تعلیم عام کرنے کا فائدہ یہ بھی ہو گا کہ عوام میں سیاسی شعور، بنیادی شہری و جمہوری حقوق کی شناخت پیدا ہو گی،غلط اور صحیح میں تمیز کرنے میں آسانی ہو گی
مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
قسط:78
دنیا کا بہترین عدالتی نظام قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس ملک میں تعلیم کے حصول کو سستا اور آسان بنائیں۔ تعلیم کو ضروری اور آسان بنایا جائے۔ ملک بھر میں بچوں کی ابتدائی تعلیم میٹرک تک مفت اور بلامعاوضہ ہونی چاہئے اور ہر شہری کے لئے لازم ہو کہ وہ کم از کم میٹرک کا امتحان پاس کرے تو اسے معاشرے میں روزگار، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی سہولت دی جائے۔ تعلیم کو عام کرنے کا فائدہ یہ بھی ہو گا کہ عوام میں سیاسی شعور اور اپنے بنیادی شہری و جمہوری حقوق کی شناخت پیدا ہو گی اور عوام کو غلط اور صحیح امور میں تمیز کرنے میں آسانی ہو گی۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ پاکستان میں کئی نظام تعلیم رائج کرنے کی بجائے ایک ہی جدید ترین نظام تعلیم نافذ کرے۔ یہ مدرسوں میں کیا پڑھایا جا رہا ہے۔ ہر سال لاکھوں مولوی پیدا کئے جا رہے ہیں۔ اس سے ملک میں مذہبی فرقہ بندی اور تعصبات کو فروغ ملتا ہے۔ ملک بھر میں یکساں نظام تعلیم ہو۔ سب لوگوں کو مذہبی تعلیم بھی دی جائے اور اُنہیں جدید ترین کمپیوٹر سائنس اور دیگر مضامین بھی پڑھائے جائیں۔ ہم نے پاکستان بننے کے بعد مدرسوں کو کنٹرول نہیں کیا اور نہ یہ سوچا کہ لاکھوں لوگ مدرسہ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کیا کریں گے سوائے جائز ناجائز مسجد بنا کر قبضہ کرنے کے۔
وہ دن گزر گئے جب ہمارے علماء کرام انگریزی تعلیم سے گریز کرتے تھے۔ اب علماء کرام خود انگریزی سیکھتے ہیں، پڑھتے ہیں مگر وہ اپنے شاگردوں کو انگریزی سے نابلد کیوں رکھنا چاہتے ہیں؟ ملک میں تعلیم عام ہونے سے ملک میں آئین کی بالادستی، عدالتوں کا احترام اور جمہوریت کے لئے احترام پیدا ہو گا۔
ملک میں جو بھی حکومت ہو حکمرانوں کو اصولاً یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جوڈیشری ہی نہیں تمام سرکاری محکموں میں سنیارٹی کے اصول کو ہمیشہ مدنظر رکھا جائے۔ جہاں کہیں سنیارٹی اصول کو نظرانداز کیا گیا ہے فوری طور پر اس کے ناگوار نتائج پوری قوم کو بھگتنے پڑے ہیں۔ بھٹو نے فوج میں سنیارٹی کے اصول کو نظرانداز کیا تو خود ہی اس کے نتائج کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو نے جوڈیشری میں سنیارٹی کے اصول کو چھیڑا، اس کی خلاف ورزی کی تو سپریم کورٹ کے خوفناک بحران کی صورت میں اُنہیں اس کے نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد بھی سپریم کورٹ کے معاملات میں غیر متعلقہ افراد کی مداخلت ہوتی رہی اور شاید ہم اب اس قسم کے مسائل سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اللہ کرے یہ صورت حال برقرار رہے اس صورتحال کے لئے حکومت کا رویہ بڑا اہم ہے۔ حکمرانوں کو ہر معاملہ میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے۔ ایک معاملہ کو دیکھئے کہ ایک حکمران نے جوڈیشری میں سنیارٹی کے اصول کو نظرانداز کیا تو وہ اس سے کوئی فائدہ تو نہ اٹھا سکے البتہ اعلیٰ عدلیہ کا وقار ایسے مجروح ہوا کہ اگلے حکمران نے اعلیٰ ترین عدالت پر حملہ کرا دیا۔ جوڈیشری تقسیم ہو گئی۔ ججوں کے بارے میں کیسی کیسی افواہیں اور کہانیاں مشہور ہوئیں اور نہ معلوم کب تک جوڈیشری کے وقار پر لگے اس دھبے کو صاف نہیں کیا جا سکے گا۔ جوڈیشری کے ایک جانب دارانہ فیصلہ سے اعلیٰ ترین عدالت سے عوام کو اعتماد ہی اُٹھ گیا۔ آج بھی لوگ جب اس کیس کا حوالہ دیتے ہیں تو ہر محبت وطن شہری آئین اور قانون کی سربلندی کے خواہش مند پاکستانی کو افسوس ہوتا ہے کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ سے کیسی کیسی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ اس کا سدباب کرنے کے لئے جوڈیشری کو خود اقدمات کرنے ہوں گے۔ فاضل عدالتوں کے فاضل ججز یہ اصول بنا سکتے ہیں کہ آئین کی تشریح اور قانون کے نفاذ کے مقاصد کے حامل مقدمات کو وہ سنیں گے البتہ کسی سیاسی مقدمہ میں نہیں اُلجھیں گے۔ ملک بھر میں جہاں کہیں بھی لاقانونیت ہو عام شہریوں کے جان و مال کے لئے خطرات پیدا ہوں تو عدالت ان کا سدباب کر سکتی ہے۔ مگر سیاسی لڑائیوں میں پڑ کر جوڈیشری کا وقار بھی کم ہوتا ہے اور عدلیہ کی آزادی بھی محدود ہوتی ہے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