیں کہ اللہ ان کو ہدایت دے۔ ہم سارا راستہ تو انتہائی محتاط انداز سے ڈرائیونگ کرتے اسلام آباد خیریت سے پہنچ گئے مگر وہاں اپنی رہائش کے چند منٹ کے فاصلے پر آخری موڑ پر ایک موٹرسائیکل سوار نوجوان کئی موٹرسائیکلوں کے ساتھ ڈاچ کرتا سب کو گراتا اور آخر میں بچوں سے بھری موٹربائیک کے ساتھ ٹکراتا ہمارے سامنے ہماری گاڑی کے ساتھ آن ٹکرائے…… موٹرسائیکل کے بچوں کو بہت مشکل سے زمین پر سے اٹھایا ماں زخمی ہوئی نوجوان نے اپنی موٹربائیک سیدھی کی اور بڑی چابک دستی سے یہ جا وہ جا…… گاڑی کو بے حد نقصان پہنچا مگر صبر کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
اسلام آباد ایسا شہر ہے کسی کو راس آتا ہے اور کسی کو ہاتھ جوڑنے پڑتے ہیں۔ خیر اللہ کی رحمت سے میں جس کام گئی تھی وہ کام ہو گیا۔ میں ڈاکٹر نجیبہ عارف سے ملنا چاہتی تھی ڈاکٹر شیر علی نے ایک جگہ کا بتایا جہاں ایک باوقار تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا مگر وہ اس جگہ کی لوکیشن بھیجنا بھول گئے اور پھر فون کا سگنل بھی بند رہا وہاں پہنچ کر بھی تقریب پر نہ پہنچ سکے جس کا بے حد افسوس رہا۔ ڈاکٹر شیر علی سے مجھے یہ کہنا ہے کہ ایسا اگر لاہوریئے کریں تو شایدآپ دوبارہ یہاں کا رخ کرنا مناسب نہ سمجھیں۔
اسلام آباد میری پیاری چار دوستوں کا مسکن بھی ہے جن سے ملے بغیر میرا سفر ادھورارہتا ہے اور وہ ہیں نعیم فاطمہ علوی، منیرہ شمیم، پروفیسر تحریم اور پروفیسر ڈاکٹر اعظمیٰ سلیمی۔ یہ کوئی معمولی خواتین نہیں ہیں یہ خواتین رائٹرز ہیں نعیم فاطمہ علوی نے حال ہی میں سلمیٰ آپا پر کتاب پاکستانی ادب کے معمار سلمیٰ اعوان، شخصیت اور فن تحریر کی ہے اور یہ کتاب اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام شائع ہوئی ہے جس کی صدرنشین ڈاکٹر نجیبہ عارف ہیں۔ یہ سلمیٰ اعوان پر ریسرچ کرنے والوں کے لئے معتبر ماخذ ثابت ہو گی۔یہ اکادمی ادبیات کا کتابی سلسلہ ہے جس کے تحت تمام پاکستانی زبانوں کے مشاہیر اور اہم اہلِ قلم کی شخصیت اور فن پر تعارفی کتب شائع کی جاتی ہیں۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف نے جشنِ صوفی تبسم پر فرمایا تھا کہ صوفی غلام مصطفےٰ کی شخصیت اور فن کے حوالے سے بھی کتاب کا اہتمام کیاجائے گا۔ اس طرح پاکستانی ادب کے معماروں کی علمی و ادبی خدمات میں اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے خراجِ تحسین پیش کرنا بھی مقصود ہے۔ اس کے لئے صوفی تبسم اکیڈیمی ڈاکٹر نجیبہ عارف کی بے حد مشکور ہے۔
