عالمی یوم خواتین
خواتین کا عالمی دن ایک مزدور تحریک کے طور پر شروع ہوا تھا اور اب یہ اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ ایک سالانہ دن ہے ۔ اس دن کا آغاز 1908 میں نیویارک شہر سے ہوا جب پندرہ ہزار خواتین نے کم گھنٹے کام ، بہتر تنخواہوں اور ووٹ کے حق کے لئے مارچ کیا ۔
اس کو عالمی سطح پر لے جانے کا خیال کلارا زتکن نامی خاتون کا تھا جو ایک کیمونسٹ اور خواتین کے حقوق کی رکن تھیں ۔ انھوں نے انیس سو دس میں کوپن ہیگن میں انٹرنیشنل کانفرنس آف ورکنگ ویمن میں یہ خیال پیش کیا ۔ وہاں سترہ ممالک سے سو خواتین موجود تھیں جنہوں نے متفقہ طور پر اس کی تائید کی ۔ انیس سو آٹھ میں امریکا کی سوشلسٹ پارٹی نے خواتین کے مسائل حل کرنے کے لئے وویمن نیشنل کمیشن بنایا اور اس طرح بڑی جدوجہد کے بعد فروری کی آخری تاریخ کو خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا گیا ۔
عالمی یوم خواتین سب سے پہلے اٹھائیس فروری انیس سو نو کو امریکا میں منایا گیا ۔ آٹھ مارچ انیس سو تیرہ کو یورپ بھر میں خواتین نے ریلیاں نکالیں اور پروگرام منعقد کئے ، اب برسوں سے آٹھ مارچ کو عالمی سطح پر یوم خواتین منایا جاتا ہے ۔ امریکا کے بعد یہ دن آسٹریا ، ڈنمارک ، جرمنی اور سوئزرلینڈ میں انیس سو گیارہ میں منایا گیا ۔ سن انیس سو پچھتر میں اسے سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا جب اقوام متحدہ نے اسے منانا شروع کیا ۔ سن انیس سو چھیانوے میں پہلی مرتبہ اسے ایک تھیم دیا گیا جب اقوام متحدہ نے اسے ’’ ماضی کا جشن اور مستقبل کی منصوبہ بندی ‘‘ کے عنوان سے منایا ۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران روسی خواتین نے ’’روٹی اور امن ‘‘ کے مطالبات کے ساتھ ہڑتال کر دی اور چار دن کے بعد روسی سربراہ کو حکومت چھوڑنا پڑی اور خواتین کو ووٹ کا عبوری حق ملا جس دن روس میں خواتین کی ہڑتال شروع ہوئی تھی جو جولیئین کلینڈر میں تئیس فروری تھی لیکن موجودہ کلینڈر میں آٹھ مارچ ہے ۔
خواتین کا عالمی دن کئی ممالک میں قومی تعطیل کا دن ہے بشمول روس کے جہاں ان دنوں میں پھولوں کی فروخت ریکارڈ سطح تک پہنچ جاتی ہے ۔ چین میں حکومت کی جانب سے خواتین کو آدھے دن کی چھٹی بھی دی جاتی ہے ۔ اٹلی میں اس دن مموسا بلوسمز کے پھول دئیے جاتے ہیں جبکہ امریکا میں مارچ کا مہینہ تاریخ نسواں کے مہینے کے طور پرمنایا جاتا ہے، اس حوالے سے ایک صدارتی اعلان بھی کیا جاتا ہے جس میں سال بھر کی خواتین کی کامیابیوں کو اعزاز بھی دیا جاتا ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا کسی ایک دن کو کسی کے نام سے منا لینا اس کے تمام حقوق ادا کر دیتا ہے جیسا کہ فادر ڈے ، مدر ڈے ، ورلڈ وویمن ڈے وغیرہ ۔ جبکہ یہ سارے رشتے وہ ہیں جن کی اہمیت ہر وقت اپنے کسی نہ کسی حقوق کی متقاضی ہے ۔ بے شک اس دن کو بین الاقوامی سطح پر منانے کا مقصد انسانی معاشرے اور خود صنف نازک میں اس شعور کی بیداری ہے کہ عورت ہونا باعث عار نہیں بلکہ صد افتخار ہے ۔
