میاں جب تک دوا نہیں آجاتی تب تک احتیاط کیجیے
آج بازار جانے لگا تو دھڑکا لگا کہ کہیں اردو سپیکنگ بزرگوار حسب معمول دروازے پر نہ ڈٹے ہوں۔ مبادہ پچھلی بار کی طرح لاک ڈاون کی خلاف ورزی پر ٹوکیں اور ڈانٹیں۔ اچھی طرح دیکھ بھال لیا تو نکل کھڑا ہوا۔ بزرگوار کے گھر کے قریب سے برق رفتاری سے گزرا۔ اچانک آواز کان میں پڑی: " ناصر میاں، میاں سنتے ہو۔"
کمرے کی کھڑکی سے آواز آئی تھی۔ میں گھبرا کر رک گیا۔ بزرگوار دروازے پر آن براجے۔ میرے بشرے پر بدحواسی تاڑ گئے۔ کہنے لگے:
"میاں ہفتے میں ایک آدھ بار بازار جانے میں مضائقہ نہیں ہے۔"
میں نے سکھ کا سانس لیا۔
بزرگوار نے سوال کیا:" کرونا کی دوا کب تک آجائے گی؟"
میں نے سوچا بزگوار پرانی وضع کے ہیں ان کے حسب حال جواب دینا چاہیے: " پتا نہیں جی دوا کے آنے کا تو پتا نہیں۔ لیکن طب یونانی اور ہومیو پیتھی کے بعض حکما کا دعوی ہے کہ وہ علاج کر سکتے ہیں۔"
" میاں، ان حکما پر خدا کی سنوار۔ دعوی کرنے والے یہ حکیم جھوٹ کی روٹیاں کھاتے ہیں۔ ان حکیموں کے بھروسے نہ رہیے گا۔ ایک بار طبیعت بگڑی تو پھر بگڑتی چلی جائے گی۔ ان کے پاس علاج تھوڑی ہے ٹوٹکے ہیں۔"
"لیکن بہت سے لوگ ان کے علاج کی تصدیق کرتے ہیں۔"
"واہ ناصر میاں، کیا تڑ سے ایسا سوچ لیتے ہو۔ میاں، لوگوں کو جھانسے میں لانا کوئی بڑی بات تو ہے نہیں۔ ڈھلمل یقین لوگ۔ تھالی کے بینگن، جس نے جو کہا فورا تسلیم کر لیا۔"
"جناب حکیم اجمل خان بھی تو تھے۔ جن کا ہر طرف شہرہ تھا۔ "
" میاں وہ حکیم اجمل تھے۔ حکیم اجمل کے زمانے لد گئے۔ وہ اپنے دور کے تقاضوں سے کما حقہ واقف تھے۔ حکمت میں برق تھے۔ رشک جالینوس تھے۔ ہاتھوں میں وہ شفا تھی کہ نسخے پر "ھوالشافی" لکھنے سے پہلے مریض کو صحت کامل عطا ہو جاتی تھی۔"
"میرا خیال ہے کہ موجودہ دور میں بھی بعض قابل حکما ضرور ہوں گے۔" میں نے اصرار کیا۔
"موجودہ دور کے حکما جدید تحقیق سے کوسوں دور ہیں۔
دقیانوس کے ہم عصر ہیں وہی مرغے کی ایک ٹانگ قائم رکھتے ہیں۔ انھی پرانے نسخوں کو لیموں لگا کر چاٹ رہے ہیں۔ بے چارے جدید طب کی ترقی دیکھیں تو آنکھیں جائیں۔"
"لیکن جب تک کرونا کی دوا نہیں آجاتی تب تک کرونا کا کیا علاج ہو؟"
"میاں جب تک دوا نہیں آجاتی تب تک احتیاط کیجیے اور صحت بخش خوراک کھائیے۔ بس یہی علاج ہے۔ "
سچ پوچھیں تو بزرگوار کی باتوں نے مجھے پھڑکا دیا۔ میں انھیں پرانی وضع کا بزرگوار سمجھا تھا اور وہ جدید قطع کے نوجوانوں سے زیادہ جدید نکلے۔ پھر سوچا کہ اگر وہ روشن دماغ نہ ہوتے تو اپنے بیٹے کو ڈاکٹری کی تعلیم دلواتے۔
ایسی ٹھکانے کی باتیں سن کر روح شاد ہوگئی۔ رخصت لے کر بازار کی راہ لی۔
.
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