شعبہئ طب کی زبوں حالی،اصل ذمہ دار کون؟

   شعبہئ طب کی زبوں حالی،اصل ذمہ دار کون؟
   شعبہئ طب کی زبوں حالی،اصل ذمہ دار کون؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ڈاکٹروں کا اُسی طرح نمائندہ ادارہ ہے جیسے وکلاء کا پاکستان بار کونسل ہے۔پی ایم اے پاکستان نے لاہور میں میو ہسپتال کے دورے میں وزیراعلیٰ مریم نواز کے ایک سینئر پروفیسر ڈاکٹر کے بارے میں ریمارکس پر اعتراض تو کیا ہی ہے تاہم اِس میں بہت اہم نکات اُٹھائے گئے ہیں اس میں مسائل کی اصل جڑ بیورو کریسی کو قرار دیا گیا ہے،جو عین وقت پر ساری ذمہ داری ہسپتال کے انتظامی ڈاکٹروں پر ڈال کر خود فرشتہ بن جاتی ہے۔اِس حوالے سے جو پریس ریلیز جاری کی گئی ہے اس میں لکھا ہے ”پی ایم اے اِس بات کو واضح کرنا چاہتی ہے کہ ڈاکٹر سرکاری ہسپتالوں کے مالی معاملات کے ذمہ دار نہیں،اُن کی بنیادی ڈیوٹی مریضوں کو طبی امداد  فراہم کرنا ہے۔حکومت کا بیورو کریٹک سسٹم دوسری طرف ہسپتالوں کی مناسب اور جلد وسائل کی فراہمی کا ذمہ دار ہے،جو ہمیشہ اپنی ذمہ داری میں ناکام رہتا ہے“۔ پریس ریلیز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”حکومت اس کرپشن کی تحقیق کرائے جو بیورو کریٹک سسٹم مریضوں کی ویلفیئر کے نام پر جاری رکھے ہوئے ہے۔یہ سسٹم وقت پر فنڈز فراہم نہیں کرتا، جس کے باعث مریضوں کو دی جانے والی فری ادویات اور سہولتوں میں تعطل آ جاتا ہے“۔ اس پریس ریلیز کا بنیادی مفہوم یہ ہے حکومت جو درحقیقت بیورو کریسی کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے سارا نزلہ ڈاکٹروں پر گراتی ہے، حالانکہ سرکاری ہسپتالوں کے حالات اُن بیورو کریٹس کی وجہ سے خراب ہوتے ہیں،جو وسائل کی تقسیم کرتے ہیں، اُن کی ترجیحات کچھ اور ہوتی ہیں اور مریضوں کی بہبود اُن کا کبھی موقعہ ہوتا ہی نہیں،میں سمجھتا ہوں پہلی بار ایک ایسا تیسرا چھپا ہوا  فریق سامنے آیا ہے،جو سارے نظام کو مفلوج کئے ہوئے ہے۔ہمارے ہاں ہوتا یہ رہا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں کے حوالے سے جتنی بھی خرابیاں ہیں اُن کی ذمہ داری عوام حکومت پر ڈالتے ہیں اور حکومت ڈاکٹروں پر ڈال کر اپنا غصہ نکالتی ہے۔بیورو کریسی جو سارے نظام پر آسیب بن کر مسلط ہوتی ہے بڑی آسانی سے کنی کترا کے نکل جاتی ہے۔اب یہ میو ہسپتال کا معاملہ ہی دیکھئے۔ فنڈز کئی ماہ سے فراہم نہیں کئے جا رہے تھے، قرضہ اتنا چڑھ گیا تھا کہ ادویات فراہم کرنے والے ٹھیکیداروں نے ہاتھ کھڑے کر دیئے تھے یقینا اِس بارے میں ایم ایس اورسی ای او نے محکمہ ہیلتھ کے سیکرٹری کو کہا ہو گا، مگر معاملات کو اسی طرح چلنے دیا گیا وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز میو ہسپتال کا دورہ نہ کرتیں تو شاید یہ معاملہ اِسی طرح لٹکا رہتا۔انہوں نے مریضوں کے لواحقین کی بپتا سُن کر ایکشن لیا اور زد میں ظاہر ہے ایم ایس نے آنا تھا،چاہئے تو یہ تھا ایم ایس اُسی وقت وزیراعلیٰ کو بتاتے کہ میو ہسپتال کے پاس فنڈز ہی نہیں اور ادویات خریدنا ممکن نہیں رہا،مگر وہ اس اچانک صورتحال کی وجہ سے سنبھل نہ سکے تاہم اگلے دن وزیراعلیٰ مریم نواز نے جب معاملے کی چھان پھٹک کی تو حقائق سامنے آئے، جس کے بعد میو ہسپتال کو فوری فنڈزجاری کرنے کی منظوری دے دی گئی۔

