آنیوالا وقت قیامت ڈھانے کو ہے ،سی پیک منصوبہ کس سازش کی بھینٹ چڑھ گیا۔۔۔؟حفیظ اللہ نیازی نے اہم انکشافات کر دیئے
لاہور ( نیوز ڈیسک ) آنیوالا وقت قیامت ڈھانے کو ہے ،سی پیک کے سامنے مشکلات کھڑی ہیں، یہ منصوبہ کس سازش کی بھینٹ چڑھ گیا۔۔۔؟سینئر تجزیہ کار و کالم نگار حفیظ اللہ نیازی نے اہم انکشافات کر دیئے۔
"جنگ " میں شائع ہونیوالے اپنے کالم بعنوان "’’نیت اور اہلیت‘‘ میں حفیظ اللہ نیازی نے لکھا کہ 2014 ء سے رَٹ، امریکہ سی پیک بننے نہیں دیگا، چین کی اشد دفاعی اقتصادی ضرورت، جبکہ سی پیک کی تکمیل وطنی عروج کا جزو لاینفک ہے۔ 7 دہائیوں سے وطنی نظام اسٹیبلشمنٹ کی گھڑی اور چھڑی کے رحم و کرم پر، نیت اور اہلیت میں ہمیشہ تہی دامن، موجودہ اسٹیبلشمنٹ کی نیت اچھی، اہلیت اور MERITOCRACY پر سوالیہ نشان ہے۔ دشمن بغلیں نہ بجائیں، وطنی دفاع ناقابلِ تسخیر بلوچستان کی دہشتگردی ملکی سالمیت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، البتہ سی پیک کے سامنے مشکلات کھڑی ہیں۔ سی پیک پر کڑا وقت آئے اور نواز شریف کی یاد نہ ستائے۔ نواز حکومت کا سی پیک منصوبہ کروفر سے کامیابی سے ہمکنار ہوا ہی چاہتا تھا کہ امریکی پشت پناہی اور باجوہ عمران سازش کی بھینٹ چڑھ گیا۔ جنرل باجوہ عمران خان امریکہ کی بی ٹیم کیوں بنے؟ جھوٹ سے نواز حکومت کی اکھاڑ پچھاڑ کیوں کی؟ تب سی پیک اسلیے بھی ممکن تھا کہ امریکہ افغانستان میں گوڈے گوڈے پھنسا تھا۔ جنرل باجوہ اور عمران خان نے مادرِ وطن کی ایسی بے حرمتی اور عزت کی پامالی کیوں کی، ماددِ وطن نے انکا کیا بگاڑا تھا؟ بوجوہ باجوہ جرائم آنیوالا وقت قیامت ڈھانے کو ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو اتنا باور ضرور کراؤنگا، آج وطنی دلدل انکی تجربہ کاریوں ہی کا نتیجہ ہے۔
حفیظ اللہ نیازی نے کالم میں مزید لکھا کہ اسٹیبلشمنٹ سے شکایت تو بدقسمتی سے سیاست دانوں نے بھی مایوس کیا۔ بلاشبہ سیاستدانوں کی نیت اور اہلیت کی صورتحال بھی ابتر، سارا عرصہ دلجمعی سے سہولت کار رہے۔ 17اپریل 1953گورنر جنرل غلام محمد، جنرل سکندر مرزا اور جنرل ایوب خان (ٹرائیکا) نے نامور سیاستدان خواجہ ناظم الدین کو تضحیک آمیز طریقہ سے برطرف کیا اور غیر مقبول کمتر سیاستدان محمد علی بوگرا کو جب وزیراعظم بنایا تو خواجہ ناظم الدین کی ساری کابینہ بوگرا کی سربراہی میں پلک جھپکتے حلف اٹھاچکی تھی۔ مزید چار چاند کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان بطور وزیر دفاع کابینہ کا حصہ بنے۔ تب سے آج تک اسی فارمولا کے مطابق ملک کو ہانکا جا رہا ہے۔ ہر دفعہ جب کبھی کسی سیاستدان کے سافٹ وئیر اپڈیٹ کرنے کا وقت آتا ہے تو فریق مخالف سیاستدان مخالف کو تہہ تیغ کرنے لئے بخوشی ٹول بنتا ہے، اسٹیبلشمنٹ کا رضا کار بن جاتا ہے۔ آج کم و بیش ساری سیاسی جماعتیں ’’بوٹ کی عزت‘‘ پر متفق ہیں، اپنی اپنی سیاسی جماعتوں میں اہلیت اور میرٹ کی دھجیاں اڑانے میں یکساں ہیں۔ آج کل سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی اسٹیبلشمنٹ کے ’’رہنما اصولوں‘‘ کے مطابق استوار ہے۔ الیکشن 2018: اسٹیبلشمنٹ صرف وفاقی حکومت پر قابض تھی جبکہ صوبائی حکومتیں 80 فیصد انکے دائرہ اختیار سے باہر تھیں۔ مریم نواز حکومت کا خلاصہ ، پنجاب بیوروکریسی کے ہاتھ کا کھلونا بن چکی ہیں۔ حکومت کا اکتفا انواع اقسام کے افتتاح، اعلانات ، دوروں تک محدود ، کچھ آرزو اور کچھ انتظار ، اختتام پذیر " کھایا پیا کچھ نہیں گلاس ٹوٹا بارہ آنے " ۔
کالم کے آخر میں حفیظ اللہ نیازی نے لکھا کہ پہلا قدم اسٹیبلشمنٹ کو یہ ماننا ہوگا کہ سیاست انکاکھیل اور نہ ہی انکی اس میں اہلیت ہے ۔ پچھلے 8 برسوں میں کیے گئے سیاسی فیصلوں کا خمیازہ آج پورا ملک بھگت رہا ہے ۔ بغیر الفاظ چبائے درجنوں دفعہ دہراؤں گا ، وطنی " اُمید کی آخری کرن " جنرل عاصم منیر ہیں ۔ آئین مقدس مگر نفاذ کیلئے مملکت کا وجود ضروری ہے ۔ پاکستان بچے گا تو سب ممکن ہوگا ۔ ماننے میں ہرج نہیں، مملکت کے اچھے برے مستقبل کا انحصارجنرل عاصم کے فیصلوں کے رحم و کرم پر ہے ۔ اگر خدانخواستہ جنرل عاصم ناکام ہوئے ، ریاست بھیانک نتائج بھگتے گی ۔ کیا 70 سال کا بگاڑ ، گھمبیر حالات سے عہدہ برا ہو پائیگا ۔وطن عزیز اپنا PROMISED مقام پانے کو ہے ؟ بہرصورت اگلے چند ماہ وطنی تاریخ بدلنے کو ہیں۔