آپ میرا فون نہیں اٹھاتے!

   آپ میرا فون نہیں اٹھاتے!
   آپ میرا فون نہیں اٹھاتے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  آپ میرا فون نہیں اٹھاتے؟ منیجر صاحب بار بار دھاڑے جا رہے تھے۔سر میں آپ کا فون کیوں اٹھاؤں؟ میں کسی کا فون بھی نہیں اٹھاتا۔ میں کوئی چور ہوں؟ میرا تعلق انتہائی شریف خاندان سے ہے۔بچپن میں کوئی چیز نہیں چرائی تو اب یہ نیچ حرکت کیوں کر کروں؟والدین نے میری تربیت ایسی نہیں کی۔اللہ کی پناہ ایسی حرکت سے۔ اسسٹنٹ منیجر کا لحجہ انتہائی راز درانہ ہوگیا۔سر! آپ بھی کسی کا فون نہ اٹھایا کریں لیکن اگر آپ کو کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے تو مجھ پر اعتماد کریں۔میرا ایک کزن سائیکاٹرسٹ ہے۔فیس اچھی لیتا ہے لیکن میں آپ کے ساتھ چلوں گا،علاج مفت کرائیں گے،انہی پیسوں  سے آپ کے لیے اچھا سا فون لے لیں گے۔الحمد ا للہ میرے پاس توجدید ترین ما ڈل، آئی فون کا بھی ہے اور سام سنگ کا بھی۔ آپ پہلے اینڈ رائیڈ ٹرائی  کیجیے گا۔یوزر فرینڈلی ہوتا ہے۔ ویسے بھی فون ہر دوسرے تیسرے مہینے بدل لینا ہی اچھا ہے۔اچھی تنخواہ کا اتنا فائدہ تو ہونا چاہیے۔ منیجر کا غصہ حیرت میں تبدیل ہوا، حیرت ”فرسٹریشن“ میں اور ”فرسٹریشن“ جنون میں۔بال نوچے، سینہ کوبی کی۔ چلا اٹھا نکل جاؤ! دور ہو جاؤ،میری نظروں سے۔ تمہارا علاج کرتا ہوں۔منیجر ہیڈ آفس شکایت کرنے کے علاوہ کچھ نہ کر سکتا تھا۔ہیڈ آفس والے فون فوراً اٹینڈ کرنے اور کروانے کے منیجر کے جنون سے واقف بھی تھے،چالو بھی۔منیجر صاحب ہر حال میں فوراً،پہلی گھنٹی پر فون اٹھاتے تھے،بھلے شادی ہال ہو یا بیڈ روم۔بیگم خود کو فون سے زیادہ اہم سمجھتی تھی۔اک عرصہ سمجھتی رہی۔پھر اسے عقل آ گئی۔ شکل پہلے ہی اچھی تھی۔خلع لیا اور ہر پل خوش خوش جیا۔موجودہ شوہر دفتر ی اوقات کے بعد فون بند کر دیتے تھے اور رومانس شروع۔راوی چین ہی چین لکھتا تھا اور بچوں کے نام بھی۔وہ زمانہ، اب لگتا ہے بہت پرانا، جب ہمارے ہاں فون نہیں،خون دیکھا جاتا تھا۔کھیلوں کا جنون تھا۔موبائل فون میں پڑے، کھیلوں کا نہیں، کرکٹ،ہاکی اور اسکوائش کا۔ اب ہمارے ہاں خون ہر طرح کا چل جاتا ہے،فون صرف سمارٹ چلتا ہے اور چلتا ہی رہتا ہے۔بعض جگہ پر تو کئی بزرگ دنیا سے جاتے ہیں لیکن بچے سکرین  سے آنکھ نہیں اٹھاتے۔دور ہے سوشل میڈیا کا،پتہ نہیں کسی کو ”وکی پیڈیا“ کاشاعر کو بڑے دکھ سے کہنا پڑا کہ ہمارے ہاں جدید نظام تعلیم فراغت لایا یا نہیں، الحاد ضرور لایا۔الحاد بھی ایسا جس کی بنیاد صرف بیمار ذہنوں کا سوا د، تحقیق کا ذوق نظام تعلیم کبھی پیدا نہ کر سکا ورنہ ہمارے ہاں اسلام خطرے میں نہ ہوتا،شیطان ہرپل روتا،ہم حقیقی معنوں میں اسلام کا قلعہ ہونے کا حق ادا کرتے۔زمانے بھر کی فکری قیادت کی سیادت سے بہرہ مند ہوتے۔ سمارٹ فون نے ہماریہاں مسائل حل نہیں کیے بلکہ مسائل میں اضافہ ہی کیا ہے۔یہ کہنا ہے ہمارے اک دوست کا جو، جمعہ انتہائی باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔اس بار جب وہ جمعہ کے لیے گئے تو ان کے دفتر سے کئی دفعہ فون کیا گیا۔واپس آ کر انہوں نے کال بیک کی تو ان کے رفیق کار نے فورا ً گلہ کیا اتنی دفعہ آپ کو فون کیا،آپ نے میری کال نہیں لی۔بتایا مسلمان ہوں اور صرف نماز جمعہ ادا کرتا ہوں۔آج بھی وہ ہی کر رہا تھا۔دوست برا مان گئے کہ ان کے اسلام پر شک کیا گیا ہے۔ایک صاحب نے اپنے کاروباری دوست کو سمارٹ فون کا تحفہ دیا۔نصیحت کی فون کی اخلاقیات کا خیال رکھا جائے،کسی کو چار دفعہ سے زیادہ ”بیل“ نہ دی جائے۔دفتری اوقات کار کے علاوہ کسی کو تنگ نہ کیا جائے۔فارورڈ میسیج نہ کیے جائیں۔چھٹی والے دن کسی کو فون نہ کیا جائے۔ دوست نے ترنت فون واپس کر دیا۔بات چیت بھی ختم کر دی۔فون کی اخلاقیات کیا سیکھنی تھی، برسوں پرانے تعلقات اور اسلامی احکامات کا بھی پاس نہ رکھا۔المیہ ہے کہ ہمارے ہاں ٹیکنالوجی کا استعمال مسائل کے حل کے لئے نہیں، ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے کیا جاتا ہے۔

فیس بک پر مست رہنے والے نوجوان عزیز و اقارب تو کیا،مہینوں،ایک ہی چھت تلے رہنے والے والدین کا ”فیس“ دیکھنا گوارہ نہیں کرتے۔ بُک خریدنا اور پڑھنا ہمارے ہاں کبھی بھی مقبولیت نہیں پا سکا۔آج کا نوجوان تو ویسے بھی کتاب بینی جیسے الفاظ سے آگاہ تک نہیں۔ پھر بھی سپر سمارٹ ہے۔واٹس ایپ ہمارے ہاں لائی ہے ایسا گیپ، کہ ایک جنریشن،دوسری جنریشن کی عزت کرنے کو تیار نہیں۔سوشل میڈیا نے لوگوں کو نہ ہی سوشل رہنے دیا،نہ ہی روایتی میڈیا سے ان کو کوئی آگہی ہے۔سوشل میڈیا پر ہر وقت جھوٹ اور پروپیگنڈہ کا طوفان بپا رہتا ہے۔ایک آدمی ہزار ہا آئی ڈی بنا کر دن رات کچھ ایسا کہتا ہے، کچھ ایسا کرتا ہے کہ پورا معارتی نظام لرزتا ہے،باپ بیٹے کے لیے ترستا ہے،بیٹا ہر اخلاقی قدر سے الجھتا ہے،معاملہ کسی طور نہ سلجھتا ہے۔ ہمارے ہاں جو نسل جوان ہورہی ہے، سمارٹ فون اور سوشل میڈیا استعمال کر رہی ہے، ان کے والدین سادہ لوح ہیں، انہیں نقصانات سے کوئی آگاہی نہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ سمارٹ فون او ر سوشل میڈیا باعث تباہی نہیں لیکن یہ ان کی سادگی ہے،ذہنی کشادگی ہے۔خواتین اور بچے ہر معاشرے میں قدرے کمزور ہوتے ہیں، انہیں تحفط کی ضرورت ہوتی ہے۔ان کو ہر طرح کی ذہنی، جسمانی، روحانی خطرات سے محفوظ رکھنا معاشرے کی ذمہ داری بھی ہوتا ہے اور قوم کی بقا کا ضامن بھی۔بد قسمتی سے ہمارے ہاں چیک اینڈ بیلنس کا نظام ابھی پوری طرح نشوونما نہیں پا سکا۔کسی کی عزت بے جا اچھالی جائے تو وہ کھانس لینے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا۔فرمان ہے کہ ”پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا گناہ کبیرہ ہے۔مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان اور انسان محفوظ رہیں“۔ فرقان مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ انہیں کسی قوم کی دشمنی بھی اس حد تک نہ لے جائے کہ وہ زیادتی کرنے لگیں۔ سیرت کی کتب بتاتی ہیں کہ ہمارے محبوب ؐ نے کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کی۔ اللہ کی نبی رحمت تھے،تمام جہانوں کے لیے،تمام مخلوقات کے لیے ایک چھوٹا سا آلہ ہاتھ میں آتے ہی اپنے ہم وطنوں،اپنے ہم جنسوں کے لیے زحمت بن جانے والے شاید خدا اور رسول ؐکو پسند نہ ہوں۔اللہ تعالیٰ ہمیں بار بار اپنے محبوب ؐ کی اتباع کا حکم دیتے ہیں،ہماری بقا قرآن و سنت پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔آیئے عہد کریں کہ ہم رحمت اللعالمینؐ کے اسوہ حسنہ کی پیروی کرتے ہوئے رحمت بنیں گے، خیر بانٹیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -