تنخواہ دار طبقے، کاروباری شخصیات کو انکم ٹیکس کی ایک ہی کیٹیگری میں لانے کی تیاری
اسلام آبا د(آن لائن)بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے مطالبے پر پاکستان بھر کے تنخواہ دار طبقے کو مزید رگڑا لگانے کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔ آئی ایم ایف نے پاکستان سے کہا ہے کہ تنخواہ دار طبقے اور کاروباری شخصیات کو انکم ٹیکس کی ایک ہی کیٹیگری میں رکھا جائے۔تنخواہ دار طبقے کی بلند ترین قابلِ ٹیکس آمدنی کی حد نیچے لائی جارہی ہے۔ اس کے نتیجے میں ماہانہ 3 لاکھ 33 ہزار روپے کمانے والوں کو کم و بیش 35 فیصد انکم ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔اس وقت کاروباری شخصیات سے 3 لاکھ 33 ہزار روپے ماہانہ کی بنیاد پر 35 فیصد انکم ٹیکس چارج کیا جارہا ہے جبکہ تنخواہ دار طبقے کے لیے بلند ترین انکم ٹیکس ماہانہ 5 لاکھ روپے کی حد سے شروع ہوتا ہے۔آئی ایم ایف نے حکومت کو پابند کیا ہے کہ انکم ٹیکس سے چھوٹ کی حد 50 ہزار روپے ماہانہ رہنے دی جائے، اس میں مزید رعایت نہ دی جائے۔ اس کے نتیجے میں لوئر مڈل کلاس کے وہ لوگ متاثر ہوں گے جن کی ماہانہ تنخواہ 50 ہزار سے ایک لاکھ درمیان ہے۔روز افزوں مہنگائی کے باعث لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والوں کی قوتِ خرید میں تیزی سے کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔ آئی ایم ایف نے بجٹ کے حوالے سے اپنی سفارشات میں کہا ہے کہ ٹیچرز اور محققین کے لیے میسر انکم ٹیکس کریڈٹس اور الاؤنسز ختم کردیے جائیں۔آئی ایم ایف نے کاروباری افراد اور تنخواہ دار طبقے سے اضافی 650 ارب روپے وصول کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے تاکہ حکومت اس کے قرضوں کا سود اور اصل کی قسط ادا کرنے کے قابل ہوسکے۔ اس منصوبے کے نتیجے میں متعین تنخواہ والے مزید زیرِبار ہوں گے۔
انکم ٹیکس
اسلام آباد(آئی این پی)آئی ایم ایف نے پاکستان پر زوردیا ہے کہ وہ ملک میں مشکل سے حاصل کردہ استحکام سے فائدہ اٹھائے، مضبوط، جامع اور پائیدار ترقی پیدا کرنے کے لئے مضبوط میکرو اکنامک پالیسیوں اور ساختی اصلاحات لائی جائیں جبکہ سگریٹ جیسی غیر ضروری اشیا پر ٹیکس کو بین الاقوامی معیار کے برابر لایا جائے۔ یہ بات اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک کیپٹل کالنگ نے آئی ایم ایف کے ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر اور چیئر انٹونیٹ سیح کی آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ اجلاس کے بعد گفتگو کے حوالے سے کہی ہے تھنک ٹینک کیپٹل کالنگ نے کہا ہے کہ یہ حوصلہ افزا ہے کہ ملک "828 ملین ایس ڈی آر (تقریبا 1.1 ارب ڈالر)کی فوری تقسیم حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے، جس سے اس معاہدے کے تحت مجموعی تقسیم 2.250 بلین ایس ڈی آر (تقریبا 3 ارب ڈالر)ہوگئی ہے"۔ تاہم، اس نے نشاندہی کی کہ ملٹی نیشنل سگریٹ کمپنیاں ملک کو حاصل کردہ اس "مشکل سے حاصل کردہ استحکام" سے ناخوش ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ سگریٹ جیسی غیر ضروری اشیا پر ٹیکس کو بین الاقوامی معیار کے برابر لایا جائے۔ جہاں تک سگریٹ کا تعلق ہے تو ہم خطے میں سب سے سستے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)کی جانب سے سگریٹ پر ٹیکس عائد کرنے کے لیے طے کیے گئے پیرامیٹرز میں اس مصنوعات کی وجہ سے معاشرے میں اموات اور بیماریوں کے حجم کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ 24 ملین سے زائد پاکستانی فعال تمباکو نوشی کرتے ہیں جو غیر فعال افراد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ ملک سگریٹ کی پیداوار کے لئے ایک پناہ گاہ بن گیا ہے کیونکہ اس کا شمار ان 9 غریب ریاستوں میں ہوتا ہے جو دنیا بھر میں سگریٹ کی پیداوار کا 90 فیصد حصہ رکھتے ہیں۔ یہ تمباکو کے شعبے کے لئے پناہ گاہ بن گیا ہے کیونکہ پاکستان میں ریگولیٹرز پر ایم این سی کو بے پناہ طاقت حاصل ہے۔ صرف ہیرا پھیری کی طاقت ہی گزشتہ سات سالوں میں 567 ارب روپے کے تخمینے کے نقصان کی ذمہ دار ہے۔ یہ اعداد و شمار حال ہی میں کیے گئے ایک مطالعہ ایس ڈی پی آئی سے سامنے آئے ہیں۔ تھنک ٹینک نے ایک سرکاری ادارے پی آئی ڈی ای کی ایک تحقیقی رپورٹ کا بھی حوالہ دیا، جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ "جب حکومت نے 2019 میں تیسرے درجے کے ٹیکس کو ختم کیا تھا جس نے مثر طور پر کم کیا تھا۔تمباکو کی صنعت کی جانب سے ٹیکسوں سے بچ کر سستے سگریٹ فروخت کرنے کی صلاحیت کے باعث اس صنعت کا ٹیکس کنٹری بیوشن 2016 کے 92 ارب روپے کے مقابلے میں بڑھ کر 120 ارب پاکستانی روپے (روپے) تک پہنچ گیا۔ اس سے مجموعی ٹیکس وصولی میں تمباکو کی صنعت کا حصہ مالی سال 16 میں 2.15 فیصد سے بڑھ کر 3 فیصد ہو گیا۔
تھنک ٹینک