ایک سینئر پروفیسر ڈاکٹر فیصل مسعود کے ساتھ جو کچھ ہوا اب اُس کی تلافی تو نہیں ہو سکتی،مگر اس واقعہ سے ایک سبق ضرور ملا ہے کہ پہلے جیسا کہ پی ایم اے نے بھی کہا ہے ہسپتالوں کو مطلوبہ فنڈز فراہم کئے جائیں،اُس کے بعد یہ دیکھا جائے کہ مریضوں کو ادویات مل رہی ہیں یا نہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے سی ایس پی کلاس پر مشتمل بیورو کریسی کو دودھ کا دھلا طبقہ سمجھ لیا ہے۔اُس سے باز پُرس ہو سکتی ہے اور نہ کوئی حاکم وقت کسی بیورو کریٹ کو یہ کہہ سکتا ہے میں چاہتا تو تمہیں گرفتار بھی کرا سکتا تھا،لیکن صرف عہدے سے ہٹا رہا ہوں۔حیرت اِس بات پر بھی ہوتی ہے کہ ماضی و حال میں ہم نے دیکھا ہے کہ یہی بیورو کریٹس ایسے دوروں کے وقت وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کے ساتھ ہوتے ہیں،مگر  مجال ہے وہ موقع پر انہیں بتائیں کہ حضور ہم نے تو ہسپتال کو ابھی گرانٹ ہی فراہم نہیں کی،یہ دوائیاں کیسے دے سکتے ہیں۔ وہ معصوم بن کر ساتھ چلتے رہتے ہیں اور کسی بیسویں، اکیسویں گریڈ کے پروفیسر کی سرزنش ندامت محسوس کرنے کی بجائے فخریہ انداز سے وزیراعلیٰ کو دیکھتے ہیں۔یہ جعلی نظام اب ختم ہونا چاہئے، جو جتنا ذمہ دار ہے اُس سے اتنی ہی باز پُرس ہونی چاہئے، کسی کو ماورائی مخلوق قرار نہیں دیا جا سکتا، مذہب معاشروں میں ایسی تفریق نہیں ہوتی کہ ایک طرف نظام کے ذمہ دار غفلت کا مظاہرہ کریں اور دوسری طرف جن کے ہاتھ میں کچھ نہ ہو وہ رگڑے جائیں۔ پی ایم اے کی اِس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ مریضوں کی ویلفیئر کے نام پر بیورو کریٹک سطح پر جو کرپشن ہو رہی ہے اُسے روکا جائے،اس کی تحقیق کی جائے کہ حکومت بجٹ میں،جو اربوں روپے مفت ادویات اور ہسپتالوں کے لئے مختص کرتی ہے وہ کہاں جاتے ہیں، کیسے خرچ ہوتے ہیں تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں، ہسپتالوں میں تعینات ڈاکٹروں کی سطح پر اور صفوں میں کوئی خرابی نہیں۔یہ درست ہے کہ ادویات کی فراہمی کے لئے فنڈز کی فراہمی ضروری ہے تاہم ڈاکٹروں کی خدمات کی فراہمی میں جو کمیاں موجود ہیں، اُن کی ذمہ داری سے وہ بری الذمہ نہیں ہو سکتے، کیونکہ ادویات کی فراہمی تو فنڈز کی عدم دستیابی سے رُک جاتی ہے،مگر ڈاکٹروں اور طبی عملے کی تنخواہیں تو سرکاری خزانے سے ملتی رہتی ہیں۔ سب سے بڑی شکایت جس پر کبھی پی ایم اے نے بھی توجہ نہیں دی،وہ سرکاری ہسپتالوں میں سینئر ڈاکٹروں کی عدم موجودگی ہے اس میں کوئی مبالغہ نہیں، سرکاری ہسپتال عملاً جونیئر ڈاکٹرز چلاتے ہیں، نگرانی کا جو نظام سینئر ڈاکٹروں کی وجہ سے موثر اور مفید ہو سکتا ہے وہ موجود نہیں،ڈیوٹی کے اوقات میں پرائیویٹ پریکٹس کے بارے میں پی ایم اے نے کبھی اپنے ضابطہ ئ اخلاق کے ذریعے اپنی رائے نہیں دی،نہ ہی ایسا کوئی فرمان جاری کیا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں کے اوقات میں کوئی سینئر ڈاکٹر اپنا نجی کلینک نہ چلائے۔ پی ایم اے نے یہ تو کہہ دیا ہے کہ ڈاکٹروں کی بنیادی ذمہ داری مریضوں کی دیکھ بھال ہے لیکن کیا اس پر عمل ہو رہا ہے؟سرکاری ہسپتالوں کے بارے میں عوام عدم اعتماد کا شکار کیوں ہیں؟ کبھی اس حوالے سے بھی سینئر ڈاکٹروں کو سوچ بچار کرنا چاہئے۔ اس سارے معاملے میں جو سب سے زیادہ عوامی تنقید کی زد میں آتا ہے، وہ صوبے کی حکومت اور وزیراعلیٰ ہوتا ہے،حالانکہ نیچے کا پورا سسٹم کسی اور کے ہاتھ میں ہوتا ہے،جس کے دو بنیادی فریق ہیں، بیورو کریسی اور ڈاکٹرز، ڈاکٹرز بھی کسی نہ کسی وقت زد میں آ جاتے ہیں، مگر پورے نظام پر حاوی بیورو کریسی صاف بچ نکلتی ہے۔ یہ مسئلہ خاصا پیچیدہ ہے اس کا حل اس کے سوا کوئی نہیں کہ سب اپنے سوئے ہوئے ضمیر کو جگائیں اور اپنا فرض ادا کریں،مگر پاکستان میں ایسی باتیں معجزہ شمار ہوتی ہیں۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -