وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر60
مہربی ممبئی کے قرب میں ایک چھوٹی سی ریاست تھی جو علم و ادب کے علاوہ کھیل کے میدان میں اپنی بساط سے بڑھ کر گوہر نایاب رکھتی تھی۔ ریاست کے دربار سے کئی گتکا باز اور پہلوان منسلک تھے۔ بھیم دیو اور منگلا رائے مہربی کے درباری شاہ زوروں کے جرنیل تھے۔ منگلا رائے، بھیم دیو سے زیادہ گھاگ اور تجربہ کار تھا۔ وہ شاہ زوری کے میدان کا ہی جغادری نہیں تھا بلکہ اکھاڑوں کی سیاست کرنا بھی جانتا تھا۔ بھولو برادران نے جب ممبئی میں قدم رکھے تو رانی مہربی کو بھنک پڑ گئی۔ وہ خود بھی شاہ زوروں کی قدرداں تھی۔ اس نے راجہ کو بتائے بغیر بھولو برادران کو راجہ کی طرف سے ریاست میں آنے کی دعوت بھیج دی تھی۔ دوسرے روز رانی نے راجہ کو بتایا تو وہ بہت خوش ہوا۔
’’رانی آپ بھی کمال کرتی ہیں۔جو ہمارا دل چاہتا ہے بھگوان کی سوگند، آپ بالکل وہی کرتی ہیں‘‘۔ راجہ نے اپنی رانی کی خوشنودی چاہی۔ ’’دیکھیں ناں رانی یہ خبر تو ہمیں بھی مل گئی تھی کہ بھولو اپنے باپ اور بھائیوں کے ساتھ ممبئی میں ٹھہرا ہوا ہے مگر ہم جان بوجھ کر نہیں بول رہے تھے۔ ہم تو یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ ہمارے دل کی حالت کا اندازہ ہماری چہیتی رانی کو بھی ہوتا ہے کہ نہیں‘‘۔
’’میرے دیوتا اتنی مت چھوڑیں‘‘۔ رانی لاڈ نچھاور کرتی ہوئی بولی۔ ’’ہمیں سب خبر ہے کہ ہمارے پتی مہاراج کب کیا سوچ رہے ہوتے ہیں‘‘۔ پھر وہ باتوں کا رخ بدلتے ہوئے بولی۔ ’’آپ نے کیا سوچا ہے۔بھولو کا مقابلہ کون کرے گا‘‘۔
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر59 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’ظاہر ہے بھیم دیو اور منگلا رائے ہی اس طوفان سے ٹکر لے سکتے ہیں‘‘۔
’’تو پھر ان دونوں کو ابھی بلوا لیں۔‘‘ رانی نے کہا۔ ’’مجھے تو معلوم ہو ہمارے شاہ زور کیا کہتے ہیں‘‘۔
راجہ نے پیغام بھجوایا تو دونوں شاہ زور پہنچ گئے۔ راجہ نے انہیں بھولو کے ریاست میں آنے کی اطلاع دی تو رانی نے کہا۔
’’بھیم دیو اور منگلا رائے! تم دونوں اس وقت ہماری ریاست کے دو بڑے شاہ زور ہو۔ بھولو سے اب تمہیں دونوں کو ٹکرانا ہے‘‘۔
’’دونوں کی کیا ضرورت ہے مہارانی حضور!‘‘ بھیم دیو خم ٹھونک کر بولا۔ ’’میں ہی اس سورمے کیلئے کافی ہوں‘‘۔
’’ہاں۔۔۔ ہاں بھیم دیو ٹھیک کہتا ہے‘‘۔ منگلا رائے خلاف توقع ہکلا کر بولا۔
رانی نے تعجب سے منگلا رائے کی طرف دیکھا۔ وہ خوفزدہ دکھائی دے رہا تھا۔رانی نے درشتگی سے کہا۔ ’’منگلا رائے! بنارس کی ٹھنڈی فضاؤں میں پلنے والے پہلوان کا یوں خوفزدہ ہونا ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ کیا تم بھولو سے ڈرتے ہو؟‘‘