اسلام نے تو عورت کو بہت شرف و منزلت سے نوازا ہے ورنہ زمانہ جہالیت میں عورت کی حالت زار سے کون واقف نہیں جب پیدا ہوتے ہی بیٹییوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا ۔ اسلام نے چودہ سو سال پہلے دیکھا جائے تو عورت کو تمام تر حقوق سے سرفراز کر دیا تھا ، عورت کے ہاں بیٹی کی پیدائش پر اسے جنت کی خوش خبری دی گئی ، عورت کے لئے وارثت میں حق مقرر کیا گیا ، اسکو حق مہر دیا گیا ، قرآن پاک میں بھی عورت کے ساتھ بہتر سلوک روا رکھنے کی بار بار تلقین کی گئی ۔ مرد کو اس کا ولی اور سرپرست بنایا گیا اس پر کسی بھی قسم کی مالی اور معاشی تگ و دو کی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی ۔
لیکن یہ تمام مراتب دینے کے بعد اس کو پابند نہیں بنایا گیا کہ وہ صرف اور صرف گھر ہی ہو کر رہ جائے بلکہ اسے پوری آزادی دی گئی کہ اگر قدرت نے اسے صلاحیتیں عطا کی ہیں تو اپنی ان صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنے اور معاشرے کے بھلائی کے کاموں میں استعمال کر سکتی ہے ۔ وہ اعلی تعلیم حاصل کرکے نہ صرف اپنے اہل و عیال کی اصلاح اور بہتری کے کام سرانجام دے سکتی ہے بلکہ ملک و ملت کی ترقی کے لئے بھی اپنا کردار نبھا سکتی ہے اور ضرورت پڑنے پر اپنے خاندان کی کفالت بھی کر سکتی ہے لیکن عورت کو اگر گھر سے باہر نکلنا پڑے تو اس کو ان حدود و قیود کو ضرور بضرور ملحوظ رکھنا ہوگا جو اس کے خالق نے اسی کے فائدے کے لئے ہی متعین کی ہیں ۔
دیکھا جائے تو اسلام نے عورت کو بہت سے حقوق سے نوازا ہے اصل مسئلہ یہاں پیدا ہوتا ہے جب خواتین مارچ پر کئی متنازعہ چیزیں سامنے آتی ہیں ۔بڑے بڑے جلوسوں میں جن نعروں پر بحث کی جاتی ہے وہ ہماری عورت سے متعلق نہیں ہوتے اور ایک خاص طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ کئی سیمینار ہوتے ہیں تو اخبارات خصوصی فیچرز شائع کرتے ہیں لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہوتے ہیں ۔ انیٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والی خواتین یہ نہیں جانتیں کہ بڑے بڑے ایوانوں میں ان کی بہتری کے لئے بھی کچھ کیا جا رہا ہے یا نہیں ؟
معاشرے کے حسن و وقار ، تنظیم اور استحکام کا راز عورت کی پر خلوص قربانیوں اور لازوال جدو جہد میں پوشیدہ خاندانی نظام کا ایک خاص ڈھنگ ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی معاشرتی سوچ کو تبدیل کریں ، معاشرے سے غیرت کے نام پر قتل ، کارروکاری کا خاتمہ کیا جائے ، بچیوں کو بیٹوں کے برابر مساوی حقوق دئیے جائیں سوائے ان کے جہاں اسلام نے ان کا حصہ آدھا مختص کیا ہے ،مزدور خواتین کی اجرت میں اضافہ ہو اور سرکاری ملازمتوں میں خواتین کا کوٹہ بڑھایا جائے ۔ خواتین کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے صرف زبانی کلامی نہیں بلکہ عملی اقدامات کئے جائیں تو یقینا ہمارا ملک درست معنوں میں ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے ۔
۔
نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