ٹریفک چالانز کی ریکارڈ آمدن پر مبارک باد
دنیا کے ہر معاشرے میں قانون شکنی پر جرمانے عائد کرنا ایک عمومی بات ہے جس کا مقصد لوگوں کو قانون کا تابع بنانا اور ا ن کے اندر اس کی پاسداری اور احترام پیدا کرنا ہوتا ہے۔ایک اخباری اطلاع کے مطابق صرف لاہور ٹریفک پولیس نے سال 2024 میں 3.7 ملین کے چالان کر کے ریکارڈ ساز کامیابی حاصل کی۔یعنی یہ صرف ایک شہر کا ڈیٹا ہے جس کا دائرہ اگر پھیلا دیا جائے تو لگے گا کہ پاکستانی قوم پچھلے سال صرف ٹریفک چالان ہی کرواتی اور اسے ادا کرتی رہی، اس بات کی صداقت کا تو علم نہیں لیکن سننے میں آیا ہے کہ ٹریفک اہلکاروں کو روزانہ کی بنیادپر چالان کرنے کا ٹاسک دیا جاتا ہے کہ اتنی تعداد میں عوام پر جرمانے عائد کرنا آپ کے ذمے ہیں۔سڑکوں پر صبح سویرے کھڑے اہلکاروں کے رویوں اور انداز سے یہ بات درست بھی معلوم ہوتی ہے کہ علی الصبح بچوں کو سکول چھوڑنے جاتے، ناشتہ کے لیے دودھ دہی لینے نکلے اور رزق روزی کی تلاش میں کام پر جاتے ہوئے افراد کی سڑکوں پر لائنیں لگی دیکھنا روز کا معمول ہے۔ان ٹریفک اہلکاروں کا کسی سڑک کے موڑ پر خفیہ طریقے سے کھڑے ہوکر شکار کی طرح گھات لگانا بحیثیت مجموعی ہمارے نظام کی کمزوریوں کا منہ چڑاتا ہے۔ صوبائی دارلحکومت میں اتنی بڑی تعداد میں چالان اور جرمانوں کی یہ خبر ہو سکتا ہے کہ ٹریفک پولیس کے محکمے میں اسے بطور کریڈٹ پیش کیا گیا ہو لیکن بطور قوم یہ بہت شرمناک خبر ہے۔سال کے دنوں پر اسے تقسیم کریں تو کم و بیش روزانہ کی بنیاد پر دس ہزار سے بھی زائد چلان بنتے ہیں جن کو دوہزار پر تقسیم کریں تو ہر دن لاہور والوں کو دوکروڑ ٹریفک پولیس کی خدمت میں پیش کرنا ہوتے ہیں جو سالانہ تقریباً ساڑھے سات ارب روپے بنتے ہیں۔ ہو سکتا ہے اس عظیم کامیابی کے بعد ذہین و فطین پالیسی سازوں نے اگلے سال اس کا حجم مزید بڑھائے جانے کے احکامات صادر فرمائے ہوں جو بعید از قیاس نہیں۔ چالان کی رقم دو سو یا پانچ سو سے بڑھا کر ایک دم دو ہزار کرنا اور پھر چالانوں کا ٹارگٹ مقرر کرنا ایسا گھناؤنا عمل ہے جس کی کسی بھی طرح سے ستائش نہیں کی جا سکتی۔چالان کی رقم میں کئی سو گنا اضافہ کرنیو الوں کو موٹر سائیکل سواروں کی روزمرہ آمدن کو بھی سامنے رکھ کر کوئی پالیسی بنانی چاہیے کہ ان میں زیادہ تر اپنی محنت مزدوری پر نکلے ہوئے لوگ ہوتے ہیں جن کی پورے دن کی انکم ہی اتنی نہیں ہوتی جتنا دن نکلتے ہی ان کا چالان ہو جاتا ہے۔کالج یونیورسٹی جاتے ہوئے طلبا کو اکثر گھر والوں یا دوستوں کو کال کرنا پڑتی ہے کہ اکاؤنٹ میں پیسے بھیجیں تا کہ چالان جمع کروایا جا سکے۔جتنی جلدی اور فوری چالان کی رقم وصول کی جاتی ہے اللہ کرے کہ اسی طرح موقع پر ہی لوگوں کے مسائل بھی حل ہونا شروع ہو جائیں تو کسی حد تک ان کی یہ پریشانی کم ہو سکے کہ چلو اگر جرمانہ فوری ہوتا ہے تو انصاف بھی تو فورا مل جاتا ہے۔