’’نہیں مہارانی حضور!‘‘ منگلا رائے نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ ’’میں خوفزدہ ہرگز نہیں۔ میں تو دور اندیشی کی بات کہنا چاہتا ہوں‘‘۔
رانی نے استفہامیہ انداز میں منگلا رائے کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’منگلا رائے، تم کہنا کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’دراصل میں رانی حضور کو اس طوفان کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جو بھولو کی شکل میں ہماری ریاست میں وارد ہونیوالا ہے۔ ہمیں اس طوفان کو روکنے کی بجائے راستہ دیدینا چاہئے۔ کیا ضرورت ہے اس سے ٹکرانے کی‘‘۔
’’منگلا رائے!‘‘ رانی زخمی شیرنی کی طرح دھاڑی۔ ’’دربار کا نمک کھا کھا کر تم ہڈ حرامی پر اتر آئے ہو۔ کیا اب تم صرف درشنی پہلوان ہو۔ تمہارا یہ کہنا ہماری توہین ہے۔ تم نے کیا سوچ کر یہ بات کی ہے۔ ہم تمہیں اس عذر پر سخت سے سخت سزا بھی دے سکتے ہیں۔ تم ایک پہلوان سے مقابلہ کرنے سے کترا رہے ہو۔ کیا یہی تمہاری استادی ہے۔ کیا یہی تمہارا سبق ہے جو تم ہمارے پہلوانوں کو سکھا رہے ہو اور ہماری دولت برباد کر رہے ہو‘‘۔
منگلا رائے کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ وہ جانتا تھا کہ رانی جو کہہ دے کر کے دکھاتی ہے۔ اس نے اپنا سر جھکا دیا اور بولا۔ ’’ماتا رانی کو خفا کرنا میرا مقصد نہیں۔ میں اس سورمے سے ٹکرانے کیلئے خود بے تاب ہوں‘‘۔
راجہ مہربی نے بھی اپنے شاہ زور جرنیل کی درگت بناتے ہوئے کہا۔ ’’اب کیسی بے تابی منگلا رائے! ہم نے تمہیں احساس دلایا تو تم فوراً مان گئے۔دیکھو بھیم دیو تم سے ایک درجہ نیچے ہے مگر وہ بھولو سے ٹکرانے کو مچل رہا ہے اور ایک تم ہو جو بگلے کی طرح سر چھپانے کی کوشش کر رہے ہو۔ جاؤ اور جا کر بھولو سے ٹکرانے کی تیاری کرو۔ اب پہلا مقابلہ بھیم دیو کا ہو گا اور یہ ہار گیا تو پھر تمہیں بھولو سے ٹکرانا ہو گا‘‘۔ راجہ نے اپنا حکم صادر کیا تو دونوں شاہ زور اکھاڑوں میں چلے گئے۔
پہلوانوں کی خوراک بڑھا دی گئی۔ انہیں ایک ہفتہ تک تیاری کا وقت ملا تھا۔ ایک ہفتہ بعد بھولو برادران ریاست میں وارد ہوئے۔ بھیم دیو اور منگلا رائے نے ریاستی دستور کے مطابق مہمان پہلوانوں کا استقبال کیا۔ دوسرے روز بھیم دیو کی بھولو سے کشتی طے پائی۔ بھیم دیو کی شکست کے بعد منگلا رائے کو بھولو سے ٹکرانا تھا مگر راتوں رات ہی منگلا رائے نے کام کر دکھایا۔ وہ بھولو کے خلیفہ بلو کے پاس پہنچا اور اسے قائل کر لیا کہ وہ بھولو سے مقابلہ ریاست مہربی کی بجائے بنارس ممبئی میں کرے گا خلیفہ بلو درویش پہلوان تھا۔وہ اکھاڑوں کی سیاست سے نابلد تھا۔ پھر بھی اس نے پوچھا۔
’’مگر اس سے کیا ہو گا؟‘‘
