کالج کے پرنسپل نے لڑکیوں کو چھیڑنے پر زمیندار کے بیٹے کو3سال کیلئے ریسٹیکیٹ کیااور کہا ”میرا باپ بھی قبر سے آ کر سفارش کر تا تو بھی تمھیں معاف نہ کرتا“
مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:12
ڈاکٹر صاحب کا ایک اور واقعہ بھی سن لیں۔ اباجی بتاتے تھے۔ ایک روز میں ڈاکٹر صاحب کے پاس بیٹھا تھاکہ ایک لڑکا داخلے کے لئے آیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس سے پوچھا؛”برخودار! کوئی سفارش ہے۔“ وہ بولا؛”نہیں سر۔“بولے؛”برخودار! تیرا لاہور میں کوئی واقف کار تو ہو گا۔“ وہ لمحہ بھر کی خاموشی کے بعد بولا؛”جی سر! یاد آیا میرے گاؤں کا ایک آدمی لاہور تانگہ چلاتا ہے۔“ سن کر کہا؛”برخودار! اسے کہوتیری سفارش کرے۔ میں تجھے داخلہ دے دوں گا۔“ وہ چلا گیا تو ابا جی حیران ہو کر بولے؛”ڈاکٹر صاحب اور سفارش؟“ مسکرائے اور جواب دیا؛”برخودار! میں قوم کی تربیت کر رہا ہوں۔ میں وہ وقت دیکھ رہا ہوں جب اس ملک میں کوئی کام بھی سفارش کے بغیر نہیں ہو گا۔“ ابا جی کہتے ہیں میں ڈاکٹر صاحب کی اُس وقت یہ بات سن کر میں حیران رہ گیا تھا لیکن پھر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جائز کام کے لئے بھی سفارش کی ضرورت ہی رہی۔وہ مدبر اور دانا تھے۔ ڈاکٹر دلاور حسین نامور استاد،ماہر تعلیم، انڈین کرکٹ ٹیم کے رکن، 5 ایم اے اور 2 ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھنے والی شخصیت تھے۔
ملک عمر حیات پرنسپل اسلامیہ کالج؛
ابا جی کا سنایا ملک عمر حیات پرنسپل اسلامیہ کالج کا ایک واقعہ بھی گوش گزار کرتا چلوں؛”ملک عمر حیات اسلامیہ کالج کے پرنسپل، لمبے اونچے جوان، با رعب شخصیت، ڈی بلاک ماڈل ٹاؤن لاہور میں رہتے تھے۔ یہ نواب آ دمی وقت اور اصولوں کے پابند تھے۔ وقت کی پابندی کے بارے مشہور تھا کہ اپنی گھڑی کا ٹائم ملک صاحب کی گھڑی کے مطابق درست کیا جا سکتا تھا۔ وہ اپنی”امپالا کار“ میں کالج آ تے۔ ٹھیک 7 بج کے 29 منٹ پر ان کی گاڑی کالج کی حدود میں داخل ہوتی اور وہ ٹھیک ساڑھے سات بجے سٹوڈنٹ اسمبلی میں پہنچتے۔جب انہوں نے بطور پرنسپل چارج لیا تو اسلامیہ ہائی سکول برائے گرلز کی بچیاں شارٹ کٹ کے طور پر اسلامیہ کالج کی گراؤنڈسے گزر تی تھیں۔ کچھ منچلے دل کے ہاتھوں مجبور ان بچیوں پر آ وازیں لگا کر اپنے جوان ہونے کا پیغام دیتے تھے۔ جرأت حد سے بڑھی تو کبھی کبھار کسی بچی کے سر سے چادر بھی کھینچ لیتے۔ انہیں آ ئے چند دن ہی ہوئے تھے کہ سکول کی ہیڈ مسٹرس صاحبہ نے ان سے لڑکوں کی بڑھتی بدمعاشی کی شکایت کی۔ اگلے روز ملک صاحب نے اسمبلی میں خطاب کرتے دوسری باتوں کے علاوہ اس بات کا اظہار کیا کہ؛”میں چاہوں گا کہ کالج کے طلباء بچیوں کے گزرنے کے وقت دور رہیں اور آ واز کسنے سے مکمل اجتناب کریں۔اگر میں نے کسی کو پکڑ لیا یا وہ قصور وار پایا گیا تو سخت سزا ملے گی۔“ لڑکوں نے سمجھا ایسی تقریر تو ہر آ نے والا کرتا ہے۔ بات سنی اور دوسرے کان سے نکال دی۔“
ابا جی نے بتایا؛”اس روز ہمارے ہم جماعت رزاق کی(وہ ملتان کے کسی بڑے زمیندار کا بیٹا تھا۔ روپے پیسے کی فروانی تھی اور وہ کچھ بگڑا ہوا بھی تھا۔) بد قسمتی کہ وہ کسی لڑکی پر آ واز لگا رہا تھا اور ادھر سے ملک صاحب کی موٹر کالج داخل ہو رہی تھی۔اسمبلی ختم ہو ئی تو انہوں نے رزاق سے کہا؛”مجھے دفتر آ کر ملو۔“ وہ دفتر ملا تو پرنسپل نے کہا؛”مجھے خوشی ہے تم بہادر ہو۔ بہادر کوئی بھی کام کرنے سے پہلے نتائج کا سوچتے ہیں۔تم نے بھی یہ حرکت سوچ سمجھ کر کی ہو گی۔تمھیں اس کی سز2 دن بعد سنائی جائے گی۔ امید ہے تم سزا بہادروں کی طرح قبول کرو گے۔“ مقرہ دن آ یا تو رزاق اپنے دوستوں کو بتانے لگا؛”میں نے پرنسپل صاحب کے لنگوٹیے یاروں سے سفارش کرائی ہے۔ لگتا ہے سو پچاس روپے جرمانہ ہو گا۔“ اس زمانے میں یہ بڑی رقم تھی۔ ہو سٹل کا شاہانہ خرچ کر کے بھی 20 روپے بل ہو تا تھا۔ اسمبلی ختم ہوئی تو پر نسپل صاحب نے کہا؛”2 دن پہلے رزاق نے جو حرکت کی تھی اس کی وارننگ میں پہلے ہی دے چکا تھا۔ یہ بہادر بچہ ہے اس نے جو کیا نتائج کا بھی سوچا ہو گا۔رزاق اب سزا کی باری ہے۔ تمھیں میں 3 سال کے لئے کالج سے rusticate کرتا ہوں۔ 2گھنٹے میں ہو سٹل خالی کر دو۔تم نے میرے دوستوں کی بہت سفارشیں کروائیں۔ نعوذ باللہ اگر میرا باپ بھی قبر سے آ کر تمھاری سفارش کر تا تو بھی میں تمھیں معاف نہ کرتا۔“ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