میں تو بات کررہی تھی اپنی ہمجولیوں کی نعیم فاطمہ علوی معروف افسانہ نگار ہیں ان کا ایک افسانہ جو انہوں نے پروفیسر ڈاکٹر عطیہ سعید کے گھر ان کے اعزاز میں دی گئی محفل میں سنایا تھا ”ابا کا سویٹر“ جو میں آج تک نہیں بھول پائی نعیم فاطمہ علوی تقریباً 10کتابوں کی مصنفہ ہیں جبکہ منیرہ شمیم جن کے نام سے ظاہر ہے کہ وہ معروف ادیب شاعرہ شمیم صاحب کی شریکِ حیات ہیں۔ شمیم صاحب مرحوم کی ایک نظم سب پر بھاری ہے ”کبھی ہم خوبصورت تھے‘ منیرہ شمیم بھی آٹھ کتابوں کی مصنفہ ہیں جبکہ پروفیسر تحریک اکنامکس کی معلمہ ہیں اور مقامی کالج میں پڑھاتی رہیں ہیں انہیں پنجابی پر عبور حاصل ہے اور وہ پنجابی کلام،پٹے، بولیاں گیت انہیں ازبر ہیں۔ جنگی پنجابی ترانے 1965ء کے حوالے سے انہیں آج بھی یاد ہیں اور اکثر ہم ان سے سنتے اور محظوظ ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر عظمیٰ سلیمی بھی کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں اور سکردو کالج کی پرنسپل بھی ہیں۔ کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ان کے شوہر کچھ ماہ پہلے انتقال کر گئے اور آج کل وہ عدت کے دن گزار رہی ہیں اللہ انہیں اور ان کے خاندان کو صبر جمیل عطا کرے، آمین۔ میرے اسلام آباد پہنچنے پر میری دوستوں نے اپنی مصروفیات کے باوجود میرے لئے وقت نکالا،منع کرنے کے باوجود رات کے کھانے کا اہتمام کیا اور ہر دوست نے اپنی اپنی ہمت کے مطابق ڈشیں تیار کیں۔ یوں انہوں نے پُرلطف عشائیہ تیار کیا اور مل بیٹھ کر کھانا کھانے سے ہر ڈش کے لطف کو دوبالا کر دیا۔بقول نعیم فاطمہ علوی کہ ہم سب لکھاری سہیلیاں صرف کورے کاغذ پر خیالات، تجربات اور مشاہدات کے عکس بنانا ہی نہیں جانتیں، پُرلطف کھانے بنانے میں بھی ماہر ہیں۔ میں تو بس اتنا کہہ سکی کہ ایسی دوستیں قسمت والوں کو نصیب ہوتی ہیں۔ نعیم فاطمہ نے کہا سچی بات تو یہ ہے کہ بقول اشفاق ورک ”ملتے رہیں گے تو جئیں گے“۔ اس کا یہ بھی مشورہ ہے کہ ہر مہینے ایک بار صرف اور صرف اپنے آپ کو بہلانا اور اپنی تواضع کرنا بہت ضروری ہے۔
آخر پر ہم سب نے ڈھولکی کی تھاپ پر گایا ”توساں نوں مان وطنا دا، اسی آں یار پردیسی“ ان پنجابی کے گیتوں اور ٹپوں میں سب کی آواز کا جادو تھا ہمیں اپنے بچپن کا دور شدت سے یاد آنے لگا۔ سب کی محبتیں اور دعائیں سمیٹ کر ہم نے گھر کی راہ لی۔صبح اُٹھ کر اسلام آباد کو خداحافظ کہہ کر موٹروے کی راہ لی۔ موٹروے پر ہم نے ابھی کلرکہار کو کراس کیا ہی تھا کہ ہمیں دور سے سموگ کی تہہ نظر آنے لگی تھی۔ جو دور زمین سے اٹھتی ہوئی درختوں کے درمیان سفید گرے کلر میں موجود تھی۔ جن افراد کو Asttema(دمہ)بیماری ہوتی ہے اس سوزش کی وجہ سے پھیپھڑوں میں آکسیجن کی مقدار کم ہو جاتی ہے اور سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔ چھوٹے نقصان دہ زرات اکثریت میں ایندھن جلانے کی وجہ سے بھی ہوتے ہیں۔ یہ آپ کی گاڑیوں کے ایندھن جلنے سے فیکٹریوں میں جنریٹر اور بوائلر چلنے سے پاور پلانٹ سے جو Fuelجلتا ہے وہ Gassہو یا Oil، ان سے چھوٹے چھوٹے زرات بنتے ہیں۔ ہوا کی کم رفتار اس سموگ کو حرکت دینے میں رکاوٹ ثابت ہوتی ہے۔ سارے راستے موٹروے کو سموگ نے گھیرے رکھا جب لاہور پہنچے تو افسوس ہوا کہ لاہور میں بھی سموگ نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں جو بچوں اور عمر رسیدہ لوگوں کے لئے بہت مضر صحت ہے۔