بنیادی حقوق معطل کرنےکیلئے ایمرجنسی ہونا ضروری ہے، جسٹس محمدعلی مظہر   کے کیس میں ریمارکس

بنیادی حقوق معطل کرنےکیلئے ایمرجنسی ہونا ضروری ہے، جسٹس محمدعلی مظہر   کے ...
 بنیادی حقوق معطل کرنےکیلئے ایمرجنسی ہونا ضروری ہے، جسٹس محمدعلی مظہر   کے کیس میں ریمارکس

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں خصوصی عدالتوں سے متعلق کیس کی سماعت تیسرے روز بھی ہوئی۔ دوران سماعت جسٹس محمدعلی مظہر نے کہا کہ بنیادی حقوق معطل کرنے کیلئے ایمرجنسی ہونا ضروری ہے۔

نجی ٹی وی چینل آج نیوز کے مطابق جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے خصوصی عدالتوں میں سویلین ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کی۔سماعت شروع ہوئی تو وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کیا۔خواجہ حارث نے کہا کہ سویلینز کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دیتے وقت آرٹیکل 233 کی غلط تشریح ہوئی، پانچ رکنی لارجر بینچ نے بنیادی حقوق معطل ہونے کا تاثر لیا، بنیادی حقوق ایمرجنسی کی صورت میں معطل ہوئے تھے۔ 

جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس کیس میں تو بنیادی حقوق معطل ہونے کا کوئی تعلق نہیں، پرویز مشرف دور میں اپیل کا حق نہ دے کر حقوق معطل ہوئے تھے۔خواجہ حارث نے کہا کہ آرٹیکل 8(3) کے مطابق جہاں ذکر ہے وہ مانتے ہیں۔جسٹس امین الدین خان نے سوال اٹھایا کہ اس معاملے میں ایمرجنسی والی تو کوئی بات نہیں؟

جسٹس محمدعلی مظہر نے کہا کہ بنیادی حقوق معطل کرنے کیلئے ایمرجنسی ہونا ضروری ہے، یہ معاملہ مختلف ہے کہ سویلینز کا ٹرائل ہوسکتا ہے یا نہیں۔خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلے میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے آرٹیکل 233 کو غیر مؤثر کردیا، آرٹیکل 233 کا خصوصی عدالتوں کے کیس سے کوئی تعلق نہیں تھا، آرٹیکل 233 کو آرٹیکل 8(5) کی تشریح درست ثابت کرنے کیلئے چھیڑا گیا، آرٹیکل 233 کے تحت صدر ایمرجنسی نافذ کرنے بنیاد حقوق معطل کر سکتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایمرجنسی کے دوران بنیادی حقوق پر عدالتوں سے عملدرآمد نہیں ہوسکتا، اس نکتے پر سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں کہ عدالت اپنا اختیار استعمال کروا سکتی ہے۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ بنیادی حقوق کا عدالتوں میں دفاع ہوسکتا ہے صرف عملداری معطل ہوتی ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ موجودہ کیس میں ملزمان کو فوجی تحویل میں لیا گیا تو بنیادی حقوق معطل نہیں تھے، ملزمان کوفوجی تحویل میں لیا گیا تو ایمرجنسی بھی نافذ نہیں تھی۔

خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے عملدرآمد روکنا بنیادی حقوق معطل کرنے کے برابر ہے۔ جسٹس جمال خان مںدوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 233 میں یہ نہیں کہا گیا کہ بنیادی حقوق معطل ہوسکتے ہیں، صدر بائے آرڈر کہہ سکتا ہے کہ بنیادی حقوق معطل ہوتے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایمرجنسی کی شق کا اس سے ڈائریکٹ تعلق نہیں ہے۔خواجہ حارث نے کہا کہ اس میں ایسی کوئی بات نہیں کہ آرٹیکل 233 کی خلاف ورزی ہو۔