بے ادبی معاف ہو تو. . .
"ناصر میاں ، آپ بتا رہے تھے کہ آج آپ کے کسی دوست نے ہماری محفل میں آنا تھا۔"
" جی میرا خیال ہے کہ وہ لیٹ ہیں۔"
"معلوم ہوتا ہے آپ کے دوست میں آداب مجلس کی چھاں نہیں۔ انھیں بتانا تھا کہ وقت کی پابندی ہماری محفل کے آداب میں سر فہرست ہوتی ہے۔" بزرگوار نے ذرا درشتی سے کہا۔
" میں نے دوست کو کہا تھا کہ وقت۔۔۔" میں وضاحت کرنے ہی لگا تھا کہ بزرگوار نے میری زبان اصلاح کرتے ہوئے مجھے ہتھے پر ٹوک دیا:
" دوست "کو" کہا تھا
یا
دوست "سے" کہا تھا؟"
میں نے بھی تنک کر جواب دیا:
" حضرت ! "دوست کو کہا تھا" بھی درست ہے۔"
بزرگوار تیکھے لہجے میں گویا ہوئے:
" یا للعجب، کیا بوالعجی ہے!! کہنا کے ساتھ "کو" ؟
ناصر میاں!
"کہنا" کے ساتھ "سے" استعمال کرتے ہیں "کو" نہیں۔"
میں نے اختلافی حاشیہ چڑھاتے ہوئے کہا:
" حضرت، بے ادبی معاف ہو تو بصد عجز عرض کروں۔ غالب نے کہنا کے ساتھ "کو" برتا ہے۔ شعر دیکھیے:
زہر غم کر چکا تھا میرا کام
تجھ کو کس نے کہا کہ ہو بدنام
بزرگوار زچ ہو کر ہوئے:
"ناصر میاں، آپ کی اس دلیل ہی کی کسر تھی۔
میاں، "کہنا" کے ساتھ "کو" لانا پرانی اردو ہی میں ملتا ہے۔ دہلوی شعرا میں غالب تک کے زمانے میں کبھی کبھی اس کا استعمال مل جاتا ہے۔ لیکن دہلی میں اسی زمانے سے اور لکھنئو میں تو اس سے بھی پہلے ہی اس کا استعمال خارج ہوچکا تھا۔"
بزرگوار کی بات سن کر میں پھڑک گیا۔ میں نے انتہائی جوش سے کہا:
" حضرت! کیا عمدہ بات کہی۔ اس کا مطلب ہے کہ زبان کی کتنی ہی ایسی باتیں ہیں جو ہم کتابوں سے نہیں بلکہ اہل زبان کی صحبت ہی سے سیکھ پاتے ہیں۔ میری خوش قسمتی ہے کہ آپ جیسے اہل زبان کی جوتیاں سیدھی کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ فیس بک کو مستقل وقت دیں۔ یقین مانیں ہزاروں لوگ آپ سے مستفیض ہوں گے۔"
"میاں، چند ماہ پہلے ہی تو فیس بک سے بوریا بندھنا اٹھا کر چمپت ہوا ہوں۔
میں بوڑھا ٹھیڑا بڑھوتی وقت اب کیا فیس بک استعمال کروں۔ میری آنکھیں اندھا کنواں ہیں۔ دانت بتیسوں چوہے کے بل میں ہیں۔ اب تو حال یہ ہے کہ منھ میں دانت نہ پیٹ میں آنت۔ دن کو اونٹ اور سارس نہیں سوجھتا۔ لوگ کہیں گے دقیانوس کے ہم عصر کو اس عمر میں فیس بک کی خوب سوجھی ۔" بزرگوار ہنستے ہوئے کہنے لگے۔
"حضرت بوڑھے پن کی تو ایک کہی آپ نے۔ یقین مانیے ہزاروں لوگ آپ جیسے عالم فاضل سے زبان سیکھنے کےلیے بے تاب ہوں گے۔" میں نے درخواست کے انداز میں اصرار کیا۔
" ناصر میاں، آپ مجھے آسمان پر چڑھا دیتے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ میں کس میں ہوں: خان میں نہ خان کے اونٹوں میں۔
خیر، جو عالم فاضل ہیں وہ بھی فیس بک پر مارے مارے پھرتے ہیں۔ کوئی ٹکے کو پوچھتا نہیں۔
جہاں تک ہزاروں کے مستفیض ہونے کی بات یے تو یہ خیر صلاح ہے۔ میاں، فیس بک ٹھالی ٹھسکوں کا ٹھکانا ہے۔ یہاں بے ذوق لوگوں کی پھڑ جمی ہوئی ہے۔ زبان سیکھنے کا کسے شوق ہے؟
دیکھیے ہزاروں لوگ فیس بک کا گز بنے پھرتے ۔ کبھی اس پوسٹ پر تو کبھی اس پوسٹ پر۔ مجال ہے جو علمی و ادبی پوسٹوں کو تلاشیں۔
آپ تصویر لگائیے جوق جوق دوست تشریف لائیں گے۔ کھٹا کھٹ کمنٹ پر کمنٹ کریں گے۔ اسی لمحے زبان و ادب کی پوسٹ لگا دیجیے۔ ساری بھیڑ کائی کی طرح پھٹ جائے گی۔ سب چلتا دھندا کریں گے۔ علمی و ادبی پوسٹ دیکھنا تو یہاں گالی ہے۔ ناصر میاں، ایسے ماحول میں اہل فیس بک کو زبان سکھانا تو اپنا منھ تھکانا ہے۔"
بزرگوار نے جلے پھپھولے پھوڑے۔ ان کی باتیں اپنی جگہ درست تھیں۔
.
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
.
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.