’’سوال یہ کریں پہلوان جی کہ کیا نہیں ہو گا‘‘۔ منگلا رائے نے ہتھیلی پر سرسوں جماتے ہوئے کہا۔ ’’اب دیکھیں ناں۔ ریاست مہربی چھوٹی سی تو ہے۔ یہاں کشتی دیکھنے والے اتنے زیادہ نہیں ہوں گے جتنے بنارس یا ممبئی میں ہو سکتے ہیں۔اب بھولو اتنا بھی گیا گزارا نہیں کہ چھوٹی سی ریاست میں آ کر اپنا فن دکھائے۔بنارس میں اس کا اور میرا مول زیادہ لگے گا‘‘۔
’’ہاں بات تو تمہاری ٹھیک ہے۔خیر اب ایسا ہی ہو گا‘‘۔ خلیفہ بلو نے حامی بھر لی۔ پھر جب خلیفہ نے یہی بات حمیدا پہلوان سے کی تو اس نے دوٹوک کہہ دیا۔
’’خلیفہ جی آپ تو بڑے ہی سیدھے بندے ہیں۔ آپ کیا جانیں سیاست کو۔ منگلا رائے اگر واقعی شاہ زور ہے تو اسے یہ بات نہیں کہنی چاہئے۔ پھر اب آپ نے حامی بھر لی ہے تو اس کی بھی لاج رکھنی ہے‘‘۔
بھولو بھیم دیو کو دیکھ کر بڑا مطمئن دکھائی دے رہا تھا۔ حمیدا پہلوان نے اس کے اطمینان کو تاڑ لیا اور اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
’’بھولو پتر تو بڑا خوش دکھائی دے رہا ہے۔ کیا کوئی خزانہ ہاتھ آ گیا ہے‘‘۔
’’نئیں ماما جی! خزانہ تو نہیں مگر ایک بوہل ہاتھ آ گیا ہے‘‘۔ بھولو نے بے اعتنائی سے کہا۔
’’بوہل سے تیری مراد بھیم دیو تو نہیں ہے‘‘۔ حمیدا پہلوان نے پوچھا۔
’’اور کیا ماما جی! آپ نے بھی کیا خوب انتخاب کیا ہے‘‘۔ بھولو نے کہا۔ ’’گوشت کا پہاڑ دکھائی دیتا ہے۔گدگدی کروں گا تو نیچے گر جائیگا‘‘۔
’’اوئے بھولو عقل کو ہاتھ مار پتر! توبہ کر توبہ‘‘ حمیدا پہلوان نے کہا۔ ’’حریف کو کمزور نہیں سمجھنا چاہئے۔ ایسی غلطی کرنیوالا ہمیشہ پسوڑی میں پڑ جاتا ہے‘‘۔
’’ماما جی! اس بھیم دیو کے پتر نے مجھے کیا پسوڑی ڈالنی ہے۔ بس میں یوں گیا اور ایسے آیا سمجھیں‘‘۔
حمیدا پہلوان کو بھولو پر بے حد غصہ آیا۔ ’’اوئے کم عقلا تو بھی تعلّی باز بن گیا ہے۔ ابھی تو نے کیا کیا ہے۔ ہمیں دیکھ، اتنے پہاڑ گرانے کے باوجود پھر بھی حریف کو کم تر نہیں سمجھتے اور ایک تو جمعہ جمعہ آٹھ دن آیا ہے بڑا پہلوان۔ چل ذرا لنگوٹا باندھ اور آ اکھاڑے میں۔ پترا میں تو بوڑھا ہونے کے باوجود تیسرے جیسوں کو نچا کر رکھ دوں۔ تو اگر میرے گوڈے میں سے ہی نکل جائے تو مان جاؤں‘‘۔
بھولو نے ماموں کی خفگی پر مزید بولنے کی جرات نہ کی اور خاموشی سے لنگوٹ کس لیا۔ اسی میں اس کی عافیت تھی۔ پہلے بھی جب کبھی بھولو سے ایسی حرکت ہو جاتی تو حمیدا پہلوان اسے لنگوٹ کسا کر اپنے مقابل لے آتا۔
بھولو جب حمیدا پہلوان کے مقابل ہوا تو امام بخش اپنے دوسرے بیٹوں اکرم، گوگا، اعظم، اچھا اور حسو کو مخاطب کر کے بولا۔
’’لو اب شامت آئی ہے بھولے کی۔ آج دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائیگا‘‘۔ بھولو نے برق رفتاری سے ماموں کے گرد چکر کاٹنا چاہا۔ ابھی وہ چکر پورا بھی نہ کر پایا تھا کہ حمیدا پہلوان نے جھپٹ کر اسے قابو کیا اور جن جپھا مار کر نیچے گرا دیا۔ پھر اسی دیر پر موقوف نہیں کیا بلکہ اپنا بھاری بھر کم گوڈا اس کے سینے پر رکھ کر دھاڑا۔
