آپ دونوں بہادر ہیں مگر ہم کمزوروں کا خیال کیجیے
یوں تو ہمارا ملک معاشی، سماجی اور دفاعی طور پر پچھلی چند دہائیوں سے بدستور کمزور ہوتا آ رہا ہے، لیکن آخری دو تین سال میں حالات اتنی تیزی سے بگڑ رہے ہیں کہ عوام کا اعتماد ہی اٹھ گیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قیادت کی لڑائی بھی کوئی نئی بات نہیں یہ ہم 50 کی دہائی سے بھگت رہے ہیں. لیکن موجودہ اسٹیبلشمنٹ اور ایک سیاسی قوت کی محاذ آرائی نے ملک کو معاشی طور پر اس قدر کمزور کر دیا ہے کہ کسی طرف روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آ رہی، جو دو قوتیں دست و گریبان ہیں دونوں اپنی اپنی انا، اپنی اپنی طاقت اور اپنی بہادری کے جوہر دکھاتے ہوئے ہار ماننے پر آمادہ نظر نہیں آتی ہیں جبکہ جن کی ذمہ داری بنتی تھی کہ بیچ بچاؤ کراتے وہ اقتدار کے مزے لوٹنے میں اس طرح مصروف ہیں کہ وہ اس لڑائی کو طول دینے کے لیے ہلا شیری دے رہے ہیں جب کسی ریاست میں شخصیات کی انا ریاستی مفادات سے بالاتر ہو جاتی ہے تو پھر اس ریاست کی سلامتی خطرے میں ہوتی ہے. یہی کچھ پاکستان کے ساتھ ہو رہا ہے.عمران خان کتنے دلیر یا بہادر ہیں اور ان کے مخالفین کس قدر تگڑے اور نہ جھکنے والے ہیں،اس سے کہیں زیادہ اہمیت ملکی سلامتی کی ہے ،اس ملک کو آج تک شخصیات کی لڑائی نے آگے بڑھنے نہیں دیا ،جنرل ایوب خان سے جنرل عاصم منیر صاحب تک ہمارے تمام فوجی جنرلز بہت ہی بہادر رہے ہیں،جن کے اشارے پر اس ملک کے بڑے سے بڑے سویلین حکمران اور سیاستدان جھا گ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں. اگر کوئی اڑ گیا تو وہ دار پر بھی جھوم گیا،دنیا بھی ہمارے جنرلز کی طاقت کی معترف ہے اسی لیے دنیا کے سربراہان جب بھی پاکستان سے کوئی لین دین کرتے ہیں تو وہ ہمارے فوجی سربراہان سے ملاقات کر کے ان کی تائید حاصل کرتے ہیں.ہمارے ملک کے داخلی اور خارجی امور پر بھی ہمارے جنرلز صاحبان کی دسترس رہتی ہے.اگر کوئی جمہوری حکومت کبھی کوئی معاہدہ جنیوا پر دستخط کر بھی دے یا کسی کیری لوگر بل کے ذریعے بیرون ملک سے برائے راست کوئی مالی مدد لے بھی لے تو پھر اس حکومت کو معزول، معذور یا مجبور کر دیا جاتا ہے.اب تو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی ایک ہی دوڑ لگی ہوئی ہے کہ کس طرح اسٹیبلشمنٹ کی زیادہ سے زیادہ قربت حاصل کی جائے یہ سیاسی قوتوں کی طرف سے کھلا اعتراف ہے کہ ہم طاقتور اداروں کی بیساکھیوں کے بغیر اقتدار میں آ سکتے ہیں نہ رہ سکتے ہیں.جو سیاسی جماعت آج عوامی حمایت کے زعم میں اسٹیبلشمنٹ کے سامنے خود سری کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہے وہ بھی اس بات کی منتظر ہے کہ ہمیں قبولیت کا شرف مل جائے. چلو ہم مان لیتے ہیں کہ عمران خان اور اس کی جماعت بہت بہادر ہے اور انصار عباسی صاحب کے صائب مشوروں کے باوجود اپنی پوزیشن چھوڑنے پر آمادہ نہیں اور واقعی حقیقی آزادی کی جدوجہد کر رہی ہے. تو کیا وہ اس جنگ میں جیت سکیں گے؟ اور اگر جیت بھی گئے اور عوامی طاقت سے اقتدار کی مسند تک پہنچ بھی گئے تو کیا وہ اپنے وطن کو موجودہ منجدھار سے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ دوسری طرف اگر فوجی اسٹیبلشمنٹ عمران خان اور اس کی جماعت کو راستے سے ہٹانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو کیا پھر ملک میں استحکام اور خوشحالی آ جائے گی؟ کیا عوام اور فوج کے بیچ اس گہری اور چوڑی خلیج کو پاٹا جا سکے گا؟ اس خاکسار کو تو یہ دونوں صورتوں میں کوئی بہتری نظر نہیں آتی،اس وقت بلوچستان میں کشیدگی اپنے عروج پر ہے ،خیبر پختون خوا اضطراب میں ہے اور ہمارے قبائلی علاقوں میں دہشت گرد کارروائیوں کا زور ہے.افغانستان سے تعلقات مثالی ہیں نہ بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا کوئی امکان ہے تو کیا ہم اس اندرونی خلفشار کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ کیونکہ دنیا کی کوئی بھی فوج عوام کی تائید و حمایت کے بغیر ملکی سرحدوں کا دفاع نہیں کر سکتی،جنگ صرف ہتھیاروں اور بہادری سے نہیں لڑی جا سکتی،انصار عباسی صاحب سمیت کئی دانشور اور لکھاری عمران خان کو مشورے دے رہے ہیں کہ خان صاحب کچھ دیر کے لیے اپنا منہ بند رکھیں اور اپنے سوشل میڈیا بریگیڈ کو بھی ہتھیار رکھنے کو کہیں اس طرح آپ کے دن بھی پھر جائیں گے.لیکن خان صاحب ایسے کرنے کو اپنی بزدلی سمجھتے ہیں اور ان کی منشاء یہ ہے کہ پہلے مقتدرہ ہم سے بات کرے جبکہ مقتدرہ کو اپنی طاقت کا زعم ہے اور ان کے خیال میں ان کی طرف سے مفاہمت کا ہاتھ بڑھانے کا مطلب ہے کہ وہ سیاسی قوتوں کے سامنے جھک گئے ہیں جو کسی بھی طور انہیں قبول نہیں ہے. ہم مانتے ہیں کہ آپ دونوں ہی طاقتور ہیں. آپ دونوں ہی بہت بہادر ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ 24 کروڑ عوام کدھر جائیں؟ آپ دونوں کو تحفظ مل جائے گا لیکن اس 24 کروڑ اور ان کی نسلوں کا پاکستان کے سوا کوئی ٹھکانا نہیں اور اس لڑائی اور محاذ آرائی میں سارا نقصان ملک اور عوام کا ہو رہا ہے.اس ساری صورتحال کے پیش نظر یہ خاکسار اپنی پاک فوج کے سربراہان سے ہی عرض کرتا ہے کہ اس محاذ آرائی کے خاتمے کا سوچیں کیونکہ یہ صرف آپ کے اختیار میں ہے.دوسرا فریق جتنا بھی بہادر ہو وہ پھر بھی زیر عتاب ہے ، آپ اپنی سوچ میں لچک پیدا کریں ورنہ اگر عمران خان کو بھی آپ رام کر لیں عوام کااعتماد آپ پر بحال نہیں ہوگا. عوام کو مطمئن کرنے کے لیے بڑے اور مشکل فیصلے کرنے ہوں گے.فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور عوام کو اختیار دے کر ساری توجہ ملکی سرحدوں پر مرکوز کرنا ہوگی، اگر ہماری مغربی سرحد پر حالات مزید بگڑے تو ہماری مشرقی اور شمالی سرحدوں کی حفاظت ممکن ہو گی کہ نہیں؟ ہمارا دشمن دنیا کا مکار ترین دماغ رکھتا ہے اور ہمہ وقت ہماری کمزوریوں پر نظر رکھے ہوئے ہے.ہو سکتا ہے کہ آپ حق پر ہوں اور سارا قصور عمران خان اور ان کے ساتھیوں کا ہو،جن سیاستدانوں نے واقعی کرپشن کی ان سے بھی کچھ برآمد نہ ہو سکا بلکہ ان کو پھر سے اقتدار ملتا رہا ،لہذا اب آپ ہی کو پہل کرنا ہوگی تاکہ ملک کو مشکلات سے نکالا جا سکے۔