وہ ایک شاعر ”ناصر زیدی“
سیّدناصر زیدی کسی تعارف کے محتاج تو نہیں ہیں مگر پھر بھی یہاں اُن کا مختصر تعارف کرانا ضروری سمجھتی ہوں۔ ناصر زیدی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ محقق، کالم نگار، مدیر، ٹی وی اور ریڈیو کے جانے پہچانے کمپیئر تھے۔ اُنہوں نے ابتدائی تعلیم پاکستان ہائی سکول موہن پورہ راولپنڈی سے حاصل کی۔ پانچویں جماعت میں تھے کہ وہ ماڈل ٹاؤن لاہور آگئے۔ گورنمنٹ ہائی سکول وحدت کالونی سے میٹرک کا امتحان نمایاں حیثیت سے پاس کیا۔ ایف اے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے کیا۔ اسلامیہ کالج سول لائنز سے بی اے اور پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج میں ایم اے اُردو میں داخلہ لیا۔
ناصرزیدی کے بچپن کے دوست عطاء الحق قاسمی تھے جس کے ساتھ اُنہوں نے اپنا بچپن گذارا۔ وہ بارہ تیرہ برس کے تھے کہ اُنہوں نے اپنے بچپن کے دوست عطاء الحق قاسمی کے ساتھ آٹھویں نویں کلاس ہی میں خود کو باقاعدہ شاعر کہلوانا اور سمجھنا شروع کردیا تھا۔ وہ خود بتایا کرتے کہ اُنہوں نے کبھی بھی نوکری کے لیے کہیں بھی تحریری درخواست نہیں دی تھی۔ ناصرزیدی نے آج تک جتنے بھی کام کیے سب زیادہ تر ادب و صحافت سے متعلق تھے۔ وہ 18کے قریب رسائل و جرائد کے ایڈیٹر رہے۔ اُنہوں نے اُنیسویں گریڈ میں ”سپیچ رائٹر ٹو دی پرائم منسٹر“ کے طور پر مختلف وزرائے اعظم کے ساتھ بارہ سال گذارے۔ اس کے علاوہ ٹی وی، ریڈیو پر مشاعروں کی نظامت اور ہمہ جہت آؤٹ سٹینڈنگ ٹیلنٹ کے طور پر وابستگی رہی۔ انہوں نے نیوزکاسٹر اور براڈکاسٹر کے فرائض بھی انجام دئیے۔ ناصرزیدی نے ریڈیوپاکستان میں متنوع کام کیا۔ انہیں آڈٹ اٹینڈنگ کیٹگری کے طور پر کئی اعزازات اور ایوارڈز سے بھی نوازا جا چکا ہے۔
ریڈیوپاکستان کے ”یادِ باغ“ میں اُن کے ہاتھ سے لگایا ہوا پودا آج بھی اپنی ایستادہ حالت میں سرسبزو شاداب ہے۔ آخری ایام میں وہ ادبِ لطیف کے مدیراعلیٰ تھے اور اس رسالے کی سرپرست صدیقہ بیگم کا نمبر نکال رہے تھے۔ جبکہ اگلے ماہ احمدفراز کی سالگرہ پر ان کے نمبر کی بھی تیاریاں زوروشور سے جاری تھیں۔ افسوس ان کو موت نے مہلت نہ دی۔ اُن کی تصانیف میں ”ڈوبتے چاند کا منظر“، ”وصال“، ”التفات“ اُن کے شعری مجموعے ہیں۔ ان کے علاوہ وہ ڈیڑھ درجن مختلف کتب کے مؤلف اور مرتب رہے۔ جن میں ”وہ رہبر ہمارا وہ قائد ہمارا“ اور علامہ اقبال کے بارے میں ”بیادِ شاعر مشرق“ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
ناصرزیدی صاحب سے ہمارے خاندان یعنی صوفی تبسم (دادا) سے پوتی تک کا سفر کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ وہ ہمارے گھر اکثر آتے اور داداجان سے گفتگو کرتے کاغذات کا تبادلہ ہوتا اور وہ چلے جاتے۔ داداجی کے زمانے سے ناصرزیدی صاحب کے حوالے سے یادداشت میں ایسے ہی چند لحظات جھلملاتے نظر آتے ہیں۔ وہ داداجان کی وفات کے بعد میرے چچا پروفیسر صوفی نثار احمد اور میرے والد محترم پروفیسر صوفی گلزاراحمد سے بھی اکثر ملتے رہتے۔ صوفی تبسم کی شخصیت فن اور تحاریر کے حوالے سے میرے بزرگوں سے ملاقات کے دوران مسلسل اُن کی معاونت کرنے کا کام بھی ناصرزیدی صاحب سرانجام دیا کرتے تھے۔ انہوں نے صوفی تبسم اکیڈیمی کے حوالے سے ہمیشہ اچھی تجاویز بھی دیں یوں اس خانوادے سے اُن کا تعلق مزید ہماری سمجھ میں آتا چلا گیا۔ ناصرزیدی صاحب سے جب میری ملاقات ہوئی تو میں بھی افسانے اور شاعری لکھ رہی تھی۔ انہوں نے میرے والد کی طرح مجھے بے حد محبت اور پیار سے میری سرپرستی کی اور اُردو کے تلفظ سے لے کر اُردو کی تحریروں میں بھی کئی مرحلوں پر میری رہنمائی فرمائی۔ میری افسانوں کی کتاب ”حیرت و مستی‘ کا دیباچہ بھی اُنہوں نے تحریر کیا۔ وہ میری بولڈ تحریروں پر بعض اوقات حیران بھی ہوتے۔ شاعری کی کتاب ”لیکن جانا پار تو ہے“ کا فلیپ بھی اُنہوں نے ہی تحریر کیا۔ پھر کئی برسوں کا سفر یوں بھی گذرا کہ وہ بھی ریڈیوپاکستان لاہور بہت سے پروگرام کرتے خاص طور پر ”تخلیق“ جس کی پروڈیوسر عفت علوی تھیں اور میں فوجی بھائیوں کا پروگرام ”پاسبان“ کیا۔ میرے دادا صوفی تبسم کی جب بھی سالانہ برسی ہوتی وہ ریڈیو پر ضرور کوئی نہ کوئی پروگرام ترتیب دلایا کرتے اور اُن کے ساتھ گزرے واقعات کو بیان کرتے۔ ناصرزیدی میرے دادا کے ساتھ بہت محبت کرتے وہ اُنہیں کبھی نہ بھولے تھے۔ اُن کے بارے میں بھی کئی واقعات سناتے، یوں اُن سے مجھے ہر لحاظ سے گائیڈینس ملتی رہی۔ اُن سے بہت سے ادبی موضوعات پر بحث ہوتی اُن سے ملنے اکثر بہت سی ادبی شخصیات آتی تھیں وہ کبھی Tea House اور کبھی Holiday Inn میں لوگوں کو ملنے کا ٹائم دیتے اور وہاں سارا سارا دن گذارتے اور شام کو اپنا کالم روزنامہ پاکستان دینے کے بعد گھر چلے جاتے تھے۔ میری ملاقات جامی صاحب،شاکر صاحب اور اُن کے شاگرد آصف صاحب سے اُنہی کے گھر ہوئی۔ آصف صاحب اُن سے بہت محبت کرتے۔ اُنہوں نے اُن سے بہت محبت نبھائی۔ جب بھی کوئی مہمان ناصرزیدی کے گھر آتا وہ سب کی تواضع اپنے گھر کے پکوڑوں اور چائے سے کرتے یہ اُن کی سعادت مندی تھی۔ ناصرزیدی اس عمر میں کتابوں کو پڑھنے اور مختلف شاگردوں کو گائیڈ کرتے جو ان پر M.Phil اور Ph.D وغیرہ کررہے تھے۔ پھر کتابوں کے مسودے پڑھتے ادبِ لطیف کے نمبر نکالتے گو وہ ہروقت انہی کاموں میں جُٹے رہتے۔
پھر ایک بار یونہی بات ہوئی موت کیا چیز ہے؟ ہنس کر بولے بھئی موت Peace ہے یہ سکون کا نام ہے۔ موت اگر آگئی تو ہم بڑھ کر اُس کا استقبال کریں گے۔ اسی لیے ہم روز اپنی شیو بناتے ہیں نہا دھو کر صاف کپڑے پہنتے ہیں۔ کیا پتا کب موت آجائے۔ جب موت آئے گی تو لوگ ہمارا چہرہ ہی تو سب سے پہلے دیکھیں گے۔ اُس وقت ہمارا چہرہ صاف ستھرا اور پاک صاف کپڑے ہونے چاہئیں۔
وہ موت سے واقعی نہیں ڈرے اور اپنے بیٹے عدیل ناصر زیدی سے باتیں کرتے کرتے اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کردی اُن کا چہرہ آج بھی بارعب تھا وہ تازہ دم مسکراتے کھلتے چہرے کے ساتھ خاک کی آغوش میں چلے گئے بالکل ویسے ہی۔
میں اس کی شان قلندری سے بہت ہی محظوظ ہو رہی تھی
پھر ایک دن وہ یونہی اچانک ہمارے گھر کے اُداس آنگن میں آ کے بیٹھا
عجب سی خوشبو لٹا کے بیٹھا
لگن کی دھونی رما کے بیٹھا
میری عقیدت کی ساری سوچوں کو ایک مرکز
پہ لا کے بیٹھا!
میں کیا ہوں؟
کیوں ہوں؟
وجودِ خاکی میں کس لیے ہوں!
میں خود سے اکثر سوال کرتی
عدم سے موجود کے سفر میں
میں دل ہی دل میں ملال کرتی
مگر مجھے اب یقین واثق سا ہو چلا ہے
کہ اس نے مجھ کو جو خود سے چھو کر
یہ جاں سے پیارا قلم دیا ہے
کہ اس سے پہلے
جو میری ہستی میں اِک خلا تھا
اسے تخیل سے بھر دیا ہے
میں اس قلم سے ہر ایک مصرعے کو
اپنے تازہ لہو سے اک دن اجال دوں گی
اسی قلم سے میں زندگی کے
حسین خوابوں کو زندہ پیکر میں ڈھال دوں گی!