محبوب کا ذکر
یہ فروری کی ایک خنک رات تھی۔ زمین سے آسمان تک چاندنی کا نور پھیلا ہوا تھا۔ چاندنی میں جھیل کا پانی دودھیا لگ رہا تھا۔ ہوا کے نرم جھونکے طبیعت کو فرحت و انبساط سے سرشار کررہے تھے۔ درخت جھوم رہے تھے اور پرندے گھونسلوں میں چپ چاپ بیٹھے مناظر فطرت سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ ہم جس مکان میں بیٹھے تھے اس کی ایک کھڑکی جھیل کی جانب کھلتی تھی۔ یہاں سے نشیب میں واقع سارے گاوں صاف دکھا ئی دیتے تھے۔ کچے مکانوں کی منڈیروں سے جھانکتے زرد رو بلب بھلے لگ رہے تھے۔ ہر طرف خاموشی کا راج تھا کبھی کبھار مرغ کی بانگ خاموشی کے پردوں کو چیرتی کانوں سے آٹکراتی۔ اتنا اجلا ، پاکیزہ اور نکھرامنظر میں نے زندگی بھر نہیں دیکھا تھا۔ فطرت کا سارا حسن و جمال ایک جگہ سمٹ آیا تھا۔ یہ سب کچھ مجھے کوئی خواب لگ رہا تھا۔ میں اس سارے منظر کو آنکھوں کے راستے دل اور روح میں اتار لینا چاہتا تھا۔ باہر جس قدر نور تھا کمرے میں اس سے بڑھ کر پاکیزگی چھائی ہوئی تھی۔ نعت خواں گویا تھا:
مدحت میں آپ کی یہ قلم ضو فگن رہے گا
ذکر نبی سے قائم شہر سخن رہے گا
اشکوں سے آبیاری جس کی حضور نے کی
اسلام کا سدا مہکتا وہ چمن رہے گا
(احمد حسن)
ذکر نبی سن کر ہر دل جھوم جھوم رہا تھا۔ میں اس ماحول اور محفل سے نکل کر بہت پیچھے چودہ سو سال پہلے کے ماحول میں پہنچ گیا۔ میری چشم تصور میں آپ کا سراپا ابھر آیا؛ مقدس، پاکیزہ اور حسین سراپا........ آپ لوگوں کو اسلام کے ابدی پیغام کی طرف بلا رہے ہیں ، جواباً آپ کو پتھر مارے جارہے ہیں،آپ پر کوڑا کرکٹ ڈالا جارہا ہے، آپ کو ہنسی مذاق اور ٹھٹھے کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ دشمن کہہ رہے ہیں کہ آپ کا کوئی بیٹا نہیں ہے، دنیا سے رخصت ہونے کے بعد آپ کا نام و نسب مٹ جائے گا......... آپ خاموش رہتے ہیں ۔ آپ کی طرف سے جواب خود اللّٰہ تعالیٰ دیتا ہےکہ ہم نے اپنے محبوب کا نام ہمیشہ کے لیے بلند کردیا ، دشمن کون ہوتے ہیں آپ کا نام و نسب مٹانے والے......نعت خواں کی سوز بھری آواز مجھے دوبارہ اس محفل اور ماحول میں کھینچ لاتی ہے:
واں آپ مچل جاتی ہے اظہار کی خوشبو
طیبہ کی فضاوں میں ہے سرکار کی خوشبو
معراج بشر نام ہے جس طرز عمل کا
لاریب ہے آقا تیرے کردار کی خوشبو
اک فرش پہ موقوف نہیں عرش پہ آقا
ہر سمت ہے پھیلی تیرے اذکار کی خوشبو
(م ب شائق)
میں نے محفل پر نگاہ ڈالی، ہر آنکھ اشک بار اور ہر چہرے پر عشق و مستی کی کیفیت چھائی ہوئی تھی۔
زمان و مکان کی حدود و قیود سے آزاد ، مدینہ سے ہزاروں میل دور اور چودہ صدیوں کی مسافت پر بیٹھےان لوگوں کی محبت کتنی نرالی اور سچی تھی۔ اس محفل کا ہر شخص شہر نبی کا راہی اور مدینے کا مسافر تھا۔
میں سوچنے لگا کتنا سچ کہا تھا میرے رب نے کہ میں نے اپنے محبوب کا نام ہمیشہ کے لیے بلند کردیا۔
آپ کے دشمن اور آپ کو نیچا دکھانے والے بے نام و نشان ہوگئے اور آپ کا نام کروڑوں دلوں میں دھڑکن بن کر رچ بس گیا...........
میں نے کھڑکی سے باہر جھانکا تو چاندنی کا منظر پہلے سے زیادہ اجلا ، نکھرا اور شفاف لگ رہا تھا۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