”مذہبی جماعتوں کا کردار“…… ایک جائزہ
پاکستانی سیاست پر لکھنے والوں میں ایک نیا نام جناب ذبیح اللہ صادق بلگن کا ہے۔ ان کی تازہ کتاب ”پاکستانی سیاست…… مذہبی جماعتوں کا کردار (1947ء سے تاحال)“ ہے۔ اسے ”نگارشات“ نے356 صفحات پر شائع کیا ہے۔ کتاب کا بیک پیج بتاتا ہے کہ مصنف کی اس سے پہلے مندرجہ ذیل تین تصانیف منظر عام پر آ چکی ہیں:
٭…… بین الاقوامی انسانی اسمگلنگ
٭…… پاکستان میں بین الاقوامی مداخلتیں
٭…… پاکستانی جماعتیں اور غیر ملکی فنڈنگ
یہ کتابیں میری نظر سے نہیں گزریں۔البتہ مذہبی جماعتوں والی کاوش کا مَیں نے بصد ذوق و شوق مطالعہ کیا ہے۔اس کا بڑا سبب میرا اپنا بچپن سے دینی رجحان ہے۔ پہلے پہل مَیں وہابی سُنی کے جھگڑے بہت دلچسپی سے سنتا اور پڑھتا رہا۔ پھر مولانا مودودیؒ کی تحریروں نے مجھے ایسا جذب کیا کہ مَیں وہ جھگڑے بھول بھال گیا۔اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی سے وابستگی نے مجھے مذہبی سیاست کو بہت نزدیک سے سمجھنے کا موقع دیا۔مَیں نے جناب بلگن کی کتاب کا جماعت اسلامی والا باب(صفحہ53 تا 108) بغور پڑھا اور اسی پر اظہارِ خیال کر رہا ہوں۔
جناب بلگن نے جماعت اسلامی کے نظریات اور حکمت ِ عملی پر جامعیت کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ اندازِ بیان سے کہیں جانبداری کا گمان نہیں گزرتا،لیکن ایسے موضوعات پر جب قلم اٹھایا جاتا ہے تو اتنا ہی کافی نہیں ہوتا۔فاضل مصنف نے ایک تو حقائق و واقعات کی زیادہ چھان پھٹک نہیں کی۔بس جو ملا اور جیسا ملا اسے ترتیب دے دیا۔ دوسرے، ایسے موضوعات جس قسم کی سنجیدہ اور پختہ زبان چاہتے ہیں وہ بلگن صاحب کو میسر نہیں۔ تیسرے، کتاب لکھنے کے بعد اسے دوبارہ یا سہ بارہ پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔پروف کی ایسی ایسی فاش غلطیاں ہیں کہ پوری کتاب درجہ اعتبار سے گر جاتی ہے، مثلاً صفحہ54 پر مصری عالم قاسم امین بے کا نام ”قاسم دین“ اور مولانا حمید الدین فراہی کا نام مولانا فرید الدین فراہی درج کر دیا ہے۔اگلے صفحہ پر مولانا مودودیؒ کے کتابچہ ”اسلام کا سر چشمہ ئ قوت“ کو ”اسلام کا چشمہ ئ قدرت“ لکھ دیا ہے۔ صفحہ77پر نواب آف کالا باغ کا نام چودھری محمد علی خان رقم کیا ہے۔ اس نوع کی غلطیاں پوری کتاب میں بار بار دہرائی گئی ہیں۔ صفحہ144 پر مولانا سید ابو الحسنات کو بتکرار مولانا عبدالحسنات لکھا ہے۔
بعض مشہور و معروف حقائق کا بُری طرح تیا پانچہ کیا گیا ہے۔ مثلاً لکھا ہے کہ جماعت اسلامی کا تاسیسی اجتماع پٹھان کوٹ میں ہوا تھا،حالانکہ مذکورہ مقام پٹھان کوٹ نہیں، اسلامیہ پارک لاہور تھا۔ایک جگہ لکھتے ہیں:جماعت پر قیام پاکستان کا مخالف ہونے اور اس کے بانی مولانا مودودیؒ پر یہ الزام دہرایا جاتا ہے کہ انہوں نے قائداعظم ؒ کو کافر ِ اعظم قرار دیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ در فتنی مجلس احرار کے نامور رہنما مولانا مظہر علی اظہر کی چھوڑی ہوئی تھی۔انہوں نے لاہور میں غلام غوث ہزاروی کی صدارت میں ہونے والے ایک جلسہ عام میں یہ افواہ اڑائی تھی“ (صفحہ63)
فاضل مصنف نے ”در فتنی“ اور ”افواہ اڑانے“ کے الفاظ غیر ذمہ داری سے استعمال کئے ہیں۔اصل واقعہ یہ ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے لاہور کے ایک جلسہ ئ عام میں مولانا مظہر علی اظہر نے جو مجلس ِ احرار کے صدر تھے،قائداعظم کو کافرِ اعظم کہا تھا اور باقاعدہ اپنا یہ شعر پیش کیا تھا:
اِک کافرہ عورت کے لئے دین کو بیچا
یہ قائداعظم ہے کہ ہے کافرِ اعظم
اسی طرح بلگن صاحب نے ایوب دور کے ادارہ تحقیقات اسلامیہ کے سربراہ ڈاکٹر فضل الرحمن کے بارے میں صفحہ78 پر لکھا ہے کہ مولانا مودودیؒ نے انہیں کافر قرار دلوانے اور انہیں ملک سے باہر نکلوانے کا حکومت سے مطالبہ کیا تھا،حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ مولانا نے ڈاکٹر صاحب کے خلاف کفر کا فتویٰ دیا اور نہ یہ کہا کہ انہیں ملک سے نکال دیا جائے۔ ایسے فتوے دینا اور مطالبے کرنا مولانا مودودیؒ کے مزاج کے خلاف تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے عہد ِ حکومت میں اپوزیشن جماعتوں نے ”متحدہ جمہوری محاذ“ نام سے ایک اتحاد ضرور قائم کیا تھا،لیکن فاضل مصنف کا یہ کہنا کہ ”آخر کار تنگ آ کر حکومت نے1975ء میں اس اتحاد پر پابندی عائد کر دی اور عدالت نے پابندی برقرار رکھی ”سرا سر خلافِ واقعہ ہے۔مزید لکھتے ہیں کہ ”عدالت نے اپنے فیصلے میں اس اتحاد کی مرکزی و صوبائی قیادت کی اسمبلیوں سے رکنیت کے خاتمے کا بھی اعلان کر دیا“۔ (ص86:)اسی طرح صفحہ91 پر یہ جو رقم فرمایا ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد سے مشاورت کے نتیجے میں مجلس شوریٰ قائم کی تھی، معلوم نہیں مصنف کا ذریعہ معلومات کیا ہے۔
مذہبی جماعتوں اور ان کے اندر سے پھوٹنے والی گروہ بندیوں کی تفصیلات بلاشبہ قاری کے سامنے مذہبی سیاست کے خدوخال کو نمایاں کر دیتی ہیں۔اس اعتبار سے معلومات کافی محنت سے اکٹھی کی گئی ہیں۔البتہ جماعتوں کے قیام کے پیچھے کار فرما خفیہ ہاتھوں کا بہت کم ذکر کیا گیا ہے،حالانکہ خفیہ ہاتھوں نے صرف اسلامی جمہوری اتحاد ہی نہیں بنوایا تھا اور بھی بہت کچھ انجام دیا تھا،کاش کوئی طاقتور قلم ان ہاتھوں کو جرأت کے ساتھ بے نقاب کر دے!
خوب کیا ہے زِشت کیا ہے،
جہاں کی اصلی سرشت کیا ہے
بڑا مزہ ہو تمام چہرے
اگر کوئی بے نقاب کر دے
(حفیظ جالندھری)