مزے کی بات ہے کہ عدالتوں سے غیر قانونی قرار دئیے جانے والے موٹر سائیکل رکشے اور لوڈر کے چالان کے دن مقرر ہیں کہ ایک چالان کروا لینے پر وہ اگلے کچھ دن بغیر روک ٹوک کے اپنا کام کر سکتے ہیں۔لوڈر رکشے ریٹ طے کرتے وقت چالان کے پیسے بھی مالک سے وصول کر تے ہیں کہ اس طرف جانا ہے تو ہمیں چالان کروانا پڑے گا جس کی رقم آپ کے کرائے میں شامل ہو گی۔ یعنی عدالت کی طرف سے غیر قانونی قرار دئیے جانے والی چیزیں بھی سرعام چالان کی رقم ادا کرنے پر سڑکوں پر دندناتی پھر رہی ہیں جس کو کم سے کم الفاظ میں مضحکہ خیز ہی کہا جا سکتا ہے۔یعنی آپ پیسے دیتے جائیں اور جان لیوا سواری کو سڑک پر دوڑاتے پھریں۔کیونکہ لوگوں کی جان اور ٹیکس دینے والوں کے لیے ٹریفک کی روانی سے زیادہ محکمے اور حکومت کے لیے ریونیو اکٹھا کرنا زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ترقی یافتہ اور باشعور معاشروں میں قانون کا احترام جرمانوں سے نہیں تربیت سے سکھایا جاتا ہے جس کا آغازاوائل عمر سے ہی کر دیا جاتا ہے۔ ان کے ہاں بھی جرمانے ہوتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ڈرائیونگ لائسنس کے پوائنٹ بھی گرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ہمارا نظام ٹریفک قوانین کی پابندی نہیں بلکہ جرمانوں کے کلچر کو عام کرنے پر اپنی توانائیاں صرف کر رہا ہے کہ یہ ایک ذریعہ آمدن بنا رہے۔جب جرم کو سورس آف انکم بنا لیا جائے گا تو معاشرہ آہستہ آہستہ لاقانونیت کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔پچھلی حکومتوں میں ایسے سکینڈل بھی سامنے آتے رہے کہ کسی حکومتی لاڈلے نے ہیلمٹوں کے کنٹینرز منگوا لیے اور ساتھ ہی صوبے بھر میں اس کو لازمی قرارد ے دیا گیا اور دھڑا دھڑ چالان ہونے لگے۔ جب یہ سٹاک بک چکا تو اس کے بعد حالات پھر معمول پر آ گئے۔ ان چالانوں کا دائرہ اگر سڑکوں پر کھڑی ریڑھیوں اور رستوں کو مسدود کرنے والے عوامل پر لگائیں تو حیران کن چیزیں سامنے آئیں گی کہ روزانہ کی بنیاد پر کہاں کہاں سے پیسہ کن کن اداروں اور اہلکاروں کی جیبوں تک جا رہا ہے۔ اگر کسی نے کارپوریشن کی گاڑیوں کو ریڑھی بانوں کی پھلوں کی ریڑھیوں اور رستوں میں لگائے گئے ٹھیلوں کو اٹھانے کے منظر اور پھر اگلے ہی دن دوبارہ ویسے ہی سب کو وہاں بیٹھا دیکھا ہو تو آپ کو واقعی اس ماحول سے گھن آنے لگے گی کہ یہ بھی جرمانہ ادا کر کے دوبارہ وہیں آ بیٹھے ہیں۔لوگوں کو قانون کا عادی بنائیں جرمانوں کا نہیں۔جرمانوں کی آمدن کسی بھی مہذب قوم کا افتخار نہیں بلکہ شرمندگی ہوتی ہے۔ وردی کے بغیر لوگوں سے پیسہ اکٹھا کریں تو بھتہ خوری اور وردی پہن لیں تو سرکاری جرمانہ۔ بات تو ایک ہی ہے۔