فاطمہ جناح سے مادرِ ملت تک
ایک عظیم بہن، لیڈر، سیاستدان اور مصنفہ
محمد علی جناح کا نقشِ ثانی مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح
حافظ غلام صابر
g.sabir1988@gmail.com
محترمہ فاطمہ جناح کو قدرت نے پچپن سے ہی محنتی اور مستقل مزاج بنایا تھا۔ آپ نڈر، بے باک، غیرت مند، پر خلوص، پر اعتماد، دیانت دار، حُب الوطنی، اصول پسندی اور حق گوئی جیسی عظیم صفات کی مالک تھیں۔آپ قائداعظم محمد علی جناح کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بہن تھیں۔ آپ 31 جولائی 1891 ءکوکراچی میں پیدا ہوئیں۔ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی فکر و عمل پاکستانی قوم کیلئے مشعل راہ ہے۔ انہوں نے نہ صرف تحریک پاکستان میں قائداعظم محمد علی جناح کے شانہ بشانہ کردار ادا کیا بلکہ قیامِ پاکستان کے بعد جمہوری اقدار کی سربلندی کی خاطر فوجی آمر جنرل محمد ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخابات میں حصہ لے کر قوم کو نئے حوصلے اور عزم سے سرشار کیا اور قائداعظم محمد علی جناح کا نقشِ ثانی ثابت ہوئیں۔ قائدِ اعظم اور فاطمہ جناح کی زندگی کی کہانی ساتھ ساتھ چلتی ہے جسے ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ دونوں بہن بھائی کی محبت اور رفاقت کی مثال دنیا بھر میں نہیں ملتی۔ قائداعظم کو اپنی بہن سے بہت محبت تھی اور انہیں ہمیشہ اپنے ہمراہ رکھتے تھے۔فاطمہ جناح بے پناہ خلوص اور لگن کے ساتھ تحریک پاکستان میں سرگرم رہیں اور قائداعظم کا دست و بازو ثابت ہوئیں۔ مسلم لیگ کے جلسوں کے ساتھ ساتھ خواتین کے اجتماعات کا بھی انعقاد کیا جاتا تھا۔ جس میں محترمہ فاطمہ جناح خواتین کو تحریک پاکستان میں بھر پور حصہ لینے کی تلقین کر تیں۔قائداعظم کو اس حقیقت کا ادراک تھا کہ ہندوستان کی مسلمان خواتین کو متحرک کیے بغیر قیامِ پاکستان کی منزل حاصل نہیں کی جاسکتی۔ مادرِملت اس مرحلے پر صف اوّل میں دکھائی دیتی ہیں انہوں نے مسلمان خواتین کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سبز ہلالی پرچم تلے جمع کرنے کا بیڑا اُٹھایا اور بہت قلیل وقت میں انہیں منظم اور متحرک کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔
فاطمہ جناح ابھی دو سال کی ہی تھیں کہ آپ کی والدہ کا انتقال ہو گیااور آپ ماں کی شفقت اور محبت سے محروم ہو گئیں۔ پھر آپ کی بڑی بہن مریم نے آپ کی پرورش کی۔ جب فاطمہ جناح نے ہوش سنبھالا تو گھر میں اپنے عظیم بھائی کے تذکرے سنے فاطمہ کے دل میں بھائی کی محبت ٹھاٹھیں مارنے لگی اور وہ بھائی سے ملنے کا بے قراری سے انتظار کرنے لگیں۔کیونکہ ان دنوں قائدِ اعظم محمد علی جناح وکالت کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انگلستان گئے ہوئے تھے۔فاطمہ جناح کا بچپن دوسری لڑکیوں سے مختلف تھادوسری بچیوں کی طرح آپ کو کھیل کود اور زیورات وغیرہ سے رغبت نہ تھی۔ وہ چاکلیٹ شوق سےکھاتیں، سادہ لباس پہنتیں اور فرصت کے لمحات میں سائیکل چلاتی تھیں۔ اپریل1902 ءمیں آپ کے والدجناح پونجا کا انتقال ہو گیا۔ پھر آپ کی تعلیم و تربیت کی تمام ذمہ داری آپ کے بڑے بھائی محمد علی جناح نے اٹھائی۔ قائدِ اعظم ایک پڑھے لکھے اور روشن خیال انسان تھے۔ انہوں نے فاطمہ کو باندرہ کے ایک سکول میں داخل کروایا۔ جہاں آپ نے دل لگا کر محنت کی اور اپنی کلاس میں اول آتی تھیں۔1906 ءمیں قائدِ اعظم نے انہیں سینٹ پیٹرک سکول گھنڈا میں داخل کروایا۔ جہاں سے فاطمہ جناح نے 1910 ءمیں اعلیٰ نمبروں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1913 ءمیں فاطمہ جناح نے سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کیا۔ اب ان کو انگریزی زبان پر عبور حاصل ہو گیا تھا۔ 1918 ءمیں قائدِ اعظم کی شادی ہو ئی اور اس دوران فاطمہ جناح نے احمد ڈینٹل کالج کلکتہ میں داخلہ لیااور باقاعدہ دندان سازی کی تربیت حاصل کرنے لگیں۔ 1922 ءمیں انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی اور بمبئی میں اپنا کلینک کھولا۔ غریب اور نادار مریضوں کے علاج کے لیے انہوں نے ایک خیراتی ڈینٹل کلینک بھی کھولا جہاں شام کے وقت وہ مریضوں کا مفت علاج کرتی تھیں۔ 1929 ءمیں قائدِ اعظم کی بیگم کا انتقال ہو گیا۔اس غمناک واقعہ کے بعد انہوں نے اپنے عظیم بھائی کو تنہا نہیں رہنے دیا۔ آپ نے اپنے بھائی کی تیمارداری کی خاطر اپنی ڈینٹل پریکٹس ترک کردی اور تمام گھریلو امور کی اس طرح دیکھ بھال کی کہ انہیں تفکرات سے بالکل آزادکردیا اور وہ پوری دلجمعی اور یکسوئی کے ساتھ آزادی کی جدوجہد میں منہمک ہوگئے۔
اب سیاسی میدان میں بھی فاطمہ اپنے بھائی کا ساتھ دینے لگیں۔ آپ محمد علی جناح کو نہایت دانش مندانہ مشورے دیتیں اور وہ ان کے مشوروں کو سراہتے۔ رفتہ رفتہ قائدِ اعظم ان کو اپنے ہر معاملے میں شریک کرنے لگے۔ 1930 ءمیں گول میز کانفرس میں شرکت کے لیے لندن گئے تو فاطمہ بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ لندن میں وہاں کی تعلیمی اور معاشرتی زندگی کو قریب سے دیکھ کر فاطمہ جناح کو احساس ہوا کہ ہندوستانی معاشرہ بہت پسماندہ ہے۔ واپس آ کر انہوں ہندوستانی عوام خصوصاً عورتوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بھر پور کوششیں کیں۔ آپ نے مسلم طالبات کی انجمنیں قائم کیں۔ مختلف مقامات پر خواتین کے جلسوں میں خطابات کیے۔ خواتین کو اسلامی تعلیمات کے حصول کے لیے بہت زور دیا۔ اپریل 1943 ءمیں مسلم وویمن سٹوڈنٹس فیڈریشن دہلی کے اجلاس میں آپ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ''تعلیم ایک اہم ترین ستون اور وہ بنیاد ہے جس پر قوم کی تعمیر کی جاسکتی ہے۔'' فاطمہ جناح سب کے ساتھ شفقت سے پیش آتیں، خواتین کی حوصلہ افزائی کرتیں اور فرماتیں: ''ہم میں سے ہر ایک، جس سے جتنا ہو سکے اپنی قوت اور حیثیت کے مطابق اپنے خاندان، پڑوسیوں، دوستوں اور عزیزوں میں عملی قوت کی روح پھونک دے۔ اور ان میں قومیت کا جذبہ بیدار کرے۔ اس طرح ہم اپنی قوم کی کچھ مدد کرسکتے ہیں۔'' قائدِ اعظم بھی یہ سمجھتے تھے کہ آزادی کی جدو جہد میں عورتوں کو بھی مَردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا چاہیے۔قائدِ اعظم فاطمہ جناح کوفُل کونسل کہتے ، روشنی کی کرن قرار دیتے اور پیار سے فاطی کہتے تھے۔23 مارچ 1940 ءقراردادِ پاکستان کی منظوری کے موقع پر بھی فاطمہ جناح قائدِ اعظم کے ساتھ تھیں۔ تحریکِ پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے حوالے سے محترمہ فاطمہ جناح کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ مادرِملت کے اس ایثار کی بدولت ہی قائداعظم نے کامیابی حاصل کی۔ وہ عزم و استقلال کی پیکر تھیں۔ وہ انتہائی مشکل حالات میں بھی صبر اور حوصلے کے ساتھ اپنے بھائی کے شانہ بشانہ رہیں۔بالاخر 14 اگست 1947ءکوقائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں بے شمار قربانیوں کے بعد عظیم منزل کا حصول ممکن ہوا۔
قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی ایام میں مہاجرین کی امداد کے لیے فاطمہ جناح نے بے شمار جلسے کیے اور چندہ جمع کیا۔ ہر وقت مہاجر کیمپوں کے حالات سے باخبر رہتیں۔ 2 نومبر 1947 ءکو ریڈیو پاکستان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ''میں نے لاہور آنے کے بعد مہاجرین کے کیمپوں، اسپتالوں اور زنانہ مراکزِ دستکاری کا خود معائینہ کیا ہے اور دکھے ہوئے دل کے ساتھ ان مصیبتوں اور سختیوں کا حال سنا ہے جو بے شمار عورتوں اور بچوں پر گزری ہیں۔ ہم اپنی مملکت کی تاریخ کے ایک نہایت اہم دور سے گزر رہے ہیں۔ آئیے عہد کریں کہ ہم اس مملکت کی بقاءکے لیے کوئی کسر نہ چھوڑیں گے۔'' فروری 1948ءمیں انہوں نے مسلم وویمن انڈسٹریل ہوم کراچی کا افتتاح کیا اور وہاں مہاجرین کے لیے مختلف فنون اور دستکاریوں کی تعلیم کا بندوبست کیا۔
ہمارے ماہرین تاریخ وسیاست نے مادر ملت کو قائد اعظم کے گھر کی دیکھ بھال کرنے والی عظیم بہن کے حوالے سے بہت بلند مقام دیا ہے لیکن انہوں نے قیام پاکستان اور خصوصاً 1964ءکے بعد کے سیاسی نقشے پر جو حیرت انگیز اثرات چھوڑے ہیں ان کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی۔ یعنی 1948ءسے 1967ءتک کے اس دوسرے دور میں ان کی اپنی شخصیت کچھ اس طرح ابھری اور ان کے افکارو کردار کچھ اس طرح نکھر کر سامنے آئے کہ انہیں بجا طور پر قائد اعظم کی جمہوری،بے باک اور شفاف سیاسی اقدار کو ازسر نو زندہ کرنے کا کریڈیٹ دیا جا سکتا ہے جنہیں حکمران بھول چکے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب انہوں نے لوگوں کو قائد اعظم کے اصولوں سے انحراف کرتے دیکھا تو ان کے خلاف آواز بلند کی۔مخالفین کی جانب سے ان کی آواز کو دبانے کی بھر پور کوشش کی گئی اور ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ وہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلیں لیکن فاطمہ جناح نے ہمت کی علامت بن کر پورے ملک کا دورہ کیا اور اپنے خطبات کے ذریعے ملک میں جمہوریت کی روح پھونکی۔ایسی بلند ہمت اور نڈر خاتون کسی قوم میں صدیوں بعد پیدا ہوتی ہے۔
وہ اپنے عظیم بھائی کی وفات کے بعد کم و بیش 19برس تک زندہ رہیں اور اپنی زندگی کے آخری سانس تک پاکستان کے حکمرانوں کی قومی پالیسیوں کا احتساب کرتی رہیں۔ان کا سب سے بڑا معرکہ 1964ءکے وہ صدارتی انتخابات تھے جن میں انہوں نے اس زمانے کے فوجی ڈکٹیٹر، فیلڈ مارشل ایوب خان کاڈٹ کر مقابلہ کیا اور خوف و ہراس کی اس دبیزتہ کو جڑ سے اکھاڑدیا۔جس کو ملتِ پاکستان پر مسلط کرکے ایوب خان اپنی حاکمیت اور آمریت کا وقت گزار رہے تھے۔ انتخابات کے موقع پر ایوب خاں کی نکتہ چینی کے جواب میں مادر ملت نے کہا: ''ایوب فوجی معاملات کا ماہر تو ہو سکتا ہے لیکن سیاسی فہم و فراست میں نے قائد اعظم سے براہ راست حاصل کی ہے اور یہ ایسا شعبہ ہے جس میں آمر مطلق نا بلد ہے۔''
مادرِ ملت فوجی آمریت کے خلاف میدان میں نکلیں کیونکہ وہ سمجھتی تھیں کہ پاکستان ایک جمہوری عمل کے ذریعے معرضِ وجود میں آیا ہے اور اس کی ترقی و استحکام کا دارومدار بھی جمہوری اقدار سے مضبوطی کے ساتھ وابستہ رہنے میں ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو تحریک پاکستان کا لازمی مطالعہ کرنا چاہیے تا کہ ان تمام مصائب اور قربانیوں کے بارے میں آگہی حاصل ہو سکے جو اس مملکت پاکستان کی خاطر ہمارے بزرگوں نے دی ہیں۔ صدارتی انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے ان کی فتح کو شکست میں تبدیل کر دیا گیا۔ تحریکِ پاکستان میں سرگرم کردار ادا کرنے کے ساتھ مادرِ ملت نے قائداعظم کی وفات کے بعد قوم کی فکری رہنمائی کا فریضہ بھی بڑی تندہی سے ادا کیا۔ انہوں نے قوم پر واضح کیا کہ قائداعظم کس قسم کا پاکستان چاہتے تھے۔ وہ خواتین کو تعلیم یافتہ بنا کر انہیں ترقی کے مساوی مواقع فراہم کرنا چاہتے تھے۔ مادرملت محترمہ فاطمہ جناح سراپا جمہوریت تھیں اور انہوں نے جمہوری اقدار کے فروغ کیلئے بے شمار قربانیاں دیں۔ہمیں ان کے کردار اور افکار سے بہت کچھ سیکھنا چاہئے۔ پاکستان میں اسلامی روایات و اقدار کی مکمل پیروی ہونی چاہئے۔ محترمہ فاطمہ جناح وہ عظیم خاتون تھیں جنہوں نے جمہوری اصولوں کی نہ صرف خود پاسداری کی بلکہ دوسروں کو بھی یہ روش اپنانے کی تلقین کی۔
6ستمبر 1965ءکو جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو اس کڑے وقت میں مادرِ ملت نے تمام سیاسی رہنما¶ں سے اپیل کی کہ وہ آپس کے تمام اختلافات ختم کر کے دشمن کے خلاف متحد ہو جائیں۔ اپریل 1967ءمیں عید الاضحیٰ کے موقع پر قوم سے اپنا آخری خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ''ملک میں پارلیمنٹ، پریس اور عدلیہ آزادہونی چاہیے۔ جبھی ملک میں جمہوریت قائم ہو سکتی ہے۔'' انہوں نے ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے عوام سے جدوجہد جاری رکھنے کی اپیل کی۔ قائدِ اعظم کی طرح انہوں نے بھی اپنی تمام زندگی قوم کے لیے وقف کر دی تھی۔
محترمہ فاطمہ جناح کو نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر جناب مجید نظامی نے احتراماً ''مادرِ ملت'' یعنی قوم کی ماں کا لقب دیااور پھرپوری قوم نے اس لقب کو محترمہ فاطمہ جناح کے نام کے لازمی جزو کے طور پر تسلیم کرلیا، مجید نظامی کی تجویز پر ہی حکومت پاکستان نے 2003 ءکو”سال مادرِ ملت“ کے طور پر قومی سطح پر منانے کا فیصلہ کیا تھا۔محترمہ فاطمہ جناح ایک عظیم بہن، لیڈر اور سیاستدان کے ساتھ ساتھ ایک اعلیٰ پائے کی لکھاری / مصنفہ بھی تھیں۔ نومبر1954ءمیں ہیکٹربولائتھوکی کتاب ''جناح۔بانی پاکستان'' شائع ہوئی۔ اگرچہ یہ کتاب ایک اچھی سوانح حیات تھی مگر قائدِ اعظم کے شایانِ شان نہ تھی۔اس وقت بڑی شدت یہ بات محسوس ہوئی کہ بانی پاکستان پر ایک مستند سوانح حیات لکھی جائے۔جس میںحیاتِ قائد کے تمام پہلو نمایاں ہوں۔پھر مادرِ ملت نے مختصر لیکن جامع کتاب ''میرا بھائی'' لکھی۔ اس کا مسودہ آج بھی نیشنل آرکائیوزآف پاکستان اسلام آباد میں محفوظ ہے۔''میرا بھائی'' اگرچہ ایک چھوٹی کتاب ہے لیکن اپنے نفسِ مضمون اور مواد کے اعتبار سے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔اس میں قائدِ اعظم کی شخصیت کے مختلف پرت کھول کھول کر بیان کیے گئے ہیں۔
8 جولائی 1967ءکی شام مادرِ ملت ایک شادی کی تقریب میں شرکت کے بعد اپنے گھر ''قصرِ فاطمہ'' کی پہلی منزل پر آرام کے لیے چلی گئیں۔ اگلی صبح جب کافی دیر تک دروازہ نہ کھلا تو ملازم نے شور مچا دیا۔ جب دروازہ کھولا گیا تو آپ اپنے بستر پر لیٹی تھیں۔ ڈاکٹرز نے معائنہ کرنے کے بعد اعلان کیا کہ رات کو حرکتِ قلب بند ہونے کی وجہ سے ان کی موت واقع ہو گئی ہے۔آپ اس نہایت پُراسرار انداز میں اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئیں۔ تقریباً چار لاکھ افراد نے آپ کے جنازے میں شرکت کی اور آپ کو مزارِ قائد کے احاطے میں دفن کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے مزار پر اپنے خاص انوار و تجلیات کا نزول فرمائے۔ آمین