’’ذرا نکل کر دکھا تو تجھے مانوں‘‘۔
بھولو نے دید لحاظ ترک کر دی اور پوری قوت سے گرفت سے نکلنا چاہا مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔ امام بخش نے یہ منظر دیکھا تو تالیاں بجانے لگا۔ پھر اس نے حمیدا پہلوان کو الگ ہونے کا اشارہ کیا۔ حمیدا پہلوان نے بھولو کو اٹھایا اور نرمی سے بولا۔
’’بھولو، اپنی طاقت اور فن پر کبھی گھمنڈ نہ کرنا۔ یہ تو بڑے بڑوں کا نیست مار دیتا ہے۔ تو بڑی ہمت میں ہے۔ یہ میں ہی جانتا ہوں۔ میرا گوڈا برداشت کرنا کسی کے بس میں نہیں تھا۔ ایک تو ہی ہے جس نے پہاڑ کو برداشت کر لیا ہے‘‘۔
بھولو نے ندامت سے سر جھکا لیا اور خاموشی سے اکھاڑے سے نکل گیا۔
***
بھیم دیو مست ہاتھی کی طرح جھومتا ہوا اکھاڑے میں داخل ہوا۔ بھولو نے قرمزی جانگیا زیب تن کیا ہوا تھا۔ دستور کے مطابق دونوں راجہ کو سلامی دینے کیلئے اسٹیج کی طرف گئے۔رانی مہربی راجہ کے پہلو میں بیٹھی تھی۔ اس نے گہری نظروں سے بھولو کو دیکھا۔ بھولو رانی کی آتشیں نظروں سے خود کو جھلسانے سے محفوظ رکھنے کیلئے سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔ بھیم دیو آگے بڑھا اور راجہ اور رانی کے چرن چھو کر واپس اکھاڑے میں آ گیا۔ بھولو کو بھی اسی دستور میں سے گزرنا تھا۔ وہ ایسے دستور کا باغی تھا۔اس نے سلام کرنے پر ہی اکتفا کیا۔ راجہ کو یہ طرز آداب ناگوار گزرا۔ اس نے امام بخش پہلوان سے کہا۔
’’پہلوان جی! کیا آپ نے بھولو کو دربار کے آداب نہیں سکھائے‘‘۔
امام بخش پہلوان دھیے لہجے کا پرسکون انسان تھا۔اس نے راجہ سے کہا۔
’’حضور! بچہ ہے۔سب کچھ سیکھنے کے باوجود اپنا ہی کیا کرتا ہے‘‘۔
اس سے قبل کہ راجہ مزید بولتا، رانی نے کہا۔ ’’چھوڑئیے حضور! بھولو مسلمان ہے وہ بھلا ہمارے چرن کیوں چھوئے گا‘‘۔
بھولو واپس اکھاڑے میں پہنچا اور منصف کی اجازت پاتے ہی بھیم دیو پر جھپٹا۔ بھیم دیو نے اس جوالا مکھی کو ہاتھ پر روکا اور بھولو کو کھڑا گھسا مار دیا۔ بھولو کی عقل ٹھکانے آ گئی۔ وہ جسے بوہل تصور کر رہا تھا وہ حقیقتاً لوہے کا چنا تھا۔ اس نے بھولو کو اکھیڑ لگائی۔ بھولو نے جھٹ توڑ پیش کیا۔ اگر وہ پھرتی نہ دکھاتا تو بس گیا تھا۔ بھولو نے اب نپے تلے انداز میں بھیم دیو کا محاصرہ کیا اور اس کے جانگئے میں ہاتھ پھنسایا اور ٹانگ مار کر نیچے گرا لیا۔ بھیم دیو نے نیچے بھی دم نہ لیا اور حتٰی المقدور بچنے کی کوشش کی مگر جلدی ہی بھولو نے اس کی گردن پر گوڈا رکھا اور اس پہاڑ کی بازی لگوا دی۔بھولو کو یہ عمل کرتے ہوئے دانتوں پسینہ آ گیا۔ کشتی خلاف معمول پندرہ منٹ جاری رہی۔ راجہ اور رانی نے بھولو کو انعامات سے نوازا اور اعلان کیا کہ اب تین روز بعد بھولو کا منگلا رائے سے مقابلہ ہو گا۔
