ملکی ترقی کس کے پیسوں سے ہوتی ہے؟
محمد نواز شریف کی حکومت کے دوسرے دور کی بات ہے۔ ہمارے ادبی بھائی دانشور سید مجاہد علی شاہ صاحب نے ناروے کے شہر اوسلو میں ایک بڑے مشاعرے کا اہتمام کیا جس میں پاکستان کے نامور شعراء جمیل الدین عالی مرحوم، امجد اسلام امجد مرحوم، عطاء الحق قاسمی، سلیم کوثر فاطمہ حسن، مزاحیہ شاعر، بابا عنایت علی اور پنجابی کے سب سے بڑے شاعر احمد راہی مرحوم نے شرکت کی، سید مجاہد علی شاہ صاحب کے تمام پروگراموں میں بطور معاون یہ خاکسار اور میرے بھائی محمد رفیع مرحوم ساتھ رہتے تھے۔ ایک لنچ کے موقع پر ہم پاکستان کے حالات اور مشکلات پر بات کر رہے تھے کہ امجد اسلام امجد صاحب مجھے سمجھانے کے انداز میں کہنے لگے کہ پاکستان نے بہت ترقی کر لی ہے آپ کو اس کا علم نہیں تو میں نے عرض کیا کہ آپ سمجھا دیں کہ کیا کیا ترقی ہوئی ہے؟ تو وہ بولے کہ مثال کے طور پر آپ کے والد صاحب کے پاس سائیکل ہوتی ہوگی جبکہ آپ کے پاس نئی اور بہت قیمتی گاڑیاں ہیں، آپ کی کوٹھی ہے، اسی طرح پاکستان میں بہت زیادہ سڑکیں بن چکی ہیں اور لاہور اسلام آباد موٹروے کا منصوبہ جاری ہے وغیرہ وغیرہ، میں نے جواباً عرض کیا کہ اگر آپ کے خیال میں ترقی گاڑیوں اور سڑکوں سے ہوتی ہے تو سنیں میرے والد صاحب کے پاس سائیکل بھی نہیں تھی لیکن اس وقت ہماری زندگی میں کوئی خاص مشکلات بھی نہیں تھیں۔ اور آج اگر ہمارے پاس گاڑیاں ہیں تو یہ پاکستان سے نہیں بلکہ ناروے کی کمائی کی ہیں دوسری بات سڑکوں کی ہے تو مجھے پاکستان کی سڑکوں پر خرچ ہونے والی رقم اور ملک پر چڑھنے والے قرضوں کے تناسب کی وضاحت فرما دیں، ساتھ اگر آپ حقیقی ترقی کا علم رکھتے ہیں تو پاکستان کی ایجادات کی فہرست بھی بتا دیں، پاکستان میں روزگار کے ذرائع اور زرعی ترقی پر بھی روشنی ڈال دیں، اگر آپ یہ بات جانتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی ترقی میں اس ملک کی اپنی پیداوار، قدرتی وسائل کی تلاش اور صنعتی ترقی کا کردار ہوتا ہے تو وہ بھی واضح کر دیں، اب امجد اسلام امجد صاحب ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بات بدلنے لگے تو پاس بیٹھے میرے بھائی محمد رفیع صاحب بول پڑے کہ امجد صاحب ابھی وقت ہے اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو برابری پر چھڑوا سکتا ہوں ورنہ آپ یہاں جیت نہیں سکتے، امجد صاحب کہنے لگے نہیں کوئی ایسی بات نہیں برخوردار سمجھدار ہیں۔
اتنے سالوں کے بعد اتنا لمبا قصہ سنانے کا مقصد یہ سمجھانا ہے کہ یہ جو ہمارے حکمران ایک سڑک، ایک گلی یا ایک پل بنا کر اس پر اپنی تصاویر والے اشتہارات لگوا کر کریڈٹ سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ افتتاح کر کے اپنے نام کی تختی چسپاں کرتے ہیں یہ غلط ہے کیونکہ کسی بھی ترقیاتی منصوبے پر خرچ ہونے والا پیسہ کسی حکمران کا نہیں بلکہ عوام کا ہوتا ہے۔ عوام ٹیکس دیتے ہیں اور جو غیر ملکی قرضہ لیا جاتا ہے وہ بھی عوام کے نام پر لیا جاتا ہے اور اس کی ادائیگی بھی عوام ہی کرتے ہیں۔
اگر جمہوری نظام ہو تو نمائندوں کا چناو بھی عوام کرتے ہیں اور حکمران بھی عوام کی تائید سے بنتے ہیں عوامی نمائندوں اور حکومت کا کام عوام کے پیسے کا درست استعمال ہوتا ہے۔ حکومت ملکی حالات کے مطابق ترجیحات کا تعین کرتی ہے اور ایوان فیصلہ کرتے ہیں کہ کس شعبے کا کتنا میزانیہ ہوگا، حکمرانوں کے کرنے کا اصل کام وسائل کی تلاش اور ان کی درست تقسیم ہے، حکومتوں کا کام روزگار کے ذرائع پیدا کرنا، ملکی پیداوار بڑھانا اور عوام کی قوت خرید کو مضبوط کرنا ہوتا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں نے عوام کی سوچ کو اپنی سستی شہرت پر رکھنے کے لیے یہ وتیرہ بنا رکھا ہے کہ کسی علاقے میں ایک سڑک بناتے ہوئے سڑک کا افتتاح کر کے اس کے اوپر اس طرح اپنے نام کی تختی لگاتے ہیں جیسے یہ سڑک ان کے باپ کے مال سے بنی ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کے پاس کوئی منشور نہیں بلکہ ان کا منشور انتخابات جیت کر کرپشن سے اپنا مستقبل بنانا اور اپنے مخالفین پر کیچڑ اچھالنا ہوتا ہے عوام بھی غلاموں کی طرح گلی یا سڑک بن جانے پر شادیانے بجاتے اور کسی وزیر کی خوشامد میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں کیونکہ سیاستدانوں نے بڑی عوام کو یہ باور کروا دیا ہوا ہے کہ آپ کی گلی، نالی اور سڑک ہم سرکاری پیسے سے بناتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ سرکاری پیسہ ہوتا کس کا ہے؟ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بہت بڑے بڑے پراجیکٹس پر کام ہوتا ہے، لیکن کہیں کسی وزیراعظم یا وزیر کے نام کی تختی لگتی ہے نہ کوئی حکمران یا سیاستدان یہ کہتا پھرتا ہے کہ یہ کام میں نے کروایا ہے اس کے برعکس سیاستدان اپنا منشور اور پروگرام دیتے ہیں اپنی ترجیحات بتاتے ہیں جس پر کامیابی کی صورت میں عملدرآمد کرتے ہیں۔