دوسرے ہی دن راجہ اور رانی کو منگلا رائے کے فرار کی خبر ہو گئی۔ رانی تو غیض و غضب کی تصویر بن گئی۔اس نے ہرکارے دوڑائے تو پتہ لگا کہ منگلا رائے ممبئی جا چکا ہے۔
’’مہاراجہ حضور منگلا رائے نے ہماری ناک کٹوا دی ہے۔ میں اس کو بخشوں گی نہیں۔ ’’رانی نے تہیہ کر لیا کہ اب جونہی منگلا رائے ہاتھ لگا اسے قید میں ڈال دے گی۔ بھولو اور حمیدا پہلوان اپنے ساتھیوں سمیت ممبئی پہنچ گئے اور منگلا رائے کے ٹھکانے کا پتہ کرایا۔منگلا رائے کو خبر ملی کہ بھولو حسب وعدہ ممبئی آ چکا ہے تو وہ بنارس نکل گیا ۔ بھولو نے حمیدا پہلوان سے کہا۔
’’ماما جی! کیا خیال ہے ذرا بنارس کی صبح کی سیر کو نہ نکل جائیں‘‘۔
’’وہ تجھے اب نہ ملے گا‘‘۔ حمیدا پہلوان نے کہا۔ ’’وہ جان بچانے کے بہانے تلاش کر رہا ہے۔ اس کے پیچھے جانے کا کوئی فائدہ نہیں‘‘۔
بھولو لوگ ممبئی میں چند روز قیام کے بعد امرتسر آ گئے۔ انہی دنوں امرتسر میں ایک بڑے دنگل کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ جس میں ابھی تک کسی بڑی جوڑی کا فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ اس دنگل کے پیچھے محمد سلطان دہلی والے، چراغ الدین امرتسری ٹھیکیدار تھے۔ انہوں نے رحیم بخش سلطانی والا سے بات کی ہوئی تھی جس نے اپنا ہونہار پٹھہ اس دنگل کی رونق سجانے کیلئے بھیجا تھا مگر اس کی جوڑ نہیں مل رہی تھی۔ یونس پہلوان رحیم بخش سلطانی والا گوجرانوالیہ کا ایک فنکار شاہ زور تھا، ستائیس سالہ یونس بھولو سے کشتی کا ممتنی تھا مگر اس کی اچھا پہلوان سے ہاتھ جوڑی کرا دی گئی۔ یہ دنگل یکم ستمبر 1946ء بروز اتوار شاہی دنگل کے نام سے ہوا۔اس میں امام بخش کے چار بیٹے بیک وقت اکھاڑے میں اترے تھے جس میں حسو پہلوان پسر امام بخش کی امام بخش پہلوان پٹھہ لبھا پہلوان سے کشتی قرار پائی جبکہ اعظم اور اکی کے مقابل بھی نامی گرامی پہلوان تھے۔ منصفان کشتی میں احمد بھکی والا اور بسا پہلوان تھے۔ دنگل میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس امرتسر لطف خاں صاحب بھی موجود تھے۔ کانٹا دار کشتیاں دیکھنے کیلئے ہزاروں کا مجمع تھا۔ چھوٹی جوڑی کے بعد بڑی جوڑی ہوئی۔ اچھا پہلوان اور یونس پہلوان کی کانٹے دار جوڑ دیکھنے والے بڑے محظوظ ہوئے۔ یہ کشتی یونس پہلوان نے بڑی آسانی سے جیت لی۔ یونس کی فتح سے گوجرانوالہ میں شادیانے بج گئے۔
سلطانی والا کو اپنے دیرینہ حریف گاماں کے خاندان سے بدلے لینے کا موقع مل گیا تھا۔ یونس پہلوان کے روپ میں انہیں گوجرانوالہ کی ڈھال مل گئی تھی۔(جاری ہے)
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر61 